ہند نژاد امریکی ماہر تعلیم اور اسکالر اکھلیش لکھٹکیا امریکہ اور ہندوستان کی یونیورسٹیوں کے مابین شراکت داریوں کو فروغ دینے کے لیے کوشاں ہیں ۔ وہ امریکی حکومت کی نمائندگی کرتے ہیں۔
January 2024
اکھلیش لکھٹکیا پینسلوانیا اسٹیٹ یونیورسٹی میں انجینئرنگ سائنس اور میکانِکس کے پروفیسر ہیں۔ وہ امریکہ۔ہند اعلیٰ تعلیمی شراکت داریوں کے معاملے میں ایک ماہر رابطہ کار بھی ہیں۔ (تصویر بشکریہ اکھلیش لکھٹیکیا)
اکھلیش لکھٹکیا پنسلوانیا اسٹیٹ یونیورسٹی (پین اسٹیٹ) میں انجنیئرنگ سائنس اور میکانکس کے پروفیسر ہیں۔ اس ادارے کو وہ چار دہائیوں سے اپنا تعلیمی گھر قرار دیتے ہیں۔ ان کے بہترین تعلیمی ریکارڈ پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے ۲۷ کتابیں لکھیں،ان کے ۹۴۰ مضامین مختلف جرائد میں شائع ہوئے ، انہوں نے ۴۲۰ کانفرنسوں میں شرکت کی اور پرچے پڑھے اور ۳۴ کتابوں میں ان کے ابواب شامل کیے گئے۔
لکھنؤ میں پیدا ہونے والے لکھٹکیا نے انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (بنارس ہندو یونیورسٹی) سے بی ٹیک کی ڈگری اور یونیورسٹی آف یوٹاہ سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے۔ لکھٹکیا امریکہ۔ ہند اعلیٰ تعلیمی شراکت داریوں کے ماہررابطہ کار ہیں اور امریکہ۔ ہند اعلیٰ تعلیمی شراکت داری کمیٹی میں امریکی ارکان کے چیئرمین بھی ہیں۔ دونوں ملکوں میں سرکاری سطح پر کام کرنے والی اس تنظیم کا قیام مئی ۲۰۲۳ء میں امریکہ۔ ہند تعلیمی اور ہنر کی ترقی سے متعلق ایک کارگزار گروپ کے حصے کے طور پر عمل میں آیا ۔ امریکی محکمہ خارجہ میں جیفرسن سائنس فیلو کی حیثیت سے لکھٹکیا دسمبر ۲۰۲۳ء میں دو ہفتوں کے دورے پر ہندوستان تشریف لائے۔
پیش ہیں ان سے لیے گئے انٹرویو کے اقتباسات۔
براہ کرم ہمیں امریکہ اورہندوستان کی یونیورسٹیوں کی پہلے سے ہی موجود شراکت داری کے بارے میں بتائیں ۔ یہ بھی بتائیں کہ آئندہ اس شراکت داری سے کیا توقعات وابستہ کی جاسکتی ہیں۔
امریکہ میں ۴۵۰۰ اور ہندوستان میں تقریباً ۵۵۰۰۰ اعلیٰ تعلیمی کیمپسوں کے ساتھ ۵۰ لاکھ ہندوستانی تارکین وطن کی موجودگی دونوں ممالک کے درمیان اعلیٰ سطح کے تعلیمی اور تحقیقی تعاون کی ضمانت دیتی ہے۔ فی الحال اس تعاون کا بیشتر حصہ غیر رسمی ہے جو عام طور پر ہندوستانی اور امریکی محققین کے درمیان ہے اور جس کی جڑیں بیشتر ہندوستان ہی میں پائی جاتی ہیں۔
تاہم گذشتہ دو برسوں میں امریکہ اورہندوستان کی یونیورسٹیوں کے درمیان کئی نئی شراکت داریوں کو باضابطہ شکل دی گئی ہے۔ ان میں انڈر گریجویٹ سطح پر ۲ جمع ۲ اور ۳ جمع ایک پروگرام شامل ہیں۔ او پی جندل گلوبل یونیورسٹی، شولینی یونیورسٹی، مہندرا یونیورسٹی، کرائسٹ (ڈیمڈ ٹو بی یونیورسٹی) اور امریتا یونیورسٹی جیسی نجی ہندوستانی یونیورسٹیوں نے مختلف امریکی یونیورسٹیوں کے ساتھ معاہدوں پر دستخط کیے ہیں۔
ہندوستان کی قومی تعلیمی پالیسی ۲۰۲۰(این ای پی ۲۰۲۰) ہندوستانی یونیورسٹیوں کو اعلیٰ درجے کی بین الاقوامی یونیورسٹیوں کے ساتھ شراکت داری، دوہری ڈگری اور مشترکہ ڈگری پروگراموں کو تشکیل دینے اور نافذ کرنے کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔۲ جمع ۲ اور ۳ جمع ایک جیسے پروگرام انڈر گریجویٹ شراکت داری پروگراموں کا آسانی کے ساتھ تکملہ ہو سکتے ہیں۔
مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی ہے کہ گذشتہ چار ماہ کے دوران امریکہ اور ہندوستانی یونیورسٹیوں کے درمیان شراکت داری کی مثالیں سامنے آئی ہیں یا یہ بات چیت کے آخری مراحل میں ہیں۔ اس کا سہرا امریکی یونیورسٹیوں کے بہت سارےہند نژاد امریکی پروفیسروں کے سر باندھا جاتا ہے۔ تیزی کے ساتھ ترقی کرنے والی امریکی یونیورسٹیوں میں شکاگو میں واقع الینوائے انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی ، یونیورسٹی آف ڈیٹن، نیو میکسیکو اسٹیٹ یونیورسٹی اور پین اسٹیٹ شامل ہیں۔ ہندوسان کی جانب سے ویلور انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی، شولینی یونیورسٹی، تریچی میں واقع نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی اور وشوکرما یونیورسٹی مثالی شراکت داروں کے طور پر سامنے آئی ہیں۔
آپ نے اپنے حالیہ دورے کے دوران مختلف فریقین کے ساتھ کیا بات چیت کی؟ کیا کسی کلیدی چیز کا اشتراک کرنا پسند کریں گے؟
میں نے بنگلور یونیورسٹی، کرائسٹ (ڈیمڈ ٹو بی یونیورسٹی)، حیدرآباد یونیورسٹی، مہندرا یونیورسٹی، ووکسین یونیورسٹی اور آئی آئی ٹی حیدرآباد کا دورہ کیا۔ میں نے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (این آئی ٹی) پٹنہ، لکھنؤ یونیورسٹی، نیشنل اسٹاک ایکسچینج اکیڈمی اور جی ایل اے یونیورسٹی میں میٹنگیں کیں۔ میں نے ۲۰۲۳ء میں حکومت کرناٹک کے ذریعہ قائم کردہ سات یونیورسٹیوں کے وائس چانسلروں سے ملاقات کی۔ ایسوسی ایشن آف انڈین یونیورسٹیز نے نئی دہلی اور اس کے آس پاس کے یونیورسٹی رہنماؤں کے ساتھ ایک تفاعلی جلسے کا اہتمام کیا۔ میں نے یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کے چیئرمین سے بھی ملاقات کی۔
ان ملاقاتوں سے جو تاثر مجھے ملا وہ یہ تھا کہ ہندوستانی یونیورسٹیاں ڈگری پروگراموں کے ساتھ ساتھ تحقیق کے میدان میں بھی امریکی یونیورسٹیوں کے ساتھ شراکت داری کی خواہشمند ہیں۔
امریکہ اورہندوستان کے درمیان اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں شراکت داری سے ہندوستانی طلبہ کس طرح مستفید ہو سکتے ہیں؟
امریکی یونیورسٹیوں کی عظمت میں اہم کردار ادا کرنے والا ایک اہم عنصر ان کے کیمپس کی بین الاقوامی ساخت ہے۔ انڈر گریجویٹ اور گریجویٹ طلبہ کے ساتھ ساتھ دنیا بھر سے اساتذہ اور محققین امریکی یونیورسٹیوں میں اکٹھا ہوتے ہیں۔ نقطہ نظر، مقاصد اور اہداف کا تنوع اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ تصورات کا احتیاط سے جائزہ لیا جائے جس سے عالمگیر نتائج برآمد ہوتے ہیں، خاص طور سے ایس ٹی ای ایم شعبہ جات میں۔ ہندوستانی طلبہ سمسٹربھر جاری رہنے والے دوروں کے دوران امریکی کیمپس میں اس کا تجربہ کریں گے جو شراکت داری اور دوہرے ڈگری پروگراموں کے لازمی اجزا ہیں۔
امریکی یونیورسٹیاں جب ہندوستان میں شراکت دارکی جستجو کرتی ہیں تو وہ اصل میں کیا تلاش کرتی ہیں؟
امریکی یونیورسٹیاں ہندوستانی شراکت داروں کی تلاش میں متجسس، مستعد اور مہم جو طلبہ اور اساتذہ کی متلاشی ہوتی ہیں۔ وہ اپنی توجہ کے شعبوں میں مستحکم اور دیرپا تعلقات کی بھی جستجو کرتی ہیں تاکہ دونوں اپنی طاقتوں کی تکمیل کرسکیں۔ یہاں خیال یہ ہے کہ ایک دوسرے سے مل کر بہتر مظاہرہ کر سکیں گے ۔
توقع ہے کہ ۲۰۲۵ءتک بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے والےہندوستانی طلبہ ۷۰ بلین ڈالر تک خرچ کریں گے۔ اس رقم کا کتنا حصہ امریکی ڈگری پر خرچ ہونے کی توقع ہے؟
ماہرین اخراجات کا شمار مختلف انداز میں کرتے ہیں جس کی وجہ سے مختلف اندازے لگائے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک تخمینے کے مطابق ۲۰۲۲ء میں ہندوستانی طلبہ نے امریکہ میں ۷ بلین ڈالر خرچ کیے۔ ۲۰۲۲ء سے ۲۰۲۳ ءتک امریکہ میں ہندوستانی طلبہ کی تعداد میں ۳۵ فی صد اضافہ ہوا۔ اگر یہ شرح نمو برقرار رہتی ہے تو ہندوستانی طلبہ ۲۰۲۵ ءمیں امریکہ میں ۱۷ اعشاریہ ۲ بلین ڈالر خرچ کریں گے جو پوری رقم کا ایک چوتھائی حصہ ہے۔
اسپَین نیوزلیٹر اپنے میل پر منگوانے کے لیے لنک میں دیے گئے فارم کو بھریں: https://bit.ly/SubscribeSPAN
تبصرہ