مارٹن لوتھرکا دورہ ہند

مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کے ۱۹۵۹ میں ہندوستان کے دورے کی تصویری جھلکیاں۔

February 2024

مارٹن لوتھرکا دورہ ہند

مارٹِن لوتھر کنگ جونیئر اور ان کی اہلیہ کوریٹا اسکالٹ کنگ کا ۱۰ فروری ۱۹۵۹ء کو نئی دہلی پہنچنے پر پھولوں کا ہار پہنا کر استقبال کیا گیا۔ (تصویر از آر ستاکوپن ©اے پی امیجیز)

۔ ۱۹۵۶ء میں امریکی کے ایک مختصر دورے کے دوران وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے اپنی خواہش دیرینہ کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ کاش وہ کنگ سے ملے ہوتے۔ ہندوستانی نمائندگان نے یہ روایت برقرار رکھی۔ ہندوستان میں امریکی سفیر محترم چسٹر باؤلز نے بھی ایسی ہی خواہش کا اظہار کیا تھا۔

کیلیفورنیا کی اسٹین فورڈ یونیورسٹی کے کلے بورن کارسن کی تالیف کردہ ’’مارٹن لوتھر کنگ کی سوانح حیات‘‘ میں کنگ کے تاثرات مذکور ہیں۔ ’’مونٹ گومری مقاطعے کے دوران ہندوستان کے گاندھی، غیر متشدد سماجی انقلاب کی ہماری تکنیک میں مشعل راہ تھے۔ چنانچہ بسوں میں نسلی تفریق کے خلاف ہماری مزاحمت جیسے ہی کامیاب ہوئی، میرے چند احباب نے کہا ’’آپ ہندوستان جا کر خود اپنی آنکھوں سے کیوں نہیں دیکھتے کہ آپ کی محبوب اور موقر شخصیت مہاتما نے وہاں کیا عظیم کارنامہ کر دکھایا ہے؟‘‘

بالآخر کنگ اپنی اہلیہ کوریٹا کے ساتھ ہندوستان تشریف لائے۔ ان کے ہمراہ کنگ کے سوانح نگار، الباما اسٹیٹ کالج کے پروفیسر لارنس ریڈک بھی تھے۔ انہوں نے بھارت میں ایک ماہ سے کم مدت گزاری۔ پروازوں کی مشکلات کی وجہ سے وہ ۹ فروری ۱۹۵۹ء کو ممبئی تشریف لائے، رات تاج محل ہوٹل میں گزاری اور اگلے دن ہی نئی دہلی میں واقع پالم ہوائی اڈے پر دو دنوں کی تاخیر سے پہنچے۔

دورہ ہند کے خاتمے کے بعد، کنگ کے بقول ریڈک نے ان سے کہا ’’۔۔۔میرا حقیقی امتحان اس وقت ہوا جب گاندھی کے شناساؤں نے مجھے نظر انداز کیا، مجھ پر اور مونٹ گومری تحریک پر پھبتیاں کسیں۔‘‘ انہوں نے اپنے طوفانی دورے کے بارے میں تبصرہ کرتے ہو ئے کہا ’’یہ دورہ ہماری زندگی کا سب سے گہرا اور چشم کشا تجربہ تھا۔‘‘

انہوں نے ہزاروں لوگوں سے گفتگو کی۔ سڑک پر چلتے ہوئے یا پھر ٹرینوں، کاروں اور ہوائی جہازوں میں سفر کے دوران لوگوں نے نام لے کر انہیں مبارکباد دی، آٹو گراف لینے کے لیے ہجوم نے انہیں گھیر لیا۔ گاؤں کے غریب ترین گھروں اور پرشکوہ محلوں دونوں جگہ لوگوں نے ان کا گرم جوش استقبال کیا۔ انہوں نے کہا ’’جس قدر انہوں نے تقریریں کیں، ان کی بیوی نے اسی قدر گانے گائے۔‘‘

امریکن فرینڈس سروس کمیٹی (یا کویکرز، ایک صلح جو اور امن پسند عیسائی فرقہ) نے گاندھی نیشنل میموریل فنڈ کے اشتراک سے اس دورے کی کفالت کی۔ نئی دہلی میں کویکر سینٹر کے ڈائرکٹر  جیمز ای برسٹل نے پورے سفر کے دوران گائڈ کے فرائض انجام دئے۔ حکومت ہند نے اس دورے کی میزبانی نہیں کی، تاہم نہرو نے انہیں ایک خیر مقدمی پیغام ارسال کیا اور ہندوستان میں کنگ کے قیام کی دوسری شب ایک عشایئے کا اہتمام کیا۔

دس فروری کا دن خیر مقدموں، گل پوشیوں اور کانفرنسوں کی نذر ہو گیا۔ کنگ اس سے اس قدر متاثر ہوئے کہ کہہ اٹھے ’’دوسرے ملکوں میں ایک سیاح کی طرح جاتا ہوں لیکن ہندوستان میں ایک زائر کی حیثیت سے آیا ہوں۔‘‘

کنگ زن و شو نے ہندوستان کو بڑی حد تک دیکھا۔ وہ لوگوں سے ملاقات کے لیے صبح سویرے اٹھنے کے عادی ہوگئے۔ کبھی کبھی انہوں نے کیلے کے پتوں پر کھانا کھایا، فرش پر پالتی مار کر بیٹھے، دیہی علاقوں سے گزرتے ہوئے طلبہ، صاحبان علم و دانش سے ملاقاتیں کیں، کیرل میں تیراکی کی، تاج محل کا نظارہ کیا۔ گیا اور شانتی نکیتن کی بیش قیمت وراثتیں دیکھیں اور ہندوستان کے جنوبی سرے پر واقع کیپ کورمورن سے بیک وقت غروب آفتاب اور طلوع ماہ مبیں کا منظر دیکھا۔ بیک وقت دو روشنیوں کی درخشانی کا یہ حسین منظر کنگ اور مسز کنگ کے دل و دماغ میں اس طرح بس گیا کہ انہوں نے اسے اپنے ایک وعظ کا موضوع بنایا۔

ان کی زیارت ہند نا مکمل رہ جاتی اگر وہ سابرمتی آشرم میں وقت نہ گزارتے۔ اس آشرم کو گاندھی نے جنوبی افریقہ سے واپس آنے کے بعد قائم کیا تھا۔ یہاں انہوں نے سوامی وشو آنند کے بقول ’’ملک کی آزادی اور ایک نئے سماجی نظام کے قیام کے لیے حکمت عملی وضع کرنے کا کام انجام دیا۔ سوامی نے کنگ اور مسز کنگ کے ہمراہ اپنے اسفار کی تفصیلات اپنی ذاتی یادداشت میں درج کی ہیں جسے گاندھی نیشنل میموریل فنڈ نے شائع کرایا ہے۔ یہی آشرم تھا جہاں گاندھی کے قریب ترین رفقاء کار کو عدم تشدد کی تعلیم و تربیت دی گئی اور جہاں سے گاندھی نے سمندر کے لیے کوچ کیا تھا۔ وشو آنند نے لکھا ’’کنگ زن و شو کو آشرم جیسے مقدس مقام پر جانے کا موقع ملا جہاں ان کی ملاقات یہاں قیام پذیر ۶۰۰ یا اس سے زیادہ لوگوں سے ہوئی۔ ان میں سے بیشتر ہریجن تھے۔ ہم لوگ جب آشرم سے لوٹے تو ذہن تازگی سے معمور تھا اور ہم لوگ اس دورے کے متشکر و ممنون تھے جس نے ہمیں پاکیزگی اور قوت بخشی تھی۔‘‘

دورے کی بعض تصویری جھلکیاں

کنگ زن و شو نے اپنے دورے کی آخری شام ۹ مارچ ۱۹۵۹ گاندھی کی تعلیمات کے شارح آچاریہ جے بی کرپلانی (بائیں سے تیسرے) کی رہائش گاہ پر گزاری۔ دیگر (بائیں سے) کرپلانی کی سکریٹری شانتی اور کویکر سینٹر کی باربرا برسٹل اور جیمس ای برسٹل۔ (تصویر ©اے پی امیجیز)

کنگ زن و شو اور لارنس ریڈک نئی دہلی کے گاندھی میموریل میں بابائے ہند کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے۔ (تصویر بشکریہ گاندھی اسمارک ندھی/نیشنل گاندھی میوزیم)

کنگ صدرِ جمہوریہ ہند راجیندر پرساد سے ملاقات کرتے ہوئے۔ (تصویر بشکریہ گاندھی اسمارک ندھی/نیشنل گاندھی میوزیم)

کنگ وزیر اعظم جواہر لال نہرو سے ملاقات کرتے ہوئے۔ (تصویر بشکریہ گاندھی اسمارک ندھی/نیشنل گاندھی میوزیم)

کنگ معروف گاندھیائی شخصیت امرت کور سے ملاقات کرتے ہوئے۔ (تصویر بشکریہ گاندھی اسمارک ندھی/نیشنل گاندھی میوزیم)

کوریٹا سکاٹ کنگ ہندوستانی خواتین کے ساتھ۔ (تصویر بشکریہ گاندھی اسمارک ندھی/نیشنل گاندھی میوزیم)

گاندھی نیشنل میموریل فنڈ کے چیئرمین آر آر دیواکر، جنہوں نے کنگ کے دورہ ہند کے لیے مالی تعاون دیا تھا، انہیں کتابوں کا تحفہ پیش کرتے ہوئے۔ (تصویر بشکریہ گاندھی اسمارک ندھی/نیشنل گاندھی میوزیم)

اس مضمون کی اشاعت پہلے پہل جنوری۔ فروری ۲۰۰۹ء میں ہوئی۔ یہاں مکمل مضمون پڑھیں۔

 


اسپَین نیوز لیٹر اپنے میل پر منگوانے کے لیے لنک میں دیے گئے فارم کو بھریں: https://bit.ly/SubscribeSPAN

 


ٹَیگس

تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے