اسپیس ایکس کے ’انسپریشن فور‘ کو چلانے سے لے کر ہندوستان میں طلبہ کی حوصلہ افزائی کرنے تک شان پروکٹر تخلیقی صلاحیتوں، لچک اور جستجو کے جذبے کو ابھارتی ہیں۔
March 2024
شان پراکٹر خلائے بسیط سے زمین کے نظارے سے لطف اندوز ہوتے ہوئے۔ (تصویر بشکریہ شان پراکٹر)
مشن پائلٹ بننے والی واحد افریقی نژاد امریکی خاتون شان پراکٹر نے جب پہلی بار ’اسپیس ایکس انسپریشن فور آربیٹل مشن‘ پر خلائے بسیط کا سفر کیا تو ان کے ساتھی خلانوردوں نے انہیں پُکارو نام ’لیو‘ تفویض کیا کیوں کہ اس افریقی مصوّر اور خلاباز نے انہیں شہرۂ آفاق اطالوی مصوّر اور موجد لیونارڈو ڈا وِنچی کی یاد دلا دی۔
یہ ایک ایسا عرفی نام ہے جس کی پراکٹر مکمل طور پر حقدار ہیں۔ ڈاوِنچی کی طرح پراکٹر بھی مہارت، تجسس اور جذبے کے ساتھ سائنس اور آرٹ کی جڑواں دنیا سے وابستہ ہیں۔ ماریکوپا کمیونٹی کالجیز میں جیو سائنس کی پروفیسر شان پراکٹر مستقبل رخی فن کے حیرت انگیز نمونے تخلیق کرتی ہیں، نیز دلچسپ نظموں کے ساتھ ساتھ فنِ طبّاخی سے متعلق کتابیں لکھتی ہیں۔ وہ خلا کے بارے میں پُرجوش بھی ہیں۔ ۲۰۲۱ءمیں پراکٹر نے اسپیس ایکس کے انسپریشن فور کو چلایا، جو خلائی مدار میں داخل ہونے والی ایسی پہلی مہم تھی جس کے تمام مسافر عام شہری تھے ۔ اس طور پر وہ کسی تجارتی خلائی گاڑی کو چلانے والی پہلی خاتون بن گئیں۔
ہندوستان سے تعلق
اکتوبر ۲۰۲۳ء میں پراکٹر نے نئی دہلی میں امریکی سفارت خانہ کے زیر اہتمام ’’خلا میں خواتین‘‘ کے موضوع پر منعقدہ ایک ورچوئل اجلاس کی قیادت کی۔ انہوں نے اس اجلاس میں شرکت کرنے والے طلبہ کے ساتھ اپنے تجربات کا اشتراک کیا۔انہوں نے ناسا میں ٹھیکیدار کی حیثیت سے خدمات انجام دینے والے کی بیٹی کے بطوراپنی پرورش، برسوں تک ماحولیاتی سائنس کی طالبہ اور ناسا کے خلاباز انتخاب پروگرام میں اپنی تربیت ( جہاں وہ ۲۰۰۹ءمیں فائنل تک پہنچی تھیں) جیسے تجربات کا اشتراک کیا۔
اس سے پہلے ۲۰۱۹ء میں پراکٹر نے پائیداری پر مرکوز ایک تدریسی پروگرام میں حصہ لینے کے لیے ہندوستان کا دورہ کیا تھا۔ وہ انڈین اسپیس ریسرچ آرگنائزیشن (اسرو) کے ذریعہ کیے گئے کام سے بہت متاثر ہوئی تھیں۔ پراکٹر کہتی ہیں ’’ہندوستان ایک توانا خلائی ملک تو ہے ہی، ساتھ ہی یہ ایک خوبصورت ملک بھی ہے۔ میں ہندوستان سے جڑے رہنے کے طریقے تلاش کرنا جاری رکھوں گی۔‘‘
تلاش اور ترغیب
پراکٹر اپنے روز مرہ کے کام والے دن میں مختلف نوعیت کے کاموں کو خوش اسلوبی سے انجام دیتی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں ’’مجھے جدید نشاۃ ثانیہ کی شخصیت بننا پسند ہے جس کا مطلب ہے کہ آپ ایسے شخص ہیں جس کی دلچسپیاں مختلف مہارتوں میں ہیں۔ اور حقیقت میں ہم میں سے ہر ایک اپنے آپ میں لیونارڈو ڈاوِنچی ہے۔ ہم سب تخلیقی صلاحیتوں کے مالک ہیں اور اظہارِ ذات کرنے والے بھی ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی ہم اپنے اردگرد کی دنیا کا تجزیہ بھی کرتے ہیں۔ ان صلاحیتوں کو تلاش کرنا اور انہیں فروغ دیناایک بہت اچھا کام ہے۔‘‘
خلائے بسیط کے اپنے سفر کی یادیں مشترک کرتے ہوئے پراکٹر کہتی ہیں ’’جب میں انسپریشن فور کے ساتھ خلا میں گئی تو میرے پاس ایک ڈفیل بیگ تھاجس میں میں پرواز کی ضرورت کے مطابق ہر چیز رکھ سکتی تھی۔ میں نے اپنی زندگی کے بارے میں سوچنا شروع کیا اور ایسی چیزوں کو اپنے بیگ میں رکھا جن کا تعلق میری شخصیت سے تھا۔ میں نے پرانے ’اسٹار وارس‘ ٹریڈنگ کارڈز سے لے کے آرٹ ورک تک ان تمام چیزوں کو رکھ لیا جنہوں نے مجھے متاثر کیا تھا۔ میں نے وہ اچھی چیزیں بھی رکھ لیں جو دوسرے لوگوں نے مجھے دی تھیں۔‘‘
ایک کامیاب مشن کے بعد جب پراکٹر زمین پر واپس آئیں تو چیزیں بیگ سے نکالنے اور ان کے مالکان کو واپس کرنے کے عمل نے انہیں اپنے ذاتی مقصد اور فلسفے کو عالمی سطح پر مشترک کرنے کی ترغیب دی۔ وہ اسے ’’اسپیس ٹو انسپائر‘‘ کا نام دیتی ہیں۔
پراکٹر وضاحت کرتی ہیں ’’اپنے آس پاس کے لوگوں کو متاثر کرنے کے لیے آپ اپنے منفرد انداز کا استعمال کرسکتے ہیں۔خلا میں لے جانے کے لیے چیزوں کو بیگ میں رکھنے اور انہیں نکالنے کےخیال نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ جو چیز میں خلا سے اپنے ساتھ لا رہی ہوں وہ واقعی سب سے اہم ہے یعنی میری انفرادیت ، میری ہمت ، میرا عزم ، میری تخلیقی صلاحیت اور میری لچک ۔ یہ ایسی چیزیں ہیں جن کو میں نے اپنے ذاتی ٹول کِٹ میں شامل کیا تھا۔‘‘
وہ اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہتی ہیں’’جب آپ کو موقع ملتا ہے تو آپ اپنی ٹول کٹ، اپنی ذاتی ’اسپیس ٹو انسپائر‘ لے جا سکتے ہیں اور اپنی تمام تیاری اور مہارتوں کو آسانی سے اپنے لیے قابل رسائی بنا سکتے ہیں۔ یہ بہت اہم ہے کہ آپ کون سے نئے تجربات سیکھتے ہیں اور اسے پوری طرح سے استعمال کرتے ہیں۔نئی دہلی میں امریکی سفارت خانے میں اپنی پریزنٹیشن کے دوران یہی وہ اہم پیغام ہے جسے میں مشترک کرنا چاہتی تھی۔‘‘
اپنی جگہ تلاش کرنا
ان لوگوں کو جو اپنے اسپیس ٹو انسپائر کو پروان چڑھانا چاہتے ہیں اور پراکٹر کے نقش قدم پر چلنا چاہتے ہیں، کو میں تخلیق اور ہمت کے ساتھ کام کرنے کا مشورہ دیتی ہوں۔ وہ کہتی ہیں ’’آپ خود کو اظہار خیال کا موقع فراہم کریں اور ایسی چیزیں تخلیق کرنے کے نقطہ نظر سے اپنے اظہار خیال کے بارے میں سوچیں جنہیں آپ دنیا کے ساتھ مشترک کر سکتے ہیں۔ خواہ وہ علم ہو یا مادی اشیا، آپ کا انداز اور تخلیقی صلاحیتیں وہ تحفے ہیں جنہیں آپ کھلے عام فراہم کر سکتے ہیں۔‘‘
دنیا کے ساتھ اپنے شوق کا اشتراک کرنے کا مطلب مضامین یا کہانیاں لکھنا، پوڈ کاسٹ یا ویڈیو ریکارڈ کرنا، تصاویر پینٹ کرنا یا کھانے کی ترکیب تیار کرنا ہوسکتا ہے۔ وہ کہتی ہیں’’ اظہارِ ذات کے طریقے کئی ہو سکتے ہیں۔ اور آپ جن طریقوں سے اسے انجام دیتے ہیں وہ وقت کے ساتھ تبدیل ہو سکتے ہیں۔ تو اپنے شوق کو پروان چڑھانے سے مت ڈریں۔ اس چیز کو کرنے سے بھی خوف زدہ نہ ہوں جسے آپ اپنے لیے درست سمجھتے ہیں ۔ ‘‘
مائیکل گیلنٹ نیویارک سٹی میں مقیم قلمکار، موسیقار اور کاروباری پیشہ ور ہیں۔
اسپَین نیوزلیٹر مفت میں اپنے میل پر منگوانے کے لیے لنک میں دیے گئے فارم کو بھریں: https://bit.ly/SubscribeSPAN
تبصرہ