خواتین کو آگے بڑھانا

یو ایس ایڈ اور سیوا بھارت نے ہندوستان بھر میں اقتصادی لچک کو فروغ دیتے ہوئے خواتین کاروباریوں کو بااختیار بنانے کے لیے اشتراک کیا ہے ۔

پارومیتا پین 

April 2024

خواتین کو آگے بڑھانا

چھوٹے پیمانے پر کاروبار کرنے والی لیلا بین ایک خاتون کاروباری پیشہ ور ہیں جن کا تعلق ریاست راجستھان کے بیکانیر سے ہے۔(تصویر بشکریہ سیوا بھارت)

صنفی مساوات اور خواتین کو بااختیار بنانا  ایک طویل عرصے سے  امریکہ  کے ادارہ برائے بین الاقوامی ترقیات  (یو ایس ایڈ ) کے پروگراموں اور شراکت داریوں کا ایک حصہ رہا ہے، جس کی جڑیں سبھی  کےلیے  مواقع اور فوائد کو یقینی بنانے  سے متعلق   ضروری اقدامات پرمبنی   ہیں۔ ایسی ہی ایک مثال سیوا بھارت کے ساتھ اس کی شراکت داری ہے۔  سیوا بھارت   ’سیلف ایمپلائڈ ویمنز ایسوسی ایشن‘   کی ایک کُل ہند وفاق ہے   جو خواتین کو باضابطہ افرادی قوت میں شامل ہونے میں مدد کرنے اور ہندوستان کی  فروغ پاتی   ہوئی معیشت کا حصہ بننے کے لیے ضروری رہنمائی اور مدد حاصل کرنے میں اہم رہی ہے۔

خود کفالت کی طرف

سیوا بھارت اور یو ایس ایڈ نے  ۲۰۲۰ء میں’  اُدیمی: بلڈنگ ریزیلنٹ وومن انٹرپرینرشپ پروگرام  ‘شروع کرنے کے  لیے مل جل  کر کام کیا، جس نے  خواتین کے ذریعہ کیے جانے والے چھوٹے موٹے کاروباراور خواتین کی زیر قیادت اجتماعی سماجی اداروں   کو وبائی امراض کے دوران اور مابعد کووِڈ  معیشت میں ترقی  کرنے کے  قابل بنایا۔ یو ایس ایڈ /انڈیا کے صحت دفتر  میں نوعمر وں کی صحت اور صنف کی صلاح کار  ڈاکٹر شرمیلا نیوگی کہتی ہیں، ’’سیوا بھارت  کے ساتھ یو ایس ایڈ  کا کام واقعی مشکل وقت میں شروع ہوا۔ ہندوستان میں کووِڈ ۔ ۱۹ وبا  اور متعلقہ لاک ڈاؤن نے خواتین کی زیر  ملکیت  چھوٹے کاروباروں کو منفی اور غیر متناسب طور پر متاثر کیا۔‘‘

سیوا بھارت میں پروجیکٹ کوآرڈنیٹر سونل شرما بتاتی ہیں کہ کاروباری افراد کےلیے   یہ پروگرام ’’  بڑے پیمانے پر ایک پروجیکٹ ہے جس کا مقصد خواتین کی ملکیت والے چھوٹے اور درمیانی جسامت کے اجتماعی سماجی اداروں کے حقوق اور صلاحیتوں کو مہمیز کرنا ہے اور کووِڈ۔۱۹کے دوران اور اس سے آگے مالیات ، بنیادی ڈھانچہ ، منڈیوں ، اثاثوں اور ڈیجیٹل خواندگی تک ان کی رسائی   بڑھانا ہے۔  وہ مزید کہتی ہیں کہ اس پروگرام نے نہ صرف خواتین کی  اقتصادی آزادی اور سلامتی کی حمایت کی ہے بلکہ اس نے خواتین اور ان کے کنبوں کے لئے  بہتر  اقتصادی  اور صحت   نتائج میں  تعاون بھی کیا  ہے۔

چھوٹے پیمانے پر کاروبار کرنے والی خواتین اور خواتین کے اجتماعی سماجی اداروں کو ایک ساتھ آنے  میں سہولت فراہم کرنا  اس کا ویژن ہے۔ اس کے علاوہ   طبقات میں لڑکیوں کی حوصلہ افزائی کرنا ہے  تاکہ معاون نوجوانوں کے ایسے گروپ تشکیل دیے جا سکیں جو  کم  سنی  کی شادی، خلل پیدا کرنے والی  تعلیم اور سائبر دھونس  سمیت بعض سماجی روایتوں  کو چیلنج  کر سکیں۔

آب و ہوا اور صحت کو جوڑنا

یو ایس ایڈ   اپنی سرگرمیوں کے ماحولیات پر پڑنے والے اثرات پر بھی نظر رکھتا ہے اور جہاں بھی ممکن ہو صحت  مداخلتوں اور نظاموں کو ڈھالنے اور تبدیل کرنے کے مواقع کی نشاندہی کرتا ہے۔ ڈاکٹر نیوگی بتاتی  ہیں ’’موسمیاتی لچکدار پالیسیوں کو صنفی نقطہ نظر کے ساتھ نافذ کرنا بہت ضروری ہے۔‘‘  ادیمی پروگرام جیسے اقدامات کے ذریعے  مغربی بنگال کے پھولیا  میں  چھوٹے پیمانے پر کاروبار کرنے والی خواتین اپنے بُننے کے عمل کی سرکلر  اور ماحول دوست فطرت   کی تلاش کے لیے   مقامی بنکروں کے ساتھ فعال طور پر تعاون کرتی ہیں۔

ڈاکٹر نیوگی کا کہنا ہے  کہ حکومت ہند اور دیگر شراکت داروں کے ساتھ شراکت میں یو ایس ایڈ  حفظان صحت  کی خدمات تک رسائی کی بھی سہولت  فراہم کرتا ہے۔ مثال کے طور پر، یو ایس ایڈ کے ادیمی  پروگرام  سے  راجستھان سے تعلق رکھنے والی پریم لتا کو  حکومت کی مالی اعانت سے چلنے والی  صحت بیمہ  اسکیم میں  اندراج کرنے  میں مدد ملی۔ پریم لتا  کپڑوں کی سلائی کرتی ہیں  اور پاپڑ  تیار  کرتی ہیں۔ مزید برآں، ڈیجیٹل اور مالیاتی خواندگی کی تربیت نے انہیں  ڈیجیٹل ادائیگی کے پلیٹ فارموں  کا استعمال شروع کرنے اور اپنے سلائی کے کام کی بازارکاری میں مدد کی۔  اس سے انہیں  واٹس ایپ جیسے ڈیجیٹل پلیٹ فارموں کے ذریعے ممکنہ صارفین کے سامنے اپنی دستکاری کا مظاہرہ کرنے کا موقع ملتا  ہے۔

ریتا بین اور ان کے جیسی چھوٹے پیمانے پر کاروبار کرنے والی مغربی بنگال کے پھولیا میں اگر بتی پیک کرتے ہوئے۔(تصویر بشکریہ سیوا بھارت)

شمولیتی کاروبار  کو فروغ دینا

بہار کے دریا پور گاؤں کی چھوٹے پیمانے پر کاروبار کرنے والی ۲۰ سالہ سیتا بین اپنے سسرال کی دکان   کو سنبھالتی  ہیں اور موسمی زرعی کام کرتی ہیں۔ ابتدا میں  اپنے کام کو  سادہ طور پر’ گھر پر کام کرنے‘  کے طور پر بیان کرتے ہوئے انہوں  نے بعد  ازاں سیوا  بہار کی میٹنگ میں شرکت کے بعد اپنے چیلنجوں کی وضاحت کی۔ یو ایس ایڈ کے تعاون سے اُدیمی پروگرام کے ذریعے انہیں  اسمارٹ فون ملا۔وہ کہتی ہیں ’’ جب میرے پاس اسمارٹ فون نہیں تھا تب  آن لائن ادائیگی کرنے والے صارفین کو ادائیگی کرنے میں مشکل پیش آتی تھی ۔ کچھ لوگوں نے ہمیں یہ کہہ کر بھی دھوکہ دیا ہے کہ ان کے پاس نقد رقم نہیں ہے اور وہ بالکل بھی ادائیگی نہیں کریں گے۔‘‘  حکومتی اسکیموں تک رسائی اور اپنے کاروباری کاموں کو بہتر بنانے میں اس کی افادیت پر روشنی  ڈالتے ہوئے  وہ مزید کہتی ہیں ’’ اب واٹس ایپ گروپوں  کے ذریعے  میں اپنے جیسے چھوٹے کاروباریوں کے لیے   متعلقہ اسکیموں کے بارے میں معلومات حاصل کرتی ہوں۔‘‘

کووِڈ۔۱۹ کے دوران دستکاری اور ہاتھ سے تیار کردہ خواتین صناعوں کی زیرملکیت  برانڈ ’سیوا رواب‘    نے  ماسک بنانے میں  صناعوں  کو تربیت دی، جس سے نہ صرف ان کی آمدنی میں اضافہ ہوا بلکہ ان کے ظہور میں بھی اضافہ ہوا ہے ۔ یو ایس ایڈ  کا جاری تعاون ان کے ہنر  اور مصنوعات کی تعداد کی توسیع  میں مدد کرتا ہے، سوٹا اور فیب انڈیا  جیسے گھریلو ’پریٹ برانڈز ‘(ریڈی میڈ)سے آرڈر حاصل کرتا ہے۔  صناعوں  کی سالانہ آمدنی۲۳۔۲۰۲۲میں ۴۰فی صد بڑھ گئی۔  مقامی نمائشوں اور کارپوریٹ تقریبات  میں ’سیوا رواب ‘ کی شرکت سے  ان کی فروخت میں اضافہ  ہوا ہے، جس سے وبائی مرض  کے بعد بحالی کی کوششوں میں مدد ملی ہے۔

بیکانیر کے رام پورہ سے تعلق رکھنے والی ۲۴سالہ چھوٹے پیمانے پر کاروبار کرنے والی   سحرین بین نے   وبائی مرض  کے دوران فیشن ڈیزائن کے لیے اپنے جنون  کو دریافت کیا  ۔ سیوا  راجستھان اور دیگر پروگراموں  کے تعاون سے انہوں نے اپنے کاروبار کو بڑھانے کےلیے  ایک سلائی مشین خریدی۔ سوشل میڈیا کا فائدہ اٹھاتے ہوئے  وہ اب ماہانہ دس ہزار  روپئے تک  کماتی ہیں   اور اپنے خاندان کی  مدد  کرتی  ہیں ۔ یو ایس ایڈ کے ادیمی  پروگرام نے انہیں  دستاویزی  امداد اور صحت کے بندوبست  کی تربیت فراہم کرکے مزید بااختیار بنا دیا۔

معاون نظام 

یو ایس ایڈ کا ادیمی  پروگرام خواتین  دوست  ضرورت پر مبنی مراکز بھی چلاتا ہے، جنہیں  سیوا  شکتی کیندر کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ مراکز بیداری پیدا کرتے ہیں، رسائی میں سہولت فراہم کرتے ہیں اور بچوں کی دیکھ بھال، حفظان صحت ، رہائش، پانی اور صفائی، ایندھن اور خوراک سے متعلق حکومت کے ذریعے چلائی جانے والی سماجی تحفظ کی اسکیموں سے روابط  قائم کرتے ہیں۔حالانکہ،  بنیادی طور پر خواتین کےلیے  یہ مراکز اپنی خدمات کو وسیع تر کمیونٹی تک پھیلاتے ہیں، جس کا مقصد  سماجی تحفظ کی موجودہ اسکیموں میں پورے  کنبے  کو شامل کرنا ہے۔ یہ اسٹریٹجک نقطہ نظر خواتین پر دیکھ بھال کے کام کے بوجھ کو  بتدریج  کم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ شرما کہتی ہیں ’’ یہ مراکز کمیونٹی میں حقوق نسواں کی جگہوں کے طور پر بھی کام کرتے ہیں ۔  خواتین کے کام کے ظہور میں اضافہ کرتے  ہیں اور انہیں ایک وقف شدہ  کام کی جگہ فراہم کرتے ہیں۔‘‘

مستقبل میں تیزی

اپنے کام کو آگے بڑھاتے ہوئے رواں  سال کے اوائل میں یو ایس ایڈ نے ہندوستان  میں خواتین کی صحت اور ذریعہ  معاش کا اتحاد شروع کیا، یہ ایک

ایسی پہل ہے جس میں  کئی شراکت دار ہیں ۔ اسے خواتین   کی صحت اور معاشی بہبود کے ایک دوسرے سے جڑے پہلوؤں کو حل کرکے  ملک بھر میں محروم  طبقات کی خواتین کو   بااختیار بنانے کے لیے   ڈیزائن کیا گیا ہے۔ یہ پروگرام خواتین کے لیے کریئر کی ترقی اور ملازمت کے مواقع فراہم کرے گا  اور جنسی اور تولیدی  حفظان صحت  تک ان کی رسائی کو وسعت دے گا ۔ یہ  ایسی خدمات ہیں  جو خواتین کےلیے   صنفی مساوات اور اقتصادی  تحفظ کو فروغ دیتی ہیں۔

پارومیتا پین رینو میں واقع یونیورسیٹی آف نیواڈا میں گلوبل میڈیا اسٹڈیز کی معاون پروفیسر ہیں۔


اسپَین نیوز لیٹر کو مفت میں میل پر منگوانے کے لیے لنک میں دیے گئے فارم کو بھریں: https://bit.ly/SubscribeSPAN



تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے