ہندوستان کی شمسی توانائی سے چلنے والی پہلی کشتی سے لے کر شمسی توانائی سے چلنے والی ماہی گیری کی کشتیوں تک آئی وی ایل پی کے سابق طالب علم سندیتھ تھنڈاشیری کی اختراعات سمندری نقل و حمل کا منظر نامہ تبدیل کررہی ہیں۔
September 2024
نوالٹ کمپنی کی آدتیہ ہندوستان کی شمسی توانائی سے چلنے والی پہلی کشتی ہے۔ (تصویر بشکریہ سندِتھ تھنڈاشیری)
سندِتھ تھنڈاشیری سمندری نقل و حمل کے شعبے میں ’’توانائی کی بچت، ایندھن کی بچت اور پیسے کی بچت ‘‘ کے بارے میں پرجوش ہیں ۔ ان اہداف کو مدنظر رکھتے ہوئے انہوں نے ڈیزل سے چلنے والے روایتی جہازوں کے لیے ایک پائیدار متبادل فراہم کرنے والی ماحولیاتی۔سمندری ٹیک کمپنی نوالٹ کی بنیاد رکھی ۔ کمپنی نے کئی سنگ میل طے کیےہیں جن میں ہندوستان کی پہلی شمسی توانائی سے چلنے والی کشتی آدتیہ کا آغاز بھی شامل ہے جو کیرل میں وائیکم اور تھاوناکڈاووکے درمیان چلتی ہے۔
تھنڈاشیری نے ۲۰۱۸ءمیں نے ’’ماحولیاتی چیلنجوں کے لیے علاقائی لچک پیدا کرنا‘‘ کے موضوع پر منعقدانٹرنیشنل وزیٹر لیڈرشپ پروگرام میں شرکت کی۔ آئی وی ایل پی امریکی محکمہ خارجہ کا باوقار پیشہ وارانہ تبادلہ پروگرام ہے۔ امریکہ کے مختصر مدتی دوروں کے ذریعے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے موجودہ اور ابھرتے ہوئے رہنما ملک کے بارے میں براہ راست تجربہ حاصل کرتے ہیں اور اپنے امریکی ہم منصبوں کے ساتھ دیرپا روابط استوار کرتے ہیں۔ تھنڈاشیری کہتے ہیں کہ تبادلہ پروگرام کے دوران حاصل ہونے والی متنوع بصیرتیں ’’شمسی توانائی سے چلنے والی ماہی گیری کی کشتیوں کو تیار کرنے کے ہمارے اختراعی طریق کار کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتی تھیں۔ میں کہوں گا کہ آئی وی ایل پی کا تجربہ اختراع کے لیے محرک ثابت ہوا۔‘‘
پیش ہیں ان سے انٹرویو کے اقتباسات۔
آپ نے ماحولیات دوست سمندری نقل و حمل کا خیال کیسے تیار کیا؟
روایتی کشتی کی تعمیر میں ناکامیوں کا اعتراف کرتے ہوئے ہم نے استحکام اور کارکردگی کو بہتر بنانے پر توجہ دی۔ ابتدائی طور پر، ہم نے کیرل میں شپ یارڈوں کو ڈیزائن کرنے کی خدمات فراہم کیں۔۲۰۰۹ء میں ہمارے گیرج میں تعمیر کی جانے والی ہندوستان کی پہلی شمسی توانائی کی کشتی سمیت شمسی توانائی سے چلنے والی کشتیوں کے ساتھ ہمارے ابتدائی تجربات نے ہماری مستقبل کی کوششوں کی بنیاد رکھی۔ گجرات میں ماہی گیری کی ایک چھوٹی کشتی کو دوبارہ تیار کرنے سے جہاز کی کارکردگی اور سمندری نقل و حمل میں شمسی توانائی کی صلاحیت کے بارے میں ہمارا فہم گہرا ہوا۔ ان تجربات نے ہمارے اس یقین کو تقویت بخشی کہ عوامی نقل و حمل شمسی توانائی سے بجلی بنانے کا ایک اہم موقع فراہم کرتے ہیں ۔
آپ نے ان خیالات کو کب سے عملی جامہ پہنانا شروع کیا؟
۲۰۱۳ء میں نوالٹ کی بنیاد رکھی گئی۔اور ہندوستان کی شمسی توانائی سے چلنے والی کشتی آدتیہ کا آغاز ۲۰۱۷ء میں کیرل اسٹیٹ واٹر ٹرانسپورٹ ڈپارٹمنٹ کے لیے کیا گیا۔ یہ نوالٹ اور بحریہ کی صنعت دونوں کے لیے ایک اہم سنگ میل ہے۔
نوالٹ نے ٹیکنالوجی کا استعمال کرتےہوئے اختراعی کاوشیں کرتے رہنے کو اپنا ہدف بنایا ہے۔ ہم نے ۲۰۲۲ءمیں دنیا کی پہلی شمسی توانائی سے چلنے والی ماہی گیر کشتی’ ایس آر اے وی‘ فراہم کی جس کا مطلب ملیالم زبان میں شارک ہے۔جب کہ ۲۰۲۳ ءمیں ہم نے ہندوستان کی تیز ترین شمسی توانائی سے چلنے والی کشتی ’باراکڈا ‘ شروع کی۔ ۲۰۲۴ء میں ہم نے ہندوستان کی سب سے بڑی شمسی توانائی سے چلنے والی کشتی، اندرا کو مکمل کیا۔
فی الحال، ہم دنیا کا پہلا سولر الیکٹرک رورو (رول آن/رول آف) جہاز تیار کر رہے ہیں جو ۲۰ کاروں یا ۴بڑے ٹریلرز کو لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ مزید برآں، ہم ایندھن کے خلیوں، سبز ایندھن اور وِنڈ پاور کے نفاذ کے لیے ٹیکنالوجیوں پر کام کر رہے ہیں۔
یہ سنگ میل جدید ترین، ماحول دوست جہاز تیار کرنے کے ہمارے عزم کی نشاندہی کرتے ہیں۔
سمندری نقل و حمل کے لیے یہ اختراعات کیوں اہم ہیں؟
دنیا کا تقریباً ۹۰فی صد سامان پانی کے ذریعہ ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جایا جاتا ہے۔ اور جہازرانی کی صنعت عالمی آلودگی میں اپنا ۳ فی صد حصہ ڈالتی ہے۔شمسی توانائی سے چلنے والی کشتیاں اس آلودگی کو کم کرنے کا حل پیش کرتی ہیں۔
شمسی توانائی سے چلنے والی کشتیوں کو منتخب کرنے کی متعدد وجوہات ہیں۔ وہ فضائی اور آبی آلودگی کو ختم کرتی ہیں، تیل کے پھیلنے اور تیرتے ملبے کے خطرے کو کم کرتی ہیں، شور،ارتعاش اور ایندھن کی بو کو ختم کر کے زیادہ آرام دہ سفر کا تجربہ فراہم کرتی ہیں اور ایندھن اور رکھ رکھاؤ کے اخراجات میں نمایاں بچت پیش کرتی ہیں ۔
کشتیوں کے مالکان کےلیے شمسی توانائی سے چلنے والے جہاز روایتی کشتیوں کے مقابلے طویل مدتی اخراجات کی اثرانگیزی پیش کرتے ہیں۔ وہ صاف توانائی کے شعبے میں ملازمتیں پیدا کرنے اور مقامی معیشتوں کو فروغ دینے میں بھی اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔ کشتیوں کا ڈیزائن حفاظت کو بڑھانے اور حادثات کے امکانات کو کم کرنے کے استحکام پر مرکوز ہے۔
آبی گزرگاہوں اور سمندروں کے ماحولیاتی تحفظ پر آپ کی اختراعات کا کیا اثر ہے؟
نیوالٹ کے بیڑے میں شمسی توانائی سے چلنے والی ۲۷کشتیاں ہیں۔ ہم مزید ۶۲ کشتیاں تیار کرنے کا عزم رکھتے ہیں ۔ ہمارے موجودہ جہاز پہلے ہی کاربن کے اخراج میں ۲ ہزار ٹن سے زیادہ تخفیف کر چکے ہیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ منصوبہ بند کشتیوں کی شروعات کے ساتھ کاربن کے اخراج میں ہم سالانہ اعتبار سے مزید ۱۵ سو ٹن کی تخفیف کرسکیں گے ۔اس کا مطلب ہے کہ ہر چھوٹی کشتی پر سالانہ اوسطاً ۳۵ٹن اورہر بڑے جہاز پر ۹۲ ٹن کی بچت ہو گی۔
سیاحت کی منڈی کی طرف سے بڑھتی ہوئی طلب کے جواب میں ہم نے چھوٹی سے متوسط حجم کی کروز کشتیوں کو شامل کرنے کےلیے اپنی پیشکش میں توسیع کی ہے۔ فی الحال، ہماری کشتیاں ہندوستان کی چھ ریاستوں میں چل رہی ہیں۔
کیا آپ ہمیں اپنے آئی وی ایل پی تجربے کے بارے میں بتا سکتے ہیں؟ پروگرام سے آپ کے اہم نکات کیا تھے؟
آئی وی ایل پی پروگرام واقعی ایک تغیراتی تجربہ تھا۔ پروگرام کے دوران ہم نے امریکہ کے پانچ شہروں کا دورہ کیا، ہر شہر ایک منفرد اور متضاد منظر پیش کرتا ہے۔ ان متنوع حالات نے مجھے اس سلسلے میں ایک مختلف نقطہ نظر سے روشناس کرایا کہ کس طرح مقامی حالات اور وسائل کمیونٹی کے چیلنجوں کے حل کو تشکیل دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر، نیو ہیمپشائر میں، میں ان کے نصب العین ’’ آزاد رہو یا مرو‘‘ سے متاثر ہوا ۔
تجربے نے پائیدار توانائی کے حل کو کمیونٹی کی ترقی میں ضم کرنے کی اہمیت کو بھی اجاگر کیا، بالخصوص حاشیے پر کھڑے ان طبقات کے لیے جو سمندری ماہی گیری پر انحصار کرتے ہیں ۔
رنجیتا بسواس کولکاتہ میں مقیم ایک صحافی ہیں۔ وہ مختصر کہانیاں لکھنے کے علاوہ افسانوی ادب کا ترجمہ بھی کرتی ہیں ۔
تبصرہ