تاریخ بتانے والی کہانیاں

اے ایف سی پی کی مالی اعانت سے چلنے والا ایک پروجیکٹ گرینڈ ٹرینک روڈ کے ساتھ ۱۶ ویں اور ۱۷ ویں صدی کی تعمیر شدہ عمارتوں کو دستاویزی شکل دے رہا ہے۔

کریتیکا شرما

September 2024

تاریخ بتانے والی کہانیاں  

اےآئی آئی ایس ۶۰ مغلیہ عمارتوں کو دستاویزی شکل دے رہا ہے۔ ادارہ مقامی طبقات سے گفت و شنید کرکے ثقافت کا درجہ رکھنے والی ان عمارتوں سے اُن کے روابط کا مطالعہ بھی کررہا ہے۔ یہ کام اے ایف پی سی کی مالی اعانت سے ہو رہا ہے۔ (تعلیمی اور ثقافتی معاملات سے متعلق بیورو/اے ایف سی پی انڈیا/ بشکریہ فلیکر)

مغرب میں افغانستان تو مشرق میں بنگلہ دیش تک پھیلی ہوئی ایشیا کی قدیم ترین اور طویل ترین شاہراہوں میں سے ایک گرینڈ ٹرینک روڈ کی ایک شاندار تاریخ رہی ہے۔ اس تاریخ کے ایک حصے کو معدوم ہونے کے خطرے کا سامنا ہے کیونکہ ہم لوگ ان نسلوں کو کھوتے جارہے ہیں جو کبھی اس پر آباد تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ امیریکن انسٹی ٹیوٹ آف انڈین اسٹڈیز (اے آئی آئی ایس)، یو ایس ایمبسڈرس فنڈ فار کلچرل پریزرویشن (اے ایف سی پی) کی مدد سے ۱۶ ویں اور ۱۷ ویں صدی میں تعمیر شدہ ان قدیم عمارتوں میں رہنے والے خاندانوں کی زبانی تاریخ کو دستاویزی شکل دے رہا ہے۔

اے ایف سی پی کی مالی اعانت سے چلنے والا یہ پروگرام تاریخی عمارتوں اور یادگاروں، آثار قدیمہ کے مقاموں، عجائب گھروں میں موجود اشیا ءکے مجموعوں، نسلی جغرافیہ سے متعلق چیزوں، پینٹنگز، مخطوطات، دیسی زبانوں اور روایتی ثقافتی اظہار کی دیگر شکلوں کے تحفظ میں مدد کے لیے امریکی وسائل سے استفادہ کرتا ہے۔

اے ایف سی پی کے ذریعے امریکہ نے گذشتہ دو دہائیوں کے دوران ہندوستان میں ۲۰ سے زائد اہم تاریخی مقامات اور غیر مرئی ورثے کے پہلوؤں کو دستاویزی شکل دینے ، انہیں تحفظ فراہم کرنے اور ان کے احیا ءمیں۲ ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔

’’انڈیا: گرینڈ ٹرینک روڈ پر ۱۶ ویں۔۱۷ ویں صدی کی مغل یادگاروں کی دستاویزات ‘‘نامی پروجیکٹ ۶۰ یادگاروں کو دستاویزی شکل دینے کا کام انجام دے رہا ہے ۔ اس کام کے لیے مقامی طبقات سے بات چیت بھی کی جارہی ہے تاکہ ان کے شاہراہ سے تعلق کی تفہیم ممکن ہو سکے۔ اے آئی آئی ایس سینٹر فار آرٹ اینڈ آرکیالوجی کی ڈائریکٹر وندنا سنہا کا کہنا ہے کہ وہ لوگ ہندوستان میں آگرہ سے امرتسر تک کے علاقے کا مطالعہ کریں گے جب کہ لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسیز کے ورچوئل ساتھی پاکستان میں اس راستے کے ایک حصے کا مطالعہ کریں گے۔ اے آئی آئی ایس کودو سال میں مکمل کیے جانے والے اس منصوبے کے لیے ایک لاکھ ترپن ہزار امریکی ڈالر دیے گئے ہیں ۔

سرائے

گرینڈ ٹرنک روڈ کے ساتھ ساتھ تعمیر شدہ یہ یادگارعمارتیں تقسیم ہند میں بھی محفوظ رہیں۔ یہ اور بات ہے کہ اس تقسیم نے سرحد کے دونوں طرف شاہی شاہراہ کو منقسم کردیا تھا۔ اے آئی آئی ایس نے اے ایف سی پی گرانٹ کے تحت ۲۰۰۸ء میں ہریانہ اور پنجاب میں یادگاروں کو دستاویزی شکل دی تھی۔ موجودہ پروجیکٹ دہلی اور اترپردیش کا احاطہ کرے گا۔

سنہا بتاتی ہیں’’ ہم لوگ اس شاہراہ کو دستاویزی شکل دینا چاہتے تھے کیوں کہ ہمیں ۲۰۰۸ء میں اپنےگذشتہ پروجیکٹ کے دوران معلوم ہوا تھا کہ اس شاہراہ پر سرایوں کے آس پاس یا بہت سے معاملات میں ان کے اندر رہنے والے طبقات تقسیم ہند کے دوران پاکستان سے ہجرت کر گئے تھے ۔ ہم یہ جاننے کے لیے متجسس تھے کہ انہیں وہاں کس چیز نے رہنے پر مجبور کیا تھا۔‘‘

کوس مینار(بائیں)مغلیہ دور کی وہ تعمیرات ہیں جن سے دوری کا پتہ چلتا تھا۔ ہر آٹھ کوس مینار کے بعد ایک سرائے ہوتی تھی۔(تعلیمی اور ثقافتی معاملات سے متعلق بیورو/اے ایف سی پی انڈیا/ بشکریہ فلیکر)

اگرچہ یہ شاہراہ اصل میں تیسری صدی قبل مسیح کے آس پاس تعمیر کی گئی تھی لیکن دور مغلیہ میں اسے فروغ دیا گیا تھا اور اس کی دیکھ بھال کی گئی تھی۔ اے آئی آئی ایس کی ٹیم نے پلوں، باغوں، مسجدوں، سرایوں، کوس مینار اور مقبروں کو دریافت کیا ہے جن کے ارد گرد یا اندر لوگ رہتے ہیں اور ان کی دیکھ بھال بھی کرتے ہیں۔ آگرہ اور امرتسر کے درمیان پائے جانے والے سرائے راستے میں پائے جانے والے قلعہ بند پڑاؤ ہیں۔ ایک کوس تقریباً ۲ میل کا ہوتا ہے اور سرایوں کو اس طرح کے آٹھ ستونوں کے بعد تعمیر کیا گیا تھا۔ سنہا بتاتی ہیں ’’اس کا مطلب یہ ہے کہ دن کے وقت کسی بھی قافلے سے سفر کی امید کی جاتی تھی اورپھر ہر۱۶ میل کے بعد انہیں ایک سرائے مل جاتی تھی تاکہ قافلہ کے اراکین آرام کرکے تازہ دم ہو لیں۔‘‘

ٹیم نے مشاہدہ کیا کہ تقریبا ًتمام سرایوں میں دو دروازے ہیں۔ وہ بتاتی ہیں ’’اتر پردیش میں آگرہ کی طرف رخ والے دروازوں کو آگرہ گیٹ کہا جاتا تھا جب کہ دہلی کا جانب رخ والوں کو دہلی گیٹ کہا جاتا تھا۔‘‘

سرایوں کی ساخت ایک جیسی ہی رہتی ہے جس کی چاروں دیواروں کے ساتھ دو دروازے اور کمرے ہیں۔ ان قلعہ بند عمارتوں کے چاروں کونوں میں بڑے کمرے ہیں جن میں اعلیٰ حکام یا سرائے کے مالکان اور دیکھ بھال کرنے والے رہا کرتے تھے۔ ان میں سے بعض سرایوں میں حمام کا بھی انتظام ہوا کرتا تھا۔

شاہی قافلوں اور ان کے جانوروں کے لیے بعض سرایوں میں کنوؤں اور بڑے اصطبلوں کا بھی انتظام کیا گیا تھا جو اس وقت کے حکمرانوں کے لیے اس شاہراہ کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔ سنہا بتاتی ہیں ’’مثال کے طور پر پنجاب میں جالندھر کے قریب سرائے نور محل ایک خوبصورت عمارت ہے جس میں مغل شہنشاہ جہانگیر کے لیے مخصوص کمرے کا انتظام تھا۔‘‘وہ مزید بتاتی ہیں کہ پنجاب میں سرایوں کے دروازوں پرباریک آرٹ ورک، پینٹنگز اور چمکدار ٹائل ورک اس کی خوبصورتی میں مزید اضافہ کرتے ہیں۔

معدوم ہوتی عمارتیں

رہائشیوں سے بات کرتے ہوئے سنہا کی ٹیم کو احساس ہوا کہ ان ڈھانچوں سے جڑی زبانی تاریخ بڑی پُر شکوہ ہے۔ وہ کہتی ہیں ’’ ہم لوگوں سے پوچھا کرتے کہ وہ ان سرایوں میں کس طرح آباد ہوئے تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ یہ ڈھانچے مسافروں کے لیے غیر اہم کب ہو گئے۔زبانی تاریخ کی ہماری دستاویزات کی بنیاد پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ جب غالباً برطانوی حکومت نے شاہراہ کو دوبارہ تعمیر کیا ہوگا تو یہ سرائے مسافروں کے لیے کار آمد نہ رہی ہوگی ۔‘‘

مثال کے طور پر پنجاب میں سرائے امانت خان، آگرہ ۔ لاہور راستے پر ہندوستان کا آخری سرائے ہے جسے مغل شہنشاہ شاہجہاں کے خطاط نے تعمیرکرایا تھا۔ اب اس میں گورداسپور کے تین خاندان زندگی گزارتے ہیں جو تقریباً ۳۰۰ برس پہلے اس عمارت میں منتقل ہوئے تھے۔ سنہا بتاتی ہیں’’ ان دنوں آگرہ۔لاہور راستے میں کافی آمدورفت ہوتی تھی اور یہ انہیں کاروبار کے زبردست مواقع فراہم کرتا تھا۔ تقسیم ہند سے پہلے بھی یہ ایک مصروف بازار ہوا کرتا تھا اور یہ قلعہ بند ڈھانچہ ان کے کنبوں اور کاروباروں کے لیے محفوظ جگہ خیال کی جاتی تھی۔‘‘

سنہا بتاتی ہیں کہ تقسیم ہند کے بعد نقل مکانی کرنے والے بہت سے لوگوں نے پنجاب کے راستے میں خالی سرایوں میں آباد ہونا شروع کر دیا تھا۔ زندگی بھر ان ڈھانچوں میں رہنے کے بعد رہائشیوں کو ان مقامات سے لگاؤ پیدا ہوا اور وہ ان کے احیا ءمیں مدد کے خواہاں ہوئے۔ وہ کہتی ہیں ’’ہم نے جن لوگوں سے بات کی، ان سے معلوم ہوا کہ ان جگہوں پر رہ کر وہ فخر محسوس کر رہے ہیں اور وہ ان مقامات کی حفاظت کے لیے حکومت کے ساتھ تعاون کرنے پر مسرور ہیں۔ اب یہ قدیم تاریخی عمارتیں ان کی شناخت کا حصہ بن چکی ہیں۔‘‘


اسپَین نیوز لیٹر کو مفت میل پر منگوانے کے لیے لنک میں دیے گئے فارم کو بھریں: https://bit.ly/SubscribeSPAN



تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے