خوراک کی بربادی کو روکنا

خوراک کی بربادی کا ماحولیات اور بھوک پر برا اثر پڑتا ہے۔ مگر اب کارکن اور تنظیمیں ترک شدہ خوراک کو ری سائیکل کرکے بھوکی برادریوں کو کھلانے کا کام کر رہی ہیں۔

نوئیلانی کرشنر

May 2022

خوراک کی بربادی کو روکنا

 

خوراک کی بربادی اس وقت ہوتی ہے جب سبزی فروش بدصورت یا اپنی میعاد پوری کرچکی غذائی اشیا کو اس لیے پھینک دیتے ہیں کیوں کہ صارفین انہیں نہیں خریدتے۔ متعدد امریکی تنظیمیں اس صورت حال کو تبدیل کرنے کے لیے کام کر رہی ہیں۔ (©شٹر اسٹاک)

خوراک کا ضیاع دنیا میں بھوک کے مسئلے کو بد سے بدتر بناتا ہے اور موسمیاتی بحران کے ایک بڑی وجہ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں اضافہ کرتا ہے۔

اقوام متحدہ کا اندازہ ہے کہ دنیا بھر میں ہر سال قریب قریب ایک تہائی خوراک برباد ہو جاتی ہے۔ اس کے علاوہ پھینکے جانے والے کھانے ماحول مخالف گیسوں کے مجموعی اخراج میں سے ۸ فی صد اخراج کا باعث بنتے ہیں۔

امریکہ میں فعال کارکن اور تنظیمیں کھانوں کی ری سائیکلنگ کو فروغ دیتی ہیں۔ ان کی کوششوں سے طبقات کو کھانا کھلانے اور کاربن کے اخراج کو کم کرنے میں مدد ملتی ہے۔

یہ نہیں ہو سکتا کہ ’’ خوراک کھیت سے کچرے میں جائے‘‘

جب ۱۴سالہ ماریہ روز بیلڈنگ رضاکارانہ طور پر خیراتی کام کر رہی تھیں تو انہوں نے ایسے میں میعاد ختم ہونے والا کھانا کچرے میں پھینکتے ہوئے دیکھا جب لوگ ایک مقامی فوڈ بینک میں قطار میں کھڑے کھانا لینے کا انتظار کر رہے تھے۔

انہوں نے جنوری میں بی بی سی کو بتایا ’’ مجھ میں آج تک جتنے بھی تکلیف دہ احساسات پیدا ہوئے ہیں ، یہ احساس ان میں سے ایک تھا۔‘‘ انہوں نے ’ مینز‘ کے نام سے ایک ڈیٹا بیس تیار کرنے میں کئی برس صرف کیے۔

یہ پلیٹ فارم ریستورانوں اور پرچون کی دکانوں کو (مفت کھانا فراہم کرنے والے) اُن فوڈ بینکوں، فوڈ پینٹریز، سوپ کچن، شیلٹرز اور عبادت گاہوں سے جوڑتا ہے جو فاضل یا ایسا کھانا تقسیم کرتے ہیں جن کی معیاد ختم ہونے کے قریب ہوتی ہے۔ اگر اس قسم کے کھانے کو تقسیم نہ کیا جائے تو اسے پھینک دیا جاتا ہے۔

اس پلیٹ فارم کی ابتدا تو ایک چھوٹے سے پلیٹ فارم کی شکل میں ہوئی مگر اس کا استعمال وقت کے ساتھ ساتھ پھیلتا چلا گیا۔ بیلڈنگ بتاتی ہیں ’’ہم نے دو ریاستوں سے اس کا آغاز کیا (مگر) ۲۰۱۵ کے آخر تک یہ پلیٹ فارم ۲۶ (ریاستوں)میں استعمال کیا جانے لگا۔ ہم نے یہ پلیٹ فارم امریکی یونیورسٹی کے ہاسٹل کے کمرے سے چلایا۔‘‘

Maria Rose Belding (© Jamie McCarthy/Getty Images)

 

ماریہ روز بیلڈنگ کو جارج ایچ ڈبلیو بُش پوائنٹس آف لائٹ ایوارڈس گالا میں نیو یارک سٹی میں ۲۰۱۹ میں اعزاز سے نوازا گیا۔ (©جیمی میک کارتھی/ گیٹی امیجیز )

اس وقت سے لے کر اب تک مینز ڈیٹا بیس کے ذریعے ۳ اعشاریہ ایک ارب کلوگرام سے زیادہ خوراک بچائی جا چکی اور اور امریکہ میں ۵ لاکھ ۳۷ ہزار سے زائد افراد کو کھانا دیا جا چکا ہے۔

امریکی طلبہ کی زیرقیادت چلنے والی فارم لنک پروجیکٹ ایک ایسی غیرمنافع بخش تنظیم ہے جو کسانوں کو فوڈ بینکوں سے براہ راست جوڑ کر اپنا کام کرتی ہے۔

اس تنظیم کے سی ای او اور شریک بانی جیمز کنوف کہتے ہیں ’’ ہم ایک ایسا فوڈ سسٹم بنانے کے مشن پر ہیں جو لوگوں اور ہماری زمین کو اوّلیت دیتا ہے۔‘‘

رضاکار طلبہ کسانوں کی فالتو پیداوار کو قریبی فوڈ بینکوں میں پہنچاتے ہیں جو انہیں ضرورت مند امریکیوں میں تقسیم کردیتے ہیں۔

۲۰۲۰ سے اب تک فارم لنک پروجیکٹ نے قریب ۲۴ اعشاریہ ۵ ملین کلو گرام خوراک کو بچا کر امریکہ بھی میں ۴۴ اعشاریہ ۸ ملین افراد کو کھانا فراہم کیا۔ اس سے دس ہزار تین سو میٹرک ٹن کاربن ڈائی آکسائڈ کے اخراج کو روکا جا سکا جس کی مثال ۲۲۰۰ کاروں کو سڑکوں سے ہٹا لینے کے مترادف ہے۔

فارم لنک پروجیکٹ کے حال ہی میں شروع کیے گئے فارم لنک پروجیکٹ میکسیکواب تک ایک لاکھ بارہ ہزار کلوگرام سے زیادہ سبزی ملک کے فوڈ بینکوں میں پہنچا چکا ہے۔

بدصورت پھلوں اور سبزیوں کو بچانا

Bag of potaties branded "Spuglies" (© Charlie Neibergall/AP Images)

 

۲۰۱۹ میں ریاست آئیووا کے اربن ڈیل میں واقع سبزی کی دکان میں موجود بدصورت آلو۔(© چارلی نیبرگل۔ اے پی امیجیز )

سبزیوں کےا سٹور بعض اوقات کھانے کے لیے مکمل طور پر موزوں مگر دیکھنے میں بدصورت دکھائی دینے والی سبزی یا پھلوں کو اس لیے پھینک دیتے ہیں کیونکہ صارفین نامکمل سبزیاں یا پھل نہیں خریدتے۔

گھروں پر سودا سلف پہنچانے والی امپرفیکٹ فوڈزنامی کمپنی امریکہ کے اسٹوروں سے آنے والے پھلوں اور سبزیوں کو محفوظ کر لیتی ہے اور انہیں ہر ہفتے لوگوں کے گھروں پر پہنچاتی ہے۔

سات سال قبل امپرفیکٹ فوڈزکے قیام سے لے کر اب تک اس تنظیم نے ۱۴ اعشاریہ ۵ ارب لٹر پانی کی بچت کر کے اور ۳۵ ہزار میٹرک ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کے پیدا ہونے کو روک کر ۶ کروڑ ۳۰ لاکھ ۴۹ ہزار کلوگرام خوراک کو ضائع ہونے سے پچایا۔

اس کمپنی کا کہنا ہے’’جب ہم کھانے کی جو چیزیں اگاتے ہیں تو ہم چاہتے ہیں کہ انہیں کھایا جائے تاکہ اس کے اگانے میں کام آنے والے تمام وسائل یعنی پانی، توانائی، مالی سرمایہ کاری، وقت اور دیکھ بھال کی قدر کی جائے۔‘‘

تشکر برائے متن شیئر امیریکہ


ٹَیگس

تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے