بھارت اور امریکہ میں محققین تپ دِق کے علاج میں مدد کے لیے ایک ا ختراعی آلہ تیار کرنے میں تعاون کر رہے ہیں ۔
March 2020
تار کی شکل کا آلہ جس میں دانے کی شکل میں جراثیم کُش ادویات لپٹی ہیں ۔اس سے ذیابیطس کے مریض کے شکم میں ادویات کا آہستہ آہستہ اخراج ایک ماہ کی مدت تک ہوتا ہے۔
خطرناک اور انتہائی متعدی بیماری تپ دِق(ٹی بی)ہزاروں برس سے انسانیت کے لیے پریشانی کا باعث ہے ۔ حالاں کہ اس مرض کی بیخ کنی کے لیےٹیسٹ اور علاج ہیں مگر اس کے باوجود ہر برس بھارت میں اس بیماری کی وجہ سے ہزاروں اور دنیا بھر میں ۱۰ لاکھ سے زیادہ افراد موت کا شکار ہو رہے ہیں ۔
نئی دہلی کے قومی انسٹی ٹیوٹ برائے تپ دِق اور امراض تنفس (نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ٹیوبر کیولاسِس اینڈ ریسپائریٹری ڈیزیز)کے شعبہ َ داخلی طب کی سربراہ اُپاسنا اگروال کا کہنا ہے کہ ملک پر دنیا بھر میں پھیلی ٹی بی کی بیماری کا سب سے زیادہ بوجھ ہے ۔ یہ ملک میں صحت عامہ کے لیے ایک بہت بڑا مسئلہ ہے اور علاج، دیکھ بھال کے اخراجات کے علاوہ اجرت کی بربادی کے لحاظ سے اس کا ایک بہت زبردست معاشی اثر بھی پڑتا ہے ۔
یہ بیماری ایک جراثیم کی وجہ سے ہوتی ہے جو اکثر و بیشتر پھیپھڑوں کو متاثر کر تا ہے ۔ مگر یہ یہیں تک محدود نہیں ہے ۔ یہ جسم کے کسی بھی حصے جیسے گردے ، ریڑھ کی ہڈی اور دماغ پر حملہ کر سکتا ہے ۔ اس سے متاثرافراد خونی کھانسی، بخار، رات میں پسینہ آنے اور جسم کو کمزور بنانے والے دیگر علامات کا شکار ہو جاتے ہیں ۔
علاج میں درپیش رکاوٹیں
ملک میں ٹی بی کے مسائل کی جڑیں وسیع اور پیچیدہ ہیں ۔ نئی دہلی کے مولانا آزاد میڈیکل کالج میں ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر نندنی شرما کہتی ہیں ’’ جیسا کہ سر ولیم آسلر نے پیش گوئی کی تھی کہ ٹی بی ایک معاشرتی مرض ہے جس کا ایک طبی پہلو بھی ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کا خاتمہ ایک چیلنج ہے ۔ اس بیماری سے منسلک غربت، بھیڑ بھاڑ اور معاشرتی بدنامی جیسے بہت سے معاشرتی اسباب ہیں جن پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔‘‘
ڈاکٹر اگروال بتاتی ہیں کہ ٹی بی کے مریضوں میں عام طور پر اس کے علاج کے لیے استعمال ہونے والی دواؤں کے خلاف بھی تیزی کے ساتھ مزاحمت نظر آنے لگی ہے ۔ تشویش ناک طور پر بھارت کی قریب قریب۴۰ فی صد آبادی ٹی بی کے جراثیم سے متاثر تو ہے مگر متاثرین میں مرض کی کوئی علامت نظر نہیں آتی ۔ اس سے یہ خطرہ پیدا ہو گیا ہے کہ ٹی بی کے کسی مریض کا مدافعتی نظام کمزور ہوجانے کی صورت میں یہ مرض تازہ طور پر فعال اور متعدی شکل اختیار کر سکتا ہے ۔
ٹی بی کے علاج میں سب سے مشکل رکاوٹوں میں سے ایک اس کا سب سے عام علاج کرنا ہے ۔ مساچیوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی ) میں ٹی بی کی تعلیم حاصل کرنے والی ڈاکٹر مالویکا ورما کا کہنا ہے کہ اس بیماری سے نمٹنے کے لیے بھارتے میں سر دست مریضوں کو روزانہ کسی شفاخانہ کا رخ کرنا پڑتا ہے جہاں اس بات کی نگرانی کے لیے کہ مریض دوا کھا رہے ہیں یا نہیں حفظان ِ صحت سے متعلق ایک کارکن کو رکھنا پڑتا ہے ۔ مریضوں پر لازم ہے کہ وہ شفایاب ہونے سے پہلے ۶ ماہ تک شفاخانوں کا دورہ کرکے ہر روز دوا لیتے رہیں ۔ یہ ایک ایسا نظام ہے جسے ڈاکٹر ورما مریضوں اور حفظان صحت کے نظاموں ، خاص طور پر دیہی علاقوں میں ٹی بی کے معاملات کے لیے ایک بہت بڑا بوجھ قرار دیتی ہیں ۔ وہ کہتی ہیں کہ اس کے نتیجے میں تقریباًٹی بی کے نصف مریض علاج کا اپنا کورس مکمل کرنے میں ناکام رہتے ہیں ۔
ڈاکٹر مالویکا ورما جنہوں نے ایم آئی ٹی کے ایک طالب علم کی حیثیت سے ذیابیطس کے علاج سے متعلق آلہ تیار کیا۔تصویر بشکریہ جوناتھن ملر۔
اختراعی انجینئرنگ
ٹی بی کے علاج میں اس رکاوٹ نے ایک طبی اختراع کی تخلیق کی راہ ہموار کی ہے جس سے مریضوں کا علاج آسان ہو سکتا ہے اور اور حفظان صحت سے متعلق خدمات فراہم کرنے والوں کابوجھ بھی کم ہوسکتا ہے ۔
یہ اختراع ٹی بی مخالف دوائیوں کی گولیوں کے ساتھ منسلک دھات کے تار کا ایک چھوٹا، پتلا ٹکڑا ہے ۔ یہ مریض کی ناک کے ذریعہ داخل کرکے اس کے پیٹ تک لے جایا جاتا ہے ۔ جسم کی اندرونی گرمی کی وجہ سے یہ کنڈلی کی شکل اختیار کر لیتا ہے جس سے یہ آنتوں تک نہیں پہنچ پاتا اور نتیجے کے طور پر اس کے جسم سے باہر نکلنے کی گنجائش ختم ہو جاتی ہے ۔ ایک بار کامیابی کے ساتھ پیٹ کے اندر داخل ہونے کے بعد اس سے شکم میں دواؤں کا اخراج باقاعدگی کے ساتھ شروع ہو جاتا ہے جو چار ہفتوں تک مستقل طور پر جاری رہتاہے ۔
یہ آلہ چھوٹا ہوسکتا ہے لیکن اس کے اثرات بہت زیادہ ہوتے ہیں ۔ اگر مریض علاج کی اس نئی شکل کو اختیار کرتا ہے تو اسے دن میں ایک بارکی بجائے مہینے میں صرف ایک بار شفا خانہ جانا پڑے گا ۔ ڈاکٹر ورما کا کہنا ہے کہ اس طرح دوا کا کورس مکمل کرنے اور پوری طرح ٹھیک ہونے کا امکان بہت زیادہ ہوتا ہے ۔
آلہ کی تخلیق کئی سال پہلے ایم آئی ٹی میں اس وقت شروع ہوئی جب اس وقت ادارہ میں گریجویشن کی طالبہ ورما نے یونیورسٹی کے پروفیسررابرٹ لینگر اور جیووانی ٹریوَرسوکے ساتھ مل کر ٹی بی کے علاج کے طریقوں کی جانچ کی جس میں روزانہ کی گولیاں اور کلینک کے دورے شامل نہیں تھے ۔ جب ان کی تحقیق ترقی کی جانب گامزن ہوئی اور کنڈلی کی شکل کا آلہ بننا شروع ہوا تو ان کی ٹیم میں ڈاکٹر شرما اور ڈاکٹر اگروال سمیت بھارت اور امریکہ کے ٹی بی کے دوسرے ماہرین بھی شامل ہو گئے ۔
ڈاکٹر اگروال کہتی ہیں ’’ ٹی بی کے علاج کا یہ بالکل نیا طریقہ ہے ۔ ملک میں تحقیق کے دوران یہ ٹیم مریضوں اورحفظان صحت فراہم کرنے والوں کی تعداد سے خوشگوار حیرت میں پڑ گئی جنہوں نے پیٹ میں سرایت کرنے والے ایک آلے سے ٹی بی کے علاج پر آمادگی کا اظہار کیا ۔‘‘
ٹیم حفاظت اور اثر انگیزی کے نقطہ نظر سے فعال طور پر آلہ کا تجربہ کر رہی ہے ۔ ٹیم اس چیز کا بھی مطالعہ کر رہی ہے کہ اسے ملک گیر پیمانے پر مریضوں تک کیسے بہتر طور پر پہنچایا جا سکتا ہے ۔ ڈاکٹر ورما کہتی ہیں ’’ ہمیں امید ہے کہ آئندہ ۵ برسوں میں اس کے ابتدائی تجربوں کا عمل شروع ہوجائے گا ۔‘‘
گرچہ اس سے پہلے کہ مریض اس سے فیضیاب ہوں کئی چیزوں کی تکمیل ہونی ہے مگر تحقیقاتی ٹیم اس اختراع میں بڑے امکانات کا اندازہ لگاتی ہے ۔ ڈاکٹر اگروال کے مطابق اس طریقہَ کار سے نہ صرف دنیا بھر کے مریضوں کو ان کے علاج کے منصوبوں پر قائم رہنے میں مدد ملے گی بلکہ علاج کے نتائج کو بہتر بنانے ، جراثیم کش ادویات کے خلاف بیماری کی مزاحمت کو کم کرنے کے علاوہ بھی کئی چیزوں میں مدد ملے گی ۔
مائیکل گیلنٹ ، گیلنٹ میوزک کے بانی اور سی ای او ہیں ۔ وہ نیو یارک شہر میں رہتے ہیں ۔
تبصرہ