حفظان صحت کی ماحول دوست راہ

ممبئی میں واقع نووارد کمپنی آکار سستے اور ماحول دوست حل پیش کرتی ہے تاکہ حیض کے دوران خواتین کو حفظان صحت کی مصنوعات تک آسان رسائی حاصل ہو۔

رنجیتا بسواس

August 2021

حفظان صحت کی ماحول دوست راہ

مہاراشٹر کے پنویل میں حیضی صحت سے متعلق تعلیم کی ایک کلاس۔تصویر بشکریہ آکار

آکارکے بانی جے دیپ منڈل بتاتے ہیں ”اس وقت بھارت میں ۳۵۵ملین خواتین ایسی ہیں جنہیں حیض آتا ہے۔ مگر افسوس کی بات ہے کہ ان میں سے محض۳۶ فی صدخواتین اور لڑکیاں ہی سینٹری پیڈ استعمال کرتی ہیں۔“اس حقیقت سے صاف ظاہر ہے کہ حیضی صحت اور حفظان صحت کی مصنوعات کو تمام خواتین کے لیے مہیا کرانے  کی سمت میں کافی طویل سفر طے کرنا باقی ہے۔ ‘‘

فی الوقت ملک میں متعدد تجارتی تنظیمیں ہیں جو حیضی صحت اور حفظان صحت کی سستی مصنوعات تیار کرنے اور انہیں دستیاب کرنے میں مصروف ہیں۔ منڈل کی سماجی کاروباری تنظیم آکار ”آنندی“ کے نام سے سینٹری نیپکن بناتی ہے۔اس کا آٹھ نیپکن کا ایک پیکٹ چالیس روپئے میں فرخت ہوتاہے۔اس سے جو منافع ہوتا ہے اس سے اس کو بنانے والی خواتین کو کمیشن دیا جاتا ہے۔آکار اسکولوں اور دیہی علاقوں  کے طبقات میں اسے مفت تقسیم کرتا ہے۔

ان سینٹری نیپکن کی فراہمی یقینی طور پرایک بڑا مسئلہ ہے مگر اس سے بھی سنگین مسئلہ ان میں موجود پلاسٹک ہے جس کے ماحول پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔منڈل بتاتے ہیں ’’ جوخواتین موجودہ مہنگی برینڈ استعمال کرنے کی قوت رکھتی ہیں وہ غیر دانستہ طور پر ملبے کی شکل میں نقصان دہ فضلہ میں اضافہ کا سبب بنتی ہیں۔کیونکہ یا تو یہ سینٹری پیڈ پانچ سو برس سے بھی زائد عرصے تک باقی رہتے ہیں یا پھر انہیں جلایاجاتا ہے جس کی وجہ سے وہ ہوا نقصاندہ کیمیاوی مادّے سے آلودہ ہوتی ہے جس میں ہم سانس لیتے ہیں۔‘‘

منڈل انکشاف کرتے ہیں کہ آنندی نیپکن نقصان دہ کیمیاوی مادّوں سے پاک ہیں اور تین سے چھ مہینوں میں ہی یہ گَل جاتے ہیں اور قدرتی عناصر میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔منڈل فخریہ انداز میں بتاتےہیں”آکار ایسی پہلی کمپنی ہے جس نے تجارتی طور پر بایو۔سیپ تیار کیا۔“۔بایو سیپ کی  وضاحت کرتے ہوئے منڈل کہتے ہیں کہ یہ قدرتی مادہ سے تیار کیا جانے والا جزو ہے۔اس کی خاصیت یہ ہے کہ یہ گَل کر حیاتیاتی طور پر خود بخود تحلیل ہوجاتا ہے۔

منڈل کو ماحول دوست مصنوعات کا خیال ۲۰۱۲ءمیں آیا۔ اس وقت وہ آغا خان فاؤنڈیشن کے حیضی حفظان صحت کے ایک پروجیکٹ پر افغانستان میں کام کررہے تھے۔اس پروجیکٹ کا ہدف افغانستان میں سینٹری نیپکن تیار کرنے کی فیکٹری لگانے کے امکانات کا جائزہ لینا تھا۔ ان کا کہنا ہے’’ میں نے پایا کہ قابل تلف پیڈ بازار میں آسانی سے دستیاب نہیں ہیں۔شاید اس کی وجہ حیض سے منسلک شرم ہے۔مگر یہ ضرور ہے کہ ان کی فروخت ایسے مقامات(مثال کے طور پر بیوٹی پارلر)پر ہوتی ہے جہاں صرف خواتین جاتی ہیں۔ ‘‘

پیڈکا اتلاف بھی ایک بڑا مسئلہ تھا۔بہت سی خواتین کو اپنے ہمسایوں سے بچنے کے لیے پیڈ پھینکنے کے لیے کافی دور جانا پڑتا تھا۔کبھی ایسا بھی ہوتا تھا کہ ان استعمال شدہ مصنوعات کو آوارہ جانور گاؤں کی سڑکوں تک لے آتے تھے۔منڈل بتاتے ہیں ”اس طرح کی گفتگو سے مجھے احساس ہوا کہ محفوظ حیضی مصنوعات تک رسائی ایک مسئلہ تھی جبکہ ان کا اتلاف بھی ایک اور سنگین مسئلہ تھا۔ کافی غوروخوض کے بعد اس کا نام ”آنندی“رکھا گیا۔ یہ عام فہم ہے جسے بھارت کی آبادی کا بڑا حصہ آسانی سے سمجھ سکتا ہے ،برخلاف بہت سی دیگر برینڈ کے جن کے نام سے صارفین خود کو وابستہ نہیں کر پاتے۔انگریزی زبان بھی صارفین کے بڑے طبقے کی سمجھ میں نہیں آتی ‘‘

آکار ایک مخلوط سماجی کاروبار ہے جس میں آکار انوویشنس اور آکار سوشل وینچرس شامل ہیں۔آکار انوویشنس تلف ہونے والے سستے اوراعلیٰ معیار کے سینٹری نیپکن تیار کرنے اور ان کو تقسیم کرنے میں خواتین کاروباریوں کی مدد کرتا ہے۔اس کو بروئے کار لانے کے لیے آکار سوشل وینچرس حیضی صحت کے انصرام کے متعلق بیداری پیداکرتاہے۔اس کا مقصد خواتین کی حفظان صحت کی اہمیت کے تئیں طبقات کو بھی حساس بنانا ہے۔

آکارکے مشن کے بارے میں بتاتے ہوئے منڈل کہتے ہیں ’’ اس کا مشن ہے کہ وہ مقامی اور تجارتی سطح پر قابل عمل حل پیش کرے تاکہ پیداوار، تقسیم، بازارکاری اور فروخت کو ممکن بنایا جا سکے۔مزید برآں، خواتین اور لڑکیوں کو خود اپنے سماجی۔معاشی ترقی کا ضامن بنا یا جاسکے۔“

آکار ہر یونٹ پر مشین پہنچاتاہے۔پھر اس کے بعداس کی ٹیم پیداوار اور مشین کی دیکھ بھال کے متعلق تربیت بھی دیتی ہے۔ آکار نے  نئی دہلی کے امیریکن سینٹر میں واقع نیکسَس اسٹارٹ اپ ہب  کے دسویں اجلاس میں شرکت کی۔اس وقت یہ اپنا تجارتی نمونہ اور کمرشیل بازار میں اتارنے کی تیاری کر رہا تھا۔منڈل باخبر کرتے ہیں   ”ہم نئے جوش کی تلاش میں تھے……کچھ نیا سیکھنے اور جو سیکھا ہے اسے بھلانے کے عمل سے گزرنا چاہتے تھے۔پروگرام کی ساخت بہت اچھی تھی جس میں اسٹارٹ اپ زندگی کی بہت ساری جہات کا احاطہ کیا گیا تھا۔ نیکسَس کی ٹیم نے ہمیں حقیقی زندگی کے حالات سے واقف کرایا اور ہمارے موجودہ اور مستقبل کے منصوبوں کے متعلق واقعی میں کارآمد مشوروں سے نوازا۔ہم نے اس پروگرام سے بہت کچھ سیکھا۔‘‘

رنجیتا بسواس کولکاتا میں مقیم صحافی ہیں۔وہ  افسانوی ادب کا ترجمہ کرنے کے علاوہ مختصر کہانیاں بھی لکھتی ہیں۔



تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے