ایک فعال زندگی

آئی وی ایل پی یافتہ سابق طالب علم اور کارکن رودرانی چھیتری بھارت میں خواجہ سرا برادری کے لیے ایک محفوظ اور شمولیت سے مزین ماحول تیار کرنے میں قائدانہ کردار ادا کر رہی ہیں۔

مائیکل گیلنٹ

June 2023

ایک فعال زندگی

رودرانی چھیتری ایک خواجہ سرا سماجی کارکن، فنکارہ اور ماڈل ہیں۔ (تصویر بشکریہ رودرانی چھیتری)

جب رودرانی چھیتری کی پیدائش ہوئی تو انہیں لڑکا متعارف کیا گیا ۔ وہ وضاحت کرتے ہوئے کہتی ہیں ’’جو سمجھا گیا تھا وہ میں نہیں تھی۔ میں ایک خواجہ سرا خاتون ہوں۔‘‘ اس اعتراف نے چھیتری کی زندگی کے تقریباً ہر پہلو کی تشکیل کی اور انہیں ایک ایسے کریئر کی طرف راہ نمائی کی جو بھارت میں خواجہ سرا ہونے کے معنی کی تشریح کر رہا ہے۔

چھیتری نئی دہلی میں مقیم ایک مصور، کارکن اور ماڈل ہیں جو گذشتہ زائد از دو دہائیوں سے صنفِ خاص کے خلاف تعصب، تفریق اور صنفی تشدد کے خلاف صف آرا ہیں۔ انہوں نے ۲۰۱۵ ء میں بھارت کی پہلی خواجہ سرا ماڈلنگ ایجنسی ’بولڈ‘ کی بنیاد رکھ کر تاریخ رقم کی۔ انہوں نے ۲۰۱۹ء میں ایک اعزاز یافتہ ہندی فلم ’دی لاسٹ کلر‘ میں اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے۔ اس فلم کے ہدایت کار بھارتی نژاد امریکی شیف وکاس کھنہ تھے۔

دیرینہ ساتھی

چھیتری کی اصل مصروفیت ان کی اپنی غیر سرکاری تنظیم ’متر ٹرسٹ ‘ ہے جس کی بنیاد انہوں نے۲۰۰۵ء میں نئی دہلی میں ڈالی تھی۔ ۲۰۲۱ء سے چھیتری اور ان کے ساتھی نئی دہلی میں حکومت ہند کی وزارت برائے سماجی انصاف اور تفویضِ اختیارات سے امداد یافتہ ’گریما گرہ ‘ پناہ گاہ چلا رہے ہیں جہاں خواجہ سراؤں کے لیے قیام و طعام کا انتظام ہے اور ان کی طبی دیکھ بھال، تفریحی سہولیات اور تعلیمی ضروریات کا بھی خیال رکھا جاتا ہے۔ ’متر ٹرسٹ ‘ صنفِ خاص کے لیے آؤٹ ریچ اور وکالت کا بھی اہتمام کرتی ہے تاکہ سرکاری دفاتر اور دیگر اداروں کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کیا جا سکے نیز انہیں ایچ آئی وی جانچ اور مشاورت، بحران سے نمٹنے کے لیے ٹیمیں اور دیگر لازمی سہولیات بھی فراہم کر رہی ہے۔

اپنی زندگی کے شروعاتی دور میں چھیتری نے خود کو سمجھنے کے لیے جدوجہد کی۔ دوسروں کے مردانگی کے تصورات کے مطابق نہ ہونے کی وجہ سے انہیں خاص طور پر اپنے آل بوائز اسکول میں بہت کچھ جھیلنا پڑا۔ وہ کہتی ہیں ’’آغاز میں خود کو اس لیے کوسا کہ میں دوسرے لڑکوں کی طرح کیوں نہیں ہوں۔‘‘ لیکن وہ بہت جلد اپنے جیسے دوسرے لوگوں سے جڑ گئیں جنہیں صنفی شناخت، امتیازی سلوک اور عدمِ قبولیت کا سامنا تھا۔ اُس وقت کی سرکاری یا غیر سرکاری تنظیموں سے خاطر خواہ مدد نہ ملی تو چھیتری اور ان کے ساتھیوں نے مل کر’ متر ٹرسٹ‘ قائم کیا تاکہ اپنی اور اپنے جیسے دوسروں کی ہر ممکن مدد کی جا سکے۔ چھیتری فخر سے انکشاف کرتی ہیں ’’دہلی میں ہماری تنظیم صنفِ خاص کے لیے مخصوص اولین تنظیم ہے۔‘‘

آئی وی ایل پی تجربہ

۲۰۱۶ء میں چھیتری نے انٹرنیشنل وزیٹر لیڈرشپ پروگرام (آئی وی ایل پی) کے تحت امریکہ کا سفر کیا۔ آئی وی پی ایل امریکی وزارت خارجہ کا اعلیٰ پیشہ ورانہ تبادلہ پروگرام ہے۔ آئی وی پی ایل کے تحت مختلف النوع شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے منتخب شرکاء امریکہ کا ایک قلیل مدتی دورہ کرتے ہیں جہاں وہ اس ملک کے بارے میں آگہی حاصل کرتے ہیں، نیز اپنے امریکی ہم منصبوں سے زندگی بھر کا رشتہ بھی قائم کرتے ہیں۔ چھیتری آئی وی پی ایل میں شرکت کو اپنی زندگی کا سب سے بڑا تجربہ قرار دیتی ہیں۔

وہ کہتی ہیں ’’امریکہ کا سفر کرنا اور وہاں مختلف مقامات اور ثقافتوں کے بارے میں جاننا بہت شاندار تجربہ رہا۔ میں نے وہاں جا کر جو کچھ بھی سیکھا اس سے مجھے یہاں بھارت میں اپنی برادری میں کام کرنے میں اور خاص طور پر صنفی تشدد کے متاثرین کی مدد کرنے میں کافی مدد ملی۔‘‘

چھیتری افسوس ظاہر کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ بھارت میں نفسیاتی صحت کے متعلق عوامی گفتگو شاذ و نادر ہی ہوتی ہے۔ وہ بیان کرتی ہیں ’’امریکہ میں صنفِ خاص کی تنظیموں کا دورہ کر کے مجھے اندازہ ہوا کہ صنفی تشدد کے متاثرین کو صحت کے کن کن مسائل سے سابقہ پڑ سکتا ہے۔ اور آئی وی پی ایل کی بدولت ہی میں متاثرین کی ضروریات کا بہتر طور پر ادراک کر پا رہی ہوں اور یہ کہ کیسے ان کا حل تلاش کیا جا سکتا ہے۔‘‘

جب صنفِ خاص کی حفاظت، شمولیت اور مساوات کی بات آتی ہے تو چھیتری کا کہنا ہے کہ ان کی برادری کی کاوشیں اب ثمر آور ہو رہی ہیں۔ مثال کے طور پر حالیہ برسوں میں کئی بڑی کمپنیاں صنفِ خاص کے ساتھ تعاون کی خواہاں نظر آئی ہیں۔ مگر ابھی بھی بہت کچھ کیا جانا باقی ہے۔ وہ کہتی ہیں ’’کمپنیاں اور تنظیمیں اس امر سے اچھی طرح واقف ہیں کہ ان کو شمولیت والا ماحول درکار ہے مگر وہ ابھی تک صنفِ خاص سے تعلق رکھنے والے افراد کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ ہم سب ابھی تک سیکھ رہے ہیں۔‘‘

چھیتری کو قوی امید ہے کہ بہت جلد ہی صنفِ خاص برادری اور ان کی تنظیموں کو قبولیت حاصل ہو گی اور ان کو بھی دیگر ضرورت مند برادریوں کی طرح امداد و حمایت حاصل ہو گی۔ وہ کہتی ہیں ’’ہمیں ایسے لوگوں کو آگاہ کرنے کی ضرورت ہے جو یہ نہیں سمجھتے ہیں کہ کس طرح معاشرہ ہمیں دھتکارتا ہے، صنفِ خاص کے افراد کس طرح اپنے ہی گھر والوں کی طرف سے بے دخل کر دیے جاتے ہیں، اسکولوں اور طبی مراکز سے بھی نکالا جاتا ہے اور حتیٰ کہ ملازمتوں کے انٹرویوز سے بھی محروم کیا جاتا ہے۔‘‘

اگر ایسا ہو جائے تو بہت بڑا کام ہوگا۔ چھیتری کہتی ہیں ’’گو کہ آج بھی ہمیں بہت سارے مسائل سے نبرد آزما ہونا پڑ رہا ہے مگر ان سب کے باوجود جو کچھ ہم کر پا رہے ہیں وہ نہایت ہی خاص ہے۔ اگر ہمارے یہ چیلنجز دور ہو جائیں تو ہم بہت کچھ کمال کا کر سکتے ہیں اور نہ صرف اپنی برادری بلکہ پورے ملک کے لیے کچھ بہتر کر سکتے ہیں۔‘‘

مائیکل گیلنٹ نیو یارک سٹی میں مقیم مصنف، موسیقار اور کاروباری پیشہ ور ہیں۔



تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے