دیبورا تیاگ راجن کے ذریعے چنئی میں قائم کیا گیا دکشن چترعصری تاریخ کو منسوب ایک عجائب گھر ہے ۔ یہ جنوبی ہند کی مالامال ثقافتی وراثت کو تحفظ فراہم کرنے کے ساتھ اسے فروغ بھی دیتا ہے۔
January 2019
چند روایتی گھر اور سیاق و سباق پر مبنی نمائشیں۔ میراث کے تحفظ کے لیے عجائب گھر جنوبی ہند کے مختلف علاقوں سے گھروں کو خریدتا ہے، ان کو اپنی جگہ سے ہٹاکر اس کو چنئی میں واقع عجائب گھر کے احاطے میں از سر نو قائم کرتا ہے۔ (تصاویر بشکریہ دیبورا تیاگ راجن(گھڑی کی سوئی کی گردش کی سمت کے اعتبار سے اوپر بائیں سے)،از راجیو راج گوپالن/ بشکریہ فلکر، از پوچی وینکٹ، از ریکھا وجے شنکر)
دیبوراتیاگ راجن نیو یارک، ٹورنٹو اور فلا ڈیلفیا میں پلی بڑھیں لیکن شادی کے بعد جب و ہ تمل ناڈو منتقل ہوئیں تو وہیں کی ہو کر رہ گئیں۔ وہ چنئی سے ۲۵ کلو میٹر جنوب میں واقع مُٹّو کاڈو میں چار ہیکٹر رقبے میں پھیلے کیمپس میں قائم مختلف ثقافتوں والے جیتے جاگتے عجائب گھر دکشن چتر کی بانی ہیں۔ اس دلچسپ عجائب گھر میں جنوبی ہند کے فنون لطیفہ، فن تعمیر، طرز زندگی، دست کاری اور پرفارمنگ آرٹ کو پیش کیا گیا ہے جہاں کی مستقل نمائشیں اور مختلف قسم کے عوامی پروگرام سال بھر سیاحوں اور اِنٹَرنس کی توجہ اپنی جانب مبذول کرتے رہتے ہیں۔
روایتی مکانات کا تحفظ دکشن چتر کی سرگرمیوں کا ایک اہم حصہ ہے۔ آج ایسے مکانات کو فروخت کرنے کا چلن سا ہوگیا ہے تاکہ جدید عمارتیں تعمیر کی جا سکیں ۔ یہ صورت حال یہیں کے لیے مخصوص نہیں ہے بلکہ ملک گیر پیمانے پر روایتی مکانات کے ساتھ یہی روش اختیار کی جارہی ہے۔ اس چیز کا نقصاندہ پہلو یہ ہے کہ اس عمل میں مکانات کے تاریخی سرمائے کا ایک حصہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جاتا ہے۔
اپنی خاص طرز اور عمارت کی اپنی خصوصیات کے ساتھ روایتی مکانات کو محفوظ رکھنے کی کوشش کے تحت دکشن چتر انہیں جنوبی ہند کے مختلف علاقوں سے خریدتا ہے اور انہیں منہدم کرکے اپنے کیمپس میں منتقل کر لیتا ہے۔ دکشن چتر ہیریٹیج میوزیم میں آنے والے سیاح اس طرح کے ۱۸ روایتی مکانات اور سیاحتی نمائشوں کو دیکھ سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ سیاح گاؤں کے دستکاروں سے بات چیت کر سکتے ہیں اور روایتی رقص و سرود سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں ۔ پیش ہیں دکشن چتر کی بانی تیاگ راجن سے لیے گئے انٹرویو کے اقتباسات۔
آپ نے دکشن چتر کو شروع کرنے کا فیصلہ کیوں کر کیا؟
میں نے امریکہ میں بشریات اور فنون لطیفہ کی تاریخ دونوں کا ہی مطالعہ کیا ہے۔ میں نے یونیورسٹی آف مدراس سے قدیم بھارتی ثقافت اور تاریخ میں پی ایچ ڈی کی ہے۔ میں نے ہمیشہ سے ہی فنون لطیفہ، ثقافت، زبان اور لوگوں کے طرز زندگی میں دلچسپی لی ہے۔
میں نے ۱۹۷۲ءسے ۱۹۷۵ءکے درمیان پورے تمل ناڈو کے گاﺅں میں تین برسوں تک کام کیا ہے۔ میں نے اس درمیان کئی چیزیں سیکھیں ۔ دستکاری اور دیگر فنون کا بھی مشاہدہ کیا ۔ یہ بھی دیکھا کہ کس طرح دستکاروں اور فنکاروں کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے ۔ میں نے عالمی بینک کے تمل ناڈو نیو ٹریشن پروجیکٹ اور پھر عالمی انسانی تنظیم کیئرمیں بھی ملازمت کی ہے۔
مکانات کے عصری تاریخی سرمائے کو اور عوامی فنون لطیفہ اور روایتوں کو تحفظ فراہم کرنا کتنا اہم ہے؟
ہمارے حال کا تعلق ماضی سے ہونے کے ساتھ مستقبل سے بھی ہے۔ تیز رفتار سے تبدیل ہوتی اس دنیا میں خود کو محفوظ رکھنے کے لیے اور اپنے آپ میں پُر اعتماد بننے کے لیے ہمیں اپنی جڑوں کو ضرور جاننا چاہئے اور اپنی شناخت سے واقف ہونا چاہئے۔
ابتدائی طور پر آپ کو اپنے اس دیرینہ منصوبے کو شروع کرنے میں بہت ساری مشکلات کا سامنا کرنا پڑا؟ کیا آپ کو لگتا ہے کہ آپ کو آپ کے یقین اور صبر کا انعام مل گیا؟
صبر و تحمل، استقامت اورعوام الناس کے لیے جہاں تک ممکن ہو کام کرنے کے عمل نے یقینی طور پر مجھے فائدہ پہنچایا ہے۔ میںنے اور میری ایک ملازمہ دیویکا اور بہت سارے رضاکاروں نے اسکولوں میں پروگرام منعقد کیے اور پھر ہم لوگوں نے ۱۹۸۱ ءسے ۱۹۹۱ءکے درمیان تحقیقی عمل بھی انجام دیے۔
تب ہم اپنے منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے زمین حاصل کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔
دکشن چتر کو دیگر ریاستوں میں شروع کرنے کے لیے ہمیں کئی جگہ سے درخواستیں ملیں۔ میں نے ان سے کہا کہ اسے شروع کرنے کے عمل سے متعلق میں تمام معلومات اور مہارت کا اشتراک کر سکتی ہوں او ر مدد فراہم کر سکتی ہوں لیکن خود میں اس کا م کو انجام نہیں دے سکتی۔ ان علاقوں کے محققین اور ماہرین کوہی اس کی ذمہ داری سنبھالنی چاہئے۔
آپ کے خیال میں وہ بہترین طریقہ کیا ہے جس سے بچوں کو اپنی جڑوں سے با خبر رکھا جائے؟
اس کا بہترین طریقہ وہ ہوگا جو ۱۹۷۰ ءاور ۱۹۸۰ءکی دہائی کے درمیان غالب تھا۔ اور یہ طریقہ ہر چھٹیوں کو دادا دادی اور نانا نانی کے دیہی گھروں میں گزارنے کا تھا۔ لیکن اب یہ تبدیل ہو چکا ہے۔ حال آں کہ گاﺅں کا دورہ کرنا اور لوگوں کے بارے میں اور ان کے کام کے بارے میں وہیں موقع پر سیکھنا بچوں کو کافی گہرا تجربہ فراہم کرے گا۔
ہم لوگ جو کر سکتے ہیں اسے کرتے ہیں اوریہ امید کرتے ہیں کہ اس سے وہ سیکھتے ہیں۔ وہ ہمیشہ ہی اس سے لطف اندوز ہوتے ہیں، لہٰذا میں امید کرتی ہوں کہ ہم لوگوں نے دلچسپی کے بیج بو دیے ہیں۔ ہم لوگوں نے چھوٹی چھوٹی جماعتوں کے لیے بہت اچھے پروگرام تیار کیے ہیں اورمختلف تعمیراتی ورک شاپ کا بھی اہتمام کیا ہے ۔
ثقافت ماحول کی عکاس ہوتی ہے۔ اگر ہم اپنے ماحول کی زیادہ پروا کرتے ہیں تو یہ چیز یقینی طور پر ہمیں زمانہ حال اور زمانہ مستقبل میں اپنی ثقافت کے ناگزیر حصے کے طور پر نظر آئے گی۔
رنجیتا بسواس کولکاتہ میں مقیم ایک صحافی ہیں۔ وہ افسانوں کا ترجمہ کرنے کے علاوہ مختصر کہانیاں بھی لکھتی ہیں۔
تبصرہ