اس مضمون میں خلائی مشنوں میں قرنطینہ کی روایت نیز یہ بھی جانیں کہ کیسے اپولو الیون کے خلابازوں نے زمین پر اترنے کے بعد ۱۴ دنوں کی قرنطینہ کی مدت ایلومینیم ٹریول ٹریلر میں گزاری۔
August 2024
نیل آرمسٹرانگ (بائیں سے)، بز ایلڈرن اور مائیکل کولنز اپولو الیون کے چاند پر انسان بردار مشن سے قبل پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے۔ (ناسا/اپولو الیون پریس کانفرنس/بشکریہ فلکر)
۵ جولائی ۱۹۶۹ کو چاند کے سفر پر جانے سے پہلے امریکی خلابازوں نیل آرمسٹرانگ، ایڈون ’’بز‘‘ ایلڈرن اور مائیکل کولنز کو پریس کانفرنس کے لیے ایک باکس جیسے ڈھانچے میں بیٹھنا پڑا تھا جو انہیں پریس کے افراد سے الگ کر رہا تھا۔ یہ ڈھانچہ خلا بازوں کو ان کے سفر سے قبل کی مدت کے دوران متعدی بیماریوں سے محفوظ رکھنے کے لیے اختیار کیے جانے والے منصوبے کا حصہ تھا۔
اس وقت کے سائنسداں جو چاند پر پہلا انسان بردار مشن بھیجنے کی تیاری کر رہے تھے، ابھی تک اس بات سے لاعلم تھے کہ آیا چاند کی سطح پر زندگی موجود ہے یا نہیں۔ وہ کوئی خطرہ بھی مول نہیں لینا چاہتے تھے، خاص طور پر جب پچھلے اپولو مشنوں کے عملے نے سانس اور جلد کے انفیکشن جیسی معمولی بیماریوں کی اطلاع دی تھی جس کی ممکنہ وجوہات میں سے ایک رابطے میں آنا ہو سکتی ہے۔ اس طرح لونر کوارنٹائن پروجیکٹ کا آغاز ہوا جو تین خلابازوں، عملے اور سائنسدانوں کا ایک طویل اور سخت قرنطینہ تھا جو چاند کے نمونوں کے رابطے میں آئے تھے۔ یہ قرنطینہ اتنا سخت تھا کہ صدر رچرڈ نکسن سے بھی ان (خلابازوں) کی میزبانی کرنے سے معذرت ظاہر کی گئی تھی۔
کوارنٹائن پروجیکٹ
لونر کوارنٹائن پروجیکٹ میں وسیع طریقہ کار، ساز و سامان اور سہولیات شامل تھیں تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ اپولو کے خلابازوں، عملے اور سائنسدانوں کو زہریلے کیمیا اور نامعلوم حیاتیاتی اجسام کے رابطے سے محفوظ رکھا جائے بھلے ہی اس کا امکان بہت ہی کم کیوں نہ ہو۔
سب سے اہم چاند سے حاصل کیے جانے والے نمونوں کو درست طریقے سے رکھنے کے لیے درکار ضروری سامان اور وسائل کی فراہمی تھا۔ مینڈ اسپیس کرافٹ سینٹر جسے اب ٹیکساس کے ہیوسٹن میں واقع جانسن اسپیس سینٹر کے نام سے جانا جاتا ہے، کا لونر رسیونگ لیبارٹری چاند سے حاصل شدہ نمونوں کو رکھنے کا ایک وقف مرکز بن گیا تھا۔ اس لیبارٹری میں عملے کے استقبال، نمونوں پر کام کرنے اور انتظامیہ اور سپورٹ کے لیے مختص جگہیں تھیں۔ عملے کے استقبالیہ علاقے میں قرنطینہ کی مدت کے دوران اپولو الیون کے خلابازوں، ان کے معاون عملے اور اصل اپولو کمانڈ ماڈیول کو رکھا جاتا تھا۔
اپولو کے خلاباز ۲۴ جولائی ۱۹۶۹ کو بحر الکاہل میں داخل ہوئے اور فوری طور پر قرنطینہ میں چلے گئے۔ انہیں ان کشتیوں اور تیرنے والے آلات کی مدد سے بازیاب کیا گیا تھا جنہیں جراثیم سے پاک کرنے کے لیے سمندر کے اندر رکھا گیا تھا۔ عملے کو ایک ہیلی کاپٹر کے ذریعے وہاں سے نکالا گیا تھا۔ قرنطینہ کی کامیابی کے لیے ضروری تھا کہ خلا بازوں کو بحرالکاہل میں کمانڈ ماڈیول سے بازیاب ہونے سے لے کر ہیوسٹن کی لونر رسیونگ لیبارٹری پہنچنے تک الگ تھلگ رکھا جائے۔ اس طرح ایک موبائل کوارنٹائن فیسلٹی تیار کی گئی تھی۔
اپولو الیون کے عملے نے موبائل قرنطینہ سہولت میں صدر رچرڈ نکسن (دائیں) کے ساتھ انٹرکام کے ذریعے بات چیت کی۔ (تصویر بشکریہ ناسا)
عملے کے ارکان ہیلی کاپٹر کے ذریعہ یو ایس ایس ہارنیٹ سے قرنطینہ مرکز پر اترے۔ یہ قرنطینہ مرکز بنیادی طور پر ایک ایلومینیم ٹریول ٹریلر تھا جسے آئسولیشن یونٹ کے طور پر کام کرنے کے لیے تبدیل کیا گیا تھا۔ اس ڈھانچے میں کہیں سے ہوا نہیں آسکتی تھی اور اسے اس طرح تیار کیا گیا تھا کہ آسانی سے یہ سڑک پر نقل و حمل کر سکے۔ اس ڈھانچے کے ماحولیاتی کنٹرول سسٹم کو طاقت دینے کے لیے ڈیزل جنریٹر اور بیٹری سے لیس کیا گیا تھا۔ اسے ۲۷ جولائی کو ہیوسٹن کے لیے روانہ کیا گیا تھا اور لونر رسیونگ لیبارٹری کے عملے کے استقبالیہ علاقے میں رکھا گیا تھا۔
قرنطینہ مرکز کے باورچی خانے میں ٹریلر کے اندر اور باہر اشیا کو منتقل کرنے کے لیے آلودگی سے پاک ایئر لاک نصب تھا۔ کمانڈ ماڈیول سے چاند کے نمونے والے کنٹینروں، فلم اور دیگر اشیا کو ہیوسٹن پہنچانے کے لیے سہولت فراہم کی گئی تھی۔ قرنطینہ کے منصوبے میں اپولو الیون کے خلابازوں کے ذریعے لائے گئے تقریباً ۲۱ اعشاریہ ۵۵ کلو گرام چاند سے حاصل شدہ نمونوں کو مکمل طور پر الگ تھلگ رکھنے کی ضرورت تھی تاکہ انہیں چاند سے لائی گئی اشیا نیز زمینی حیاتیات اور مواد سے ہونے والی آلودگی کے خطرے سے بچایا جا سکے۔
اپولو الیون مشن ۱۶ سے ۲۴ جولائی ۱۹۶۹ تک آٹھ دن تک جاری رہا۔ خلابازوں کو ۱۰ اگست کو ان کے قرنطینہ سےآزادی ملی تھی۔ یہاں تک کہ آرمسٹرانگ نے پانچ اگست کو قرنطینہ میں رہتے ہوئے ہی اپنی سالگرہ منائی تھی۔
سیاروں کا تحفظ
لونر کوارنٹائن پروگرام کا آغاز اپولو الیون مشن کے ساتھ ہوا تھا۔ اس کے بعد کے لونر مشنوں میں نہ صرف لینڈنگ کے بعد بلکہ ایک پری لانچ قرنطینہ بھی شامل تھا جو ہیلتھ اسٹیبلائزیشن پروگرام کہلاتا تھا۔ اس طرح کا پہلا پروگرام اپولو فورٹین مشن کے ساتھ شروع کیا گیا تھا۔
معاصر ہیلتھ اسٹیبلائزیشن پروگرام کے تحت عملے کے ارکان اور قریبی رابطے میں رہنے والوں کو قرنطینہ سے گزرنا پڑتا ہے اور لانچ سے قبل ٹیکے لینے پڑتے ہیں تاکہ جراثیم سے متاثر ہونے سے بچا جا سکے۔ یہ تمام خلائی پرواز مشنوں کے لیے لازمی ہے۔ مثال کے طور پر انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن (آئی ایس ایس) کے عملے کو ۱۴ دن کے پری فلائٹ پروگرام سے گزرنا پڑتا ہے جس میں قرنطینہ اور حفاظتی ٹیکے اور دیگر افراد کے ساتھ محدود رابطے شامل ہیں۔
چونکہ مریخ پر زندگی کی تلاش ایک اہم مقصد ہے لہٰذا ناسا کی سیاروں کے تحفظ سے متعلق پالیسیاں نظام شمسی کی ذمہ دارانہ دریافت کو فروغ دینے اور زمین اور دیگر خلائی وسائل کو بیکٹریا یا دیگر جراثیم کی آلودگی سے محفوظ رکھنے کے لیے تیار کی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ ۱۹۵۸ میں قائم کی جانے والی بین الاقوامی تنظیم ’کمیٹی برائے خلائی تحقیق‘ فضائے بسیط میں انسانی مشن اور سائنسی تحقیق کے دیگر شعبوں سے متعلق طریقہ کار کے بارے میں رہنمائی فراہم کرتی ہے۔ کمیٹی کے اصول اور ہدایات مریخ پر ابتدائی انسانی مشنوں کے لیے ایک محتاط رویے کی حمایت کرتے ہیں، ’’جو کہ مریخی ماحول اور ممکنہ زندگی کے بارے میں معلومات کی کمی کے ساتھ ساتھ ہی وہاں کے ماحول میں انسانی امدادی نظام کی کارکردگی کے ساتھ مطابقت‘‘ کی توثیق کرتے ہیں۔ اپولو الیون مشن کے محتاط طریقہ کار اور تجربات نے مستقبل کے انسانی مشنوں کے لیے رہنما خطوط کی بنیاد رکھنے کا کام کیا ہے۔
صدر رچرڈ نکسن نے بالآخر ۲۴ جولائی ۱۹۶۹ کو وسطی بحرالکاہل کے علاقے میں اپولو الیون کے خلابازوں کا یو ایس ایس ہارنیٹ پر خیرمقدم کیا۔ اپولو فورٹین کے بعد لونر کوارنٹائن پروجیکٹ کو بند کر دیا گیا تھا کیونکہ سائنسدانوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ کسی بھی جانچ میں چاند کے نمونوں میں حیاتیاتی سرگرمی کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ اس کے علاوہ انہوں نے چاند کی اشیا کو انسانی زندگی یا زمین پر دیگر زندگیوں کے لیے نقصان دہ بھی نہیں پایا تھا لہٰذا اپولو ففٹین، سکسٹین اور سیونٹین کے عملے کو اس تجربے سے گزرنا نہیں پڑا تھا۔
اسپَین نیوزلیٹر کو اپنے میل پر مفت منگوانے کے لیے لنک میں دیے گئے فارم کو بھریں: https://bit.ly/SubscribeSPAN
تبصرہ