کیمرے کو سرگرمی کا آلہ بنانا

امریکی فوٹوگرافر اور معذوری کارکن نولان ریان ٹرو اس مضمون میں اپنے کام اور حیدرآباد کے حالیہ دورے کے بارے میں گفتگو  کر رہے ہیں۔

  ظہور حسین بٹ 

January 2024

کیمرے کو سرگرمی کا آلہ بنانا

فوٹو گرافر اور فنکار نولان ریان ٹرو معذور افراد کو بااختیار بنانے کے لیے دستاویزی فلم اور تصویر کشی کے استعمال کے بارے میں ماسٹر کلاس لیتے ہوئے۔(تصویر بشکریہ@یوایس اےحیدرآباد/ٹویئٹر)

نولان ریان ٹرو نے اپنے کنبے  اور دوستوں کی تصویریں کھینچ کر تصویر کشی کی شروعات کی۔ انہوں نے ۲۰۱۶ء میں ریڑھ کی ہڈی کی چوٹ کی وجہ سے چلنے سے معذور ہوجانے کے بعد کیمرے کو اپنا آلہ کار بنایا تاکہ معذوری کے بارے میں بیانیہ کو نئے سرے سے متعارف کروا سکیں۔

ٹرو  ایوارڈ یافتہ فوٹوگرافر اور  بے اختیاری کے شعبے میں سرگرم کارکن ہیں ۔ ان کی تخلیقات متعدد بین الاقوامی میڈیا پلیٹ فارموں پر شائع ہوئی ہیں ۔ انہوں نےلانگ بیچ میں واقع  کیلیفورنیا اسٹیٹ یونیورسٹی سے تخلیقی تحریر میں بیچلر کی ڈگری  اور نیو یارک یونیورسٹی سے تجرباتی انسانی علوم  اور سماجی مصروفیت میں ماسٹر کی ڈگری  حاصل کی ہے ۔ ٹرو نے دسمبر ۲۰۲۳ء میں حیدرآباد کا دورہ کیا، جہاں انہوں   نے اپنی تخلیقات  کی نمائش کی، کلیدی خطاب کیا   اور انڈین فوٹو فیسٹیول ۲۰۲۳ اور مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں درس و تدریس کی ۔ امریکی محکمہ خارجہ کی ایما پر کیے گئے ان کے دورے میں امیریکن کارنر ریجنل ورچوئل انگیجمنٹ میں شرکت بھی شامل تھی جہاں انہوں نے معذوری سے متعلق معاملات پر توجہ مرکوز رکھی۔پیش ہیں اسپَین کے ساتھ ان کے انٹرویو کے بعض اقتباسات۔

آپ کو معذور افراد  کی وکالت کرنے کی تحریک کہاں سے ملی؟ آپ نے تصویر کشی کو اپنے تخلیقی اظہار کا ذریعہ کیوں بنایا؟

مجھے اس کی تحریک اپنی بے اختیار ی سے ملی ۔ میری زندگی، میرے دوست اور میری کمیونٹی سبھی معذوری کے حقوق سے متاثر ہیں۔ بہت سارے افراد جن سے میں پیار کرتا ہوں وہ معذور ہیں۔ یہ ایسی چیز نہیں ہے جس کے بارے میں مجھے کچھ انتخاب کرنے کی ضرورت پڑتی۔ کیمرہ میرا آلہ بن گیا کیونکہ یہ لوگوں کو یہ دکھانے کا ایک طریقہ ہے کہ کیا ہو رہا ہے، زندگی کیسی ہے اور زندگی میں کیا چل رہا ہے۔ اس طرح کی بصری دنیا اور معاشرے میں رہنے کا مطلب یہ ہے کہ تصویریں انسانوں کو بڑے پیمانے پر متاثر کرتی ہیں۔ میرے خیال میں تصویر کشی اظہار  رائے کی سب سے قابل رسااور جمہوری شکلوں میں سے ایک ہے۔

ہم معذوری کے بارے میں بیانیہ کو کیسے بہتر بنا سکتے ہیں اور اس سے کمیونٹی کس طور پر فیضیاب ہوگی؟

میرے خیال میں معذور افراد کی حقیقی زندگیوں  کو دکھا کر اسے بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ معذوری  سے متعلق یہ بیانیہ یا تو متاثر کن ہوتا ہے  یا المناک۔ معذور افراد کو محض افراد   کے طور پر پیش کیا جاتا ہو، ایسا شاید ہی دیکھنے کو ملتا ہے ۔ اکثر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کی معذوری ہی پوری کہانی یا کہانی کا بنیادی مرکز توجہ ہوتی  ہے۔ لہذا ان کی انسانیت پر زیادہ توجہ  مرکوز کرنا ضروری ہوگا۔

معذور کمیونٹی کے بارے میں کہانیاں  ساجھا کرنے والے زیادہ  معذورقصہ گو افراد کا ہونا بھی  اس سلسلے میں مددگار ثابت ہو گا   ۔ معذور  افراد کے ذریعہ  معذوری کا  ’’اندرونی‘‘  نقطہ نظر بتانا ان سے متعلق کہانیوں اور لوگوں کی نمائندگی کے طریقے میں ایک مختلف طرح کی کیفیت پیدا کرتا ہے۔

  کیا آپ ہمیں حیدرآباد میں اپنی مصروفیات اور تجربے کے بارے میں بتا سکتے ہیں؟

یہاں زیادہ تر ان  طلبہ اور سامعین کے لیے  پروگرام ہوئے جن کا فوٹو گرافی، میڈیا یا فلم سے کوئی تعلق تھا۔ میں وہاں فوٹو گرافی میں ماسٹر کلاس پڑھانے گیا تھا اور فوٹو گرافی کی قصہ گوئی  کے پہلوؤں اور تصویری مضامین بنانے کے خیال پر توجہ مرکوز کی۔ اس طبقے کی توجہ حقوق  انسانی پر مرکوز تھی۔ لیکن میں اس موضوع پر دوسرے فوٹوگرافروں کے مقابلے میں  زیادہ تصوراتی نقطہ نظر اختیار کرتا ہوں ۔  میں تصویر یا کہانی کے پس پشت  کی وجوہات پر زیادہ توجہ مرکوز کرتا ہوں۔ مجھے امید ہے کہ طلبہ اور سامعین  کلاس سے اس بارے میں زیادہ  تنقیدی انداز میں سوچتے ہوئے نکلیں گے   کہ وہ اپنے کیمروں کو  کچھ چیزوں  پر کیوں مرکوز کرتے ہیں اور دوسروں پر نہیں۔

حیدرآباد   دورے کا تجربہ مصروفیت بھرا لیکن اطمینان بخش  تھا۔ بہترین تبادلہ خیال ہوا   اور ملاقاتیں ہوئیں۔ مجھے ایسا  محسوس ہوا کہ اگرچہ میں  شہر میں بہت کچھ   نہیں دیکھا، لیکن  پھر  بھی مجھے  شہر میں بہت سارے  لوگوں سے ملنے کا موقع ملا ۔

برائے مہربانی  ہمیں اپنے بین الاقوامی  شہرت یافتہ فوٹوگرافی پروجیکٹوں  کے بارے میں بتائیں۔

میرے بہت سے تصویری مضامین نیویارک ٹائمس میں ابتدائی طور پر شائع ہوئے تھے۔ جس نے سب سے زیادہ توجہ حاصل کی وہ  ادارتی صفحہ پر شائع میرا مضمون ہے جس کا عنوان ہے ’’ وہیل چیئر کے انکشافات۔‘‘یہ نیویارک  سٹی  میں ان لوگوں کی تصویر کشی کے بارے میں تھا جنہوں نے مجھے گھور کر دیکھا جب میں اپنی وہیل چیئر استعمال کر رہا تھا۔ یہ سب وے سسٹم کے  ناقابل رسائی ہونے کے بارے میں بھی تھا۔ میں لوگوں کو یہ احساس دلانا چاہتا تھا کہ ایسے معاشرے میں  وہیل چیئر استعمال کرنے والا ہونے پر   کیسا محسوس ہوتا ہے جو وہیل چیئر کےلیے  نہیں بنا  ہے۔ میں لوگوں کو یہ دکھانا چاہتا تھا کہ ایک معذور شخص ہونے کی وجہ سے گھور کر دیکھا جانا   کیسا  لگتا  ہے۔

  کیا آپ کے پاس آئندہ ہندوستان   سے متعلق کوئی پروجیکٹ ہے؟

میں نے ان چند سماجی کارکنوں سے ملاقات کی جو حقیقتاً حیدرآباد میں کمیونٹی کے لیے شراکت داری میں  کچھ  میڈیا ورکشاپس منعقد کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ لوگوں کے ہاتھ میں کیمرے  دے دیا جائے  اور انہیں  یہ سکھایا جائے کہ سماجی انصاف اور حقوق انسانی  کی ایک شکل کے طور پر  اپنی کہانیاں کیسے سنائیں۔ اس قسم کی ورکشاپس  کو چلانا اور ان کو آزادانہ طور پر سہولت فراہم کرنے کےلیے   حیدرآباد میں لوگوں کو تربیت دینا   تاکہ وہ اپنی اپنی برادریوں میں معلّم  بن سکیں ایک بنیادی اہمیت کی حامل چیز ہوگا۔ جن لوگوں سے میری ملاقات ہوئی وہ اس خیال کے بارے میں بہت متجسس اور پرجوش نظر آئے۔


اسپَین نیوزلیٹر کو میل پر مفت منگوانے کے لیے لنک میں دیے گئے فارم کو بھریں: https://bit.ly/SubscribeSPAN



تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے