ہم جنس پرست حامی دنیا کی وکالت

فلبرائٹ۔نہرو فیلو شیو دت شرما صنف اور جنسیت پر ہونے والی گفتگو سے وابستہ شرم کو دور کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں ،نیز ہندوستان میں ہم جنس پرستوں کے حقوق کی وکالت میں پیش پیش ہیں۔

ظہور حسین بٹ

June 2024

ہم جنس  پرست حامی دنیا کی وکالت

فلبرائٹ۔نہرو فیلو شو دت شرما سردست ایموری یونیورسٹی سے خواتین، صنف اور جنسیاتی مطالعات میں پی ایچ ڈی کررہے ہیں۔ (تصویر بشکریہ شو دت شرما)

بشری علوم میں شوق اور تنقیدی نقطہ نظر کے باعث شیو دت شرما نے کروکشیتر میں واقع  نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (این آئی ٹی)  سے انجینئرنگ کی تعلیم کے دوران ہی صنفی اور جنسی مسائل میں دلچسپی لینی شروع کی تھی۔ وہ بتاتے ہیں ’’کالج میں جہاں ایک جانب میں نے جنسی تعصب اور ہم جنس پرستوں سے نفرت کا رویہ دیکھا اور اس کا تجربہ کیا جس سے مجھے کافی تشویش ہوئی تو وہیں دوسری جانب مجھے یہ جان کر بہت افسوس ہوا کہ معاشرتی۔ثقافتی اور سیاسی دنیا میں اس موضوع کے متعلق ناقدانہ گفتگو کے تئیں عمومی عدم دلچسپی، بلکہ ایک حد تک نا واقفیت پائی جاتی ہے۔‘‘

شرما نے دہلی یونیورسٹی اور دیگرکیمپس کے افراد سے آن لائن ملاقاتیں کرنا، نیز ہم جنس پرست نسوانی وکالت کے پروگراموں میں شرکت اور ان کا انعقاد کرنا شروع کر دیا۔ ۲۰۱۵ء میں شرما کی کوششوں کے نتیجہ میں معروف اشوکا یونیورسٹی میں مرکز ِ مطالعات برائے صنف و جنسیات قائم ہوا جہاں ان کی قیادت میں صنف اور جنسیت پر متعدد ورکشاپ منعقد ہوئیں۔ ۲۰۱۸ءمیں شرما کو فلبرائٹ۔نہرو ماسٹرس فیلوشپ سے نوازا گیا جس کی بدولت انہوں نے نیو یارک سٹی میں واقع دی نیو اسکول فار سوشل ریسرچ سے تاریخی مطالعات/صنفی اور مطالعات جنسیات میں ڈگری مکمل کی۔ ۲۰۲۱ءمیں شرما واپس امریکہ گئے اور ایموری یونیورسٹی میں خواتین، صنف اور مطالعات جنسیات میں پی ایچ ڈی میں داخلہ لیا۔

پیش خدمت ہیں ان سے لیے گئے ایک انٹرویو سے چند اہم اقتباسات:

ہمیں ہم جنس پرستانہ سیاست ، خاص کر دہلی میں واقع تنظیم کویئر کیمپس سے وابستہ اپنے تجربات اور کامیابی کے متعلق بتائیں۔

میں جس وقت اس تنظیم کا فعال رکن تھا اس وقت کوئیر کیمپس میں آن لائن اور بالمشافہ دونوں قسم کی گفتگو کرنے کی سہولت دستیاب تھی۔ ان مباحثوں میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے مختلف عمر کے افراد آپس میں ایک ساتھ صنف اور جنسیت کے مسائل پر ذاتی اور سیاسی دونوں ہی نقطہ نظر سے کھل کر گفتگو کرتے تھے۔ ہم نے جنسی تعلیم، ہم جنس پرستی، صنف اور جنسی تشخص جیسے موضوعات پر ملاقاتوں، ورکشاپس اور پروگراموں کا اہتمام کیا۔ اکثر ایسے افراد ،جو کہ اپنی صنف یا جنسیت کو لے کر مسائل سے دو چار تھے ، کے لیے تو یہ غور کرنے اور حمایت حاصل کرنے کا بہترین پلیٹ فارم تھا۔

ہندوستان میں ۲۰۲۰ءمیں ہم جنس پرستانہ نسوانی ورکشاپ سہولت کاروں کے لیے ملکی پیمانے پر جو تربیتی پروگرام آپ نے چلایا اس کے بارے میں کچھ بتائیں۔ اس پروگرام کے دوران آپ نے کن خاص موضوعات پر کام کیا؟

ینگ انڈیا فیلوشپ کے دوران میں نے دو دیگر فیلوز اور پروفیسر مادھوی مینن کے ساتھ مل کر اشوکا یونیورسٹی کے  مرکز ِ مطالعات برائے صنف و جنسیات کا نقشہ تیار کیا تھا۔ ہمارا ایک خاص مقصد صنف اور جنسیت کے متعلق اختراعی خیالات کا زیادہ سے زیادہ افراد کے ساتھ اشتراک کرنا تھا۔ اس منصوبے  کے تحت میں نے ورکشاپ سہولت کاروں کے واسطے ۲۰۲۰ءمیں ملکی پیمانہ پر ایک تربیتی پروگرام کا اہتمام کیا۔

اس کا مقصد ہم جنسی پرستی، صنف، جنسیت، جنسی ہراسانی اور رضامندی، تشخص، خواہش، ذاتی تجربات، تاریخ، ثقافت اور معاشرتی عدم مساوات کے ذاتی تجربات کو لے کر واہمات پر ملک کے مختلف گوشوں میں پُر مغز مباحث  منعقد کرنا تھا۔ اس کا ہدف پورے ہندوستان میں ورکشاپ سہولت کاروں کا ایک وسیع نیٹ ورک تیار کرنا تھا  تاکہ اس طرح کی گفتگو کو مزید بہتر اور پُر لطف بنایاجاسکے  اور جہاں تعصب اور شرمندگی کا احساس بھی نہ ہو۔

آپ کو ایموری یونیورسٹی سے خواتین، صنف اور مطالعات جنسیات میں پی ایچ ڈی کرنے کی ترغیب کہاں سے ملی؟

اشوکا یونیورسٹی میں اپنے قیام کے دوران ہی میں نے اس موضوع پر پی ایچ ڈی کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ سی ایس جی ایس میں کام کرنے دوران میں نے ہم جنس پرستی  اور نسائی نظریہ ،نیز ادبی نظریہ کی کلاسوں میں شرکت جاری رکھی اور یہ تجربہ آنکھیں کھول والا ثابت ہوا۔ اسی بنا پر مجھے صنف اور جنسیت/ بشری علوم میں گہری دلچسپی پیدا ہوئی۔ مجھے احساس ہوا کہ نظریات میں ہماری سوچ و فکر کو مثبت طور پر تبدیل کرنے کی بے پناہ صلاحیت موجود ہے۔ نیو اسکول سے ماسٹرس کی تعلیم حاصل کرتے وقت مجھے بہت اچھے تجربات حاصل ہوئے۔ انہیں سے حوصلہ پا کر میں نے امریکہ میں پی ایچ ڈی کے لیے درخواست دینے کا فیصلہ کیا۔

کیا آپ ایموری یونیورسٹی میں اپنی تحقیقی کام  کے بارے میں  بتا سکتے ہیں۔ ہمیں یہ بھی بتائیں کہ اس دوران آپ نے کیا خاص سیکھا؟

میں ابھی بھی اپنے پی ایچ ڈی مقالے کے خدوخال تیار کر رہا ہوں۔ مگر ہاں موٹے طور پر کہوں تو میں جنسیت کو لے کر ہندوستانی سنیما اور ہندوستانی سیاست کے آپس کے تعلق کا نفسیاتی تجزیہ کے نظریاتی مفروضات کی مدد سے تجزیہ کر رہا ہوں۔ یہ کافی زیادہ بین مضامینی منصوبہ ہے۔ میں اس میں مابعد نو آبادیات مطالعات، ہم جنس پرستی اور نسوانی نظریات ،نیز فلم اور میڈیا مطالعات جیسے متنوع موضوعات کے امتزاج سے یہ سمجھنے کی کوشش کررہا ہوں کہ جنسیت کا اجتماعی تخیل سے کیا رشتہ ہے جو کہ معاصر سیاست اور ثقافت کی تفہیم میں اہم کردار کرتا ہے۔

بحیثیت ایک فلبرائٹ۔نہرو فیلو کے آپ کا تجربہ کیسا رہا ؟  اور اس تجربے سے آپ نے کیا سیکھا؟

میرے نزدیک باہر تعلیم حاصل کرنے کا اس سے بہتر موقع نہیں ہو سکتا تھا۔ فلبرائٹ۔نہرو فیلوشپ سے مجھے اس کا بہتر ادراک ہوا کہ تعلیم اور خصوصاً بشری علوم جامعیت سے بھرا ایک سفر ہے جس میں مسلسل آپ اس دنیا کی تفہیم میں وسعت پیدا کرتے رہتے ہیں۔ نیز اس عمل کے دوران ہم اپنے تشخص کی نئی نئی تعریفات کرتے ہیں۔ نیز ہمارے آس پاس جو لوگ موجود ہیں ان سے اپنا رشتہ کیسے قائم کرتے ہیں۔

دنیا کے مختلف گوشوں سے تعلق رکھنے والے طلبہ کے ساتھ وقت گزارنا بجائے خود ایک انتہائی قیمتی تجربہ تھا۔ میں آج بھی ان میں سے کئی کے رابطہ میں ہوں۔ اس پروگرام کی بدولت مجھے مختلف پیشوں اور ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے مختلف افراد سے ملاقات کرنے کا شرف حاصل ہوا۔

اپنی تحقیق اور ہم جنس پرستی کی وکالت کے مد نظر آپ مستقبل میں کن چیلنجوں یا اہداف کا تعین کرتے ہیں؟

میرے نزدیک ہم میں سے جو بھی صنف اور جنسیت پر تحقیق میں مصروف ہے اس کے سامنے سب سے بڑا سوال اس اہم کام کو جاری رکھنا ہے وہ بھی اس وقت جب معاشرے میں نفرت، سیاسی قدامت پسندی، بنیاد پرستی میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہو۔ سوشل میڈیا بھی ایک منفرد چیلنج پیش کرتا ہے کیوں کہ اس کو لوگ  اکثر کچھ اس طرح استعمال کرتے ہیں جس سے شائستہ، ثابت قدمی اور پائیدار مکالمہ کو نقصان پہنچتا ہے۔ ہم کس طرح ان باتوں کو کہیں جن کا کہنا اشد ضروری ہے۔ممنوع خیالات کا کیسے اظہار کریں اور معاشرتی تبدیلی  کی وکالت کیسے کریں؟ مجھے لگتا ہے کہ ان مسائل کا حل ہمیں فوری طور پر تلاش کرنے ضرورت ہے۔


اسپَین نیوز لیٹر کو میل پر مفت منگوانے کے لیے لنک میں دیے گئے فارم کو بھریں: https://bit.ly/SubscribeSPAN



تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے