اس مضمون میں امریکی یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کے موضوع کے انتخاب، ایک اچھے مشیر کی تلاش اور محقق کی حیثیت سے اپنا پروفائل بنانے کے بارے میں جانیں۔
November 2023
بسوادیپ دھر نے حال ہی میں یونیورسٹی آف فلوریڈا سے ’صحت کے شعبے میں عدم مساوات اور افزائشِ صحت‘ کے موضوع پر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ (تصویر بشکریہ بسوادیپ دھر)
امریکی یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی پروگرام میں داخلہ لینے والے طلبہ کے لیے مقالے کے موضوع کا انتخاب کرنا مشکل کام نہیں ہے۔ یونیورسٹی کے شعبہ جات کے پاس بہت سے وسائل ہیں جو طلبہ کو غیر دریافت شدہ تحقیقی موضوعات کی نشاندہی کرنے میں مدد کرتے ہیں جن میں ان کی دلچسپی ہو سکتی ہے۔
یونیورسٹی آف ساؤتھ فلوریڈا کے موما کالج آف بزنس میں انڈر گریجویٹ اسٹڈیز اینڈ انٹرنیشنل ریلیشنز کے ایسوسی ایٹ ڈین اور اسکول آف انفارمیشن سسٹمس اینڈ مینیجمنٹ کے عبوری ڈائریکٹر کَوشِک دتّا کہتے ہیں ’’ہم طلبہ سے یہ توقع نہیں رکھتے ہیں کہ وہ پہلے ہی دن کسی موضوع کا انتخاب کر لیں۔‘‘ طلبہ عام طور پر کلاسوں اور سیمیناروں میں شامل ہوتے ہیں جو انہیں اپنی دلچسپیوں کو تلاش کرنے اور ایک ایسے موضوع کا انتخاب کرنے کا موقع فراہم کرتے ہیں جو ان کے تحقیقی مقاصد سے میل کھاتا ہو۔ ‘‘
ڈاکٹریٹ ڈگری کی تیاری
ڈاکٹریٹ کی پڑھائی میں عام طور پر دو سال کی کلاسیں شامل ہوتی ہیں، اس کے بعد دو سے چھ سال کی تحقیق ہوتی ہے۔ آخر میں تحقیق کے نتائج پر مبنی ایک تفصیلی تحریر جمع کرنی ہوتی ہے جسے مقالہ کہا جاتا ہے۔
دتّا بتا تے ہیں کہ پہلے دو برسوں میں ڈاکٹریٹ کے طلبہ کلاس میں شامل ہوتے ہیں، ہر کلاس میں ایک چھوٹا سا تحقیقی پروجیکٹ کرتے ہیں اور اپنے بعض نتائج خصوصی تعلیمی کانفرنسوں میں شائع کراتے ہیں۔ بقول ان کے ’’وہ (طلبہ) اکثر اپنے متعلقہ اور قریب تر شعبوں سے ہٹ کر بھی کئی اساتذ ہ کے ساتھ کام کرتے ہیں ۔ ہم ان کے ساتھ روزانہ کی بنیاد پر کلاسوں اور سیمیناروں میں کام کرتے ہیں۔ ہم ایک ساتھ کافی پیتے ہیں۔ ایسا بھی ممکن ہے کہ وہ آپ کو آدھی رات میں (کسی نئے خیال پر فوری تبادلہ خیال کے لیے) فون کریں۔ ایک بار جب وہ یہ (سب کچھ) مکمل کر لیتے ہیں تو انہیں معلوم ہو جاتا ہے کہ ان کا پسندیدہ موضوع کیا ہے۔‘‘
گذشتہ نصف صدی کے دوران سائنسی علوم اور پی ایچ ڈی کی ڈگریوں کی تعداد، دونوں میں، تیزی دیکھنے میں آئی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کے نتیجے میں طلبہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ کانفرنسوں میں شرکت کریں ، اپنے شعبے کے دیگر محققین کے ساتھ بات چیت کریں اور تحقیقی مقالے پڑھیں تاکہ اچھے موضوعات کے بارے میں نئے خیالات حاصل کیے جا سکیں نیز اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ وہ ایک ایسے موضوع پر کام کرنے جا رہے ہیں جس پر ابھی تک مکمل طور پر تحقیق نہیں کی گئی ہے۔
کوشک دتّا کا کہنا ہے کہ طلبہ عام طور پر کلاس اور سیمیناروں کے سلسلوں سے گزر کر تحقیق کے لیے موضوع کا انتخاب کرتے ہیں۔ موضوع کے انتخاب میں کلاس اور سیمینار معاونت کرتے ہیں۔(تصویر بشکریہ کَوشِک دتّا)
نشیب و فراز
ریاست میری لینڈ کے علاقہ ایسٹرن شور میں واقع یونیورسٹی آف میری لینڈ کے ڈیپارٹمنٹ آف ہیومن ایکولوجی میں مستقل ملازمت کی دوڑ میں شامل
اسسٹنٹ پروفیسر بسوادیپ دھر نے حال ہی میں یونیورسٹی آف فلوریڈا سے طبّی صحت کے فروغ سے متعلق ایک موضوع پر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ تحقیقی موضوع کا انتخاب کرتے وقت بعض سوالات کے ذریعے اپنی دلچسپیوں کو جاننا اور سمجھنا ضروری ہے جیسے کیا آپ فیلڈ ورک، لیب ورک یا’ کمپیوٹیشنل ورک ‘کو ترجیح دیتے ہیں؟
دھر کہتے ہیں ’’مجھے مکمل یقین تھا کہ لیبارٹری کے کاموں میں میری دلچسپی نہیں ہے لیکن لوگوں کے درمیان جا کر کام کرنے میں میری بہت زیادہ دلچسپی ہے۔‘‘ لوگوں کے درمیان جا کر کام کرنے میں ان (لوگوں) کے مختلف گروپوں سے سوالات کرنا، ان سے انٹرویو کرنا اور مختلف گروپوں پر توجہ دینا شامل ہو سکتا ہے تاکہ یہ پتہ لگایا جا سکے کہ لوگوں کے کسی چیز کو انتخاب کرنے کی وجہ کیا ہے۔
مواد کا باریک بینی سے جائزہ لینے کے بعد دھر نے اس موضوع پر کام کرنا پسند کیا کہ کس طرح جدید کاری خوراک اور طرزِ زندگی میں تبدیلی کا باعث بنتی ہے جس سے دنیا بھر میں لوگ موٹاپے، امراضِ قلب اور دیگر غیر متعدی بیماریوں کا شکار ہو سکتے ہیں۔ تاہم ان کے پی ایچ ڈی مشیر نے انہیں بتایا کہ ان کا یہ موضوع انتہائی وسیع ہے اور اس ’’تحقیق میں پوری زندگی نکل سکتی ہے۔‘‘
لہٰذا دھر نے اپنی تحقیق کو اس موضوع تک محدود کر دیا کہ کس طرح کھانے پینے اور رہن سہن میں مزید جدید کاری بھارت میں موٹاپے اور غیر متعدی بیماریوں میں اضافے کا سبب بن رہی ہے۔ ان کے مشیر نے اس موضوع کو منظوری دی اور انہوں نے اس پر تحقیق شروع کر دی۔ دھر نے اپنا تحقیقی مقالہ لکھا اور ماہرین کے پینل کے سامنے کامیابی سے اس کا دفاع بھی کیا۔
ایک مشیر کی تلاش
ماہرین کا کہنا ہے کہ پی ایچ ڈی کے لیے ایک ایسا مشیر تلاش کرنا نہایت ضروری ہے جس کے ساتھ طالب علم کا اچھا تعلق اور ایک اچھی سمجھ بوجھ ہو۔ دھر کہتے ہیں ’’آپ کو ایک اچھے مشیر کی ضرورت ہوتی ہے۔ آپ ان دیگر پی ایچ ڈی طلبہ سے بات کریں جو ان سے رہنمائی حاصل کر رہے ہیں۔‘‘
دھر کا کہنا ہے کہ وہ خوش قسمت تھے کہ انہیں ایک ایسے مشیر( معروف بہ سپروائزر )مل گئے جو ان کی تحقیق اور تحریر میں رہنمائی کرنے میں ماہر اور معاون تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ طلبہ کو اگر ضرورت محسوس ہو تو وہ بغیر کسی تاخیر کے اپنے پی ایچ ڈی مشیر کو تبدیل کریں۔ یہی وہ صورتحال ہے جہاں یونیورسٹی کے وسائل کارآمد ثابت ہوتے ہیں۔ اسکول کا گریجویٹ کوآرڈینیٹر اس طرح کی تبدیلیوں کا انتظام کرتا ہے تاکہ اس صورتحال سے طالب علم یا پروفیسر متاثر نہ ہوں۔
دھر کہتے ہیں ’’ایک مددگار سپروائزر حاصل کرنا کسی مشہور سپروائزر یا نوبل انعام یافتہ سپروائزر حاصل کرنے سے کہیں زیادہ اہم ہے۔‘‘
برٹن بولاگ واشنگٹن ڈی سی میں مقیم ایک آزاد پیشہ قلمکار ہیں۔
اسپَین نیوز لیٹر مفت میں میل پر منگوانے کے لیے لنک میں دیے گئے فارم کو بھریں: https://bit.ly/SubscribeSPAN
تبصرہ