امریکی حکومت کا ایک پروجیکٹ امریکہ ۔ہند دفاعی رشتوں پر ورکشاپوں کے ذریعہ ماہرین، معلّمین اور ذرائع ابلاغ کو مربوط کرتا ہے۔
February 2024
کولکاتہ میں واقع امریکی قونصل خانہ کا حمایت یافتہ ’دی ڈفینس نیوز کونکلیو پروجیکٹ‘ نے ماہرین، صحافیوں اور معلّمین کو صلاحیت سازی سے متعلق ورک شاپ اور رابطہ سازی سے متعلق مواقع بہم پہنچائے۔(تصویر بشکریہ ریتو شرما)
کولکاتہ میں واقع امریکی قونصل خانہ ، امریکی محکمہ خارجہ اور سی یو ٹی ایس انٹرنیشنل کے حمایت یافتہ ڈفینس نیوز کانکلیو پروجیکٹ کے تحت کالکاتہ، حیدرآباد ، جے پور، ممبئی اور نئی دہلی میں پانچ ورکشاپ منعقد کیے گئے۔ ۲۴۔۲۰۲۳ میں منعقد صلاحیت سازی کی ان ورکشاپوں کے ذریعہ ماہرین، صحافی ، ماہرینِ تعلیم اور ذرائع ابلاغ سے وابستہ پیشہ ور یکجا ہوئے۔
آزادانہ بات چیت
جے پور میں منعقدورکشاپ میں شریک ریتو شرما اور سیّدہ افسانہ دونوں کے لیے پلیٹ فارم نے ماہرین کے ساتھ نیٹ ورکنگ اور بات چیت کے مواقع فراہم کیے ۔ ان ماہرین نے امریکہ۔ہند دفاعی اور سلامتی شراکت داریوں اور ہند۔ بحرالکاہل خطے میں ان کی مطابقت کے بارے میں بصیرتیں ساجھا کیں۔
کشمیر یونیورسیٹی کے میڈیا ایجوکیشن ریسرچ سینٹر (ایم ای آر سی ) کی پروفیسر افسانہ نے پروگرام کو ’’غیر معمولی طور پر بصیرت انگیز پایا۔افسانہ کو بین الاقوامی رشتوں اور تنازعات کے مطالعہ میں تخصص حاصل ہے۔ انہوں نے خاص طور پر ’’ آفات سے متعلق امداد اور انسانی امداد میں رشتے کو مضبوط بنانے پر بات چیت کے ذریعے امریکہ۔ہند عسکری شراکت داری کی اہمیت کو اجاگر کیا۔‘‘
افسانہ بتاتی ہیں کہ ورکشاپ کے معرفت ان ’’ماہرین اور عہدیداروں کے ساتھ مفید روابط ‘‘کو فروغ ملا جنہوں نے امریکہ اور ہندوستان کے درمیان دفاعی اور سلامتی شراکت داری کے بارے میں ایک جامع تفہیم پیش کی۔ وہ مزید کہتی ہیں ’’ اجلاس نے روایتی دفاعی امور سے ہٹ کر عالمی چیلنجوں سے نمٹنے سے متعلق ہمارے مشترکہ عزم پر زور دیا ۔‘‘
ورکشاپوں سے ہونے والی بات چیت کا صحافت کی پروفیسر کی حیثیت سے افسانہ کے کام پر گہرا اثر مرتب ہوتا ہے۔ انٹرنیٹ سلامتی اور وکالت کے بارے میں بات چیت، امریکہ۔ ہند رشتے کو مضبوط بنانے کے لیے تارکین وطن کے ساتھ مشغولیت اور انسانی امداد کے لیے دفاعی شراکت داری ان کی صحافت کی کلاسوں کے عالمی تناظر کو پیش کرتی ہے۔ مثال کے طور پر وہ بتاتی ہیں کہ ڈیجیٹل سلامتی بیانیے کو شامل کرنے سے آن لائن صحافت کے ارتقاء پذیر منظرنامے پر طلبہ کی گرفت یقینی ہو گی۔ وہ مزید کہتی ہیں’’کانکلیو کی بصیرت سے متاثر تنقیدی تجزیہ کی حوصلہ افزائی سے طلبہ کو متوازن خبروں کی کوریج کے لیے دفاعی شراکت داری کا درست اندازہ لگانے میں مدد ملے گی ۔‘‘
دفاع اور امور خارجہ کی ماہرہ یوریشین ٹائمز کی صحافی شرما نے کہا کہ ورکشاپ سے انہیں ان ماہرین کے ساتھ رابطہ قائم کرنے کا ایک قیمتی موقع میسر ہوا جنہوں نے ’’امریکہ۔ہند رشتے کے جملہ پہلوؤں کا جائزہ ‘‘ پیش کیا۔ وہ بتاتی ہیں کہ اس سے خبر نگاری کے لیے مزید سیاق و سباق میسر آتا ہے۔
مثال کے طور پر، امریکی جنگی جہازوں یا امریکی بحری جہازوں کے لیے ہندوستان میں شروع کیے جا رہے رکھ رکھاؤ کے مراکز کے بارے میں لکھتے ہوئے میں اب مطابقت اور پس منظر کو سمجھتی ہوں۔ اس سے میری تحریر مزید مربوط اور دلچسپ ہو جاتی ہے۔ ورکشاپ نے مجھے رشتے کے بارے میں مزید پرتوں اور باریک بینی کا فہم عطا کیا ہے۔‘‘
شرما کہتی ہیں کہ انہوں نے ورکشاپ میں کچھ قیمتی روابط بھی بنائے جس سے انہیں امریکہ اور ہندوستان کے درمیان عسکری تعاون کی گہرائی کو سمجھنے میں مدد ملی ۔ وہ کہتی ہیں ’’ امریکہ اور ہندوستان کے درمیان شراکت داری کے اتنے شعبے ہیں کہ پروجیکٹوں کی درجہ بندی کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ سبھی کی ایک پلیٹ فارم پریکجائی بہت موزوں تھی۔ ‘‘
اعتماد سازی
افسانہ کا خیال ہے کہ اس طرح کی ورکشاپ اور دفاع اور ذرائع ابلاغ کے پیشہ ور افراد کے ساتھ تعامل درست خبرنگاری کو یقینی بنانے اور دفاعی اقدامات کے لیے عوامی فہم اور تعاون کو فروغ دینے کے لیے بہتر گفت وشنید کا راستہ ہموار کرتے ہیں ۔ وہ کہتی ہیں ’’باخبر میڈیا کوریج سے شفافیت اور اعتماد پیدا ہوتا ہے۔ جب اس طرح کے پلیٹ فارم دفاعی پیچیدگیوں کی وضاحت کے لیے میڈیا کے پیشہ ور افراد کے ساتھ تعامل کرتے ہیں تو درست عوامی مواصلات کا راستہ ہموار ہوتا ہے اور پالیسی سازوں کو دفاعی رشتوں کو ترجیح دینے اور مضبوط کرنے کی ترغیب ملتی ہے ۔‘‘
ایک صحافی کے طور پر شرما کا خیال ہے کہ ورکشاپ میں ہونے والی گفتگو سے انہیں امریکہ اور ہندوستان کے رشتے کو مزید جامع انداز میں دیکھنے میں مدد ملی ۔ وہ کہتی ہیں’’ایک چیز جو میں نے سیکھی وہ یہ تھی کہ امریکہ اور ہندوستان نے اپنے رشتوں میں بہت طویل سفر طے کیا ہے‘‘۔وہ وضاحت کرتے ہوئے کہتی ہیں ’’ راستے میں حائل رکاوٹوں کے باوجود میں نے محسوس کیا کہ مقررین نے دونوں ممالک کے درمیان رشتوں کے بارے میں عملی رویہ اختیار کیا ۔ ہم راہ میں حائل رکاوٹوں کو نظر انداز کر سکتے ہیں اور اس بڑی تصویر پر توجہ مرکوز کر سکتے ہیں کہ امریکہ اور ہندوستان کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے اور دونوں ملک ہند۔بحرالکاہل خطے میں مساوی شراکت دار ہیں۔‘‘
اسپَین نیوزلیٹر مفت میں میل پر منگوانے کے لیے لنک میں دیے گئے فارم کو بھریں: https://bit.ly/SubscribeSPAN
تبصرہ