نئی دہلی کے امریکی سفارت خانہ کا نیا احاطہ اپنی کارکردگی کے اعتبار سے پہلے سے بہتر ہوگا۔ یہ ماحولیاتی اعتبار سے زیادہ موزوں ہونے کے ساتھ ساتھ پائیداری کے اصولوں کو اختیار کرنے والا بھی ہوگا۔
July 2024
نئی دہلی کے امریکی سفارت خانہ کے احاطے کا ایک فنکارانہ فضائی تصور۔ (بشکریہnewusembassynewdelhi.state.gov)
نئی دہلی میں واقع امریکہ کا تاریخی سفارت خانہ امریکہ اور ہندوستان کے درمیان تعلقات کی اہمیت کا عملی مظہر ہے۔
ڈیوائٹ ڈی آئزن ہاور کے عہد صدارت کے دوران تعمیر کی جانے والی سفارت خانے کی عمارت کا نقشہ ۱۹۵۰ ء کی دہائی میں ممتاز امریکی معمار ایڈورڈ ڈیورل اسٹون نے تیار کیا تھا ۔ یہ عمارت آزادی کے بعد امریکہ کی ہندوستان سے وابستگی کی بھی ایک علامت ہے۔ کم و بیش ۶۰ برس بیت جانے کے بعد اب نئی دہلی کے امریکی سفارت خانہ کا یہ احاطہ ایک نئی شکل اختیار کرنے جارہا ہے جو فعالیت میں اضافے کے ساتھ ، ماحولیاتی لچک اور پائیداری کا ایک شاندار امتزاج ہوگا۔
امریکی محکمہ خارجہ نے ہندوستان میں امریکی سفارتی مشن کی بڑھتی ہوئی ضروریات کو دیکھتے ہوئے ۲۰۱۵ ءمیں تعمیراتی فرم وائس/ مینفریڈی کو سفارت خانے کے احاطے کو ایک نئی شکل دینے کی ذمہ داری سونپی تھی۔
اس پروجیکٹ کے تحت ۲۸ ایکڑ اراضی پر محیط اس احاطے کو روایتی ہندوستانی فن تعمیر اور ارضی منظر نامے سے مُزین ایک کثیر الجہتی کیمپس میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔ اس میں ایک نئی عمارت شامل ہے جس میں تین منزلوں میں دفاتر کی جگہ اور عوام کے لیے قونصلر خدمات، ایک اعانتی ملحقہ عمارت اور ایک باغ شامل ہیں۔ اس احاطے کا تقریباً ۴۰ فی صد حصہ سبزہ زار پر محیط ہوگا۔
قدرت اور فن تعمیر
وائس/ مینفریڈی کے شریک بانی ماریون وائس اور مائیکل مینفریڈی تعمیراتی منصوبوں میں قدرتی عناصر کے توازن اور استعمال کے لیے جانے جاتے ہیں۔ سفارت خانے کے تزئین نو کے پروجیکٹ کے بارے میں ان کا نقطہ نظر بھی اس سے مختلف نہیں ہے۔ روایتی فن تعمیر اور پائیدار طریقہ کار کے استعمال سے احاطے کو سرسبز و شاداب بنایا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ اس میں کولنگ زون اور اجتماع کی جگہوں کا بھی اہتمام کیا جا رہا ہے۔
اس کے ارضی منظرنامے میں ۱۰۰ فی صد مقامی اور موسم کے لحاظ سے موزوں پودوں اور درختوں کی اقسام جیسے پلمیریا (گرم ماحول میں پروان چڑھنے والی جھاڑی جس میں سفید اور گلابی رنگے کے پھول کھلتے ہیں )، مونسٹرا ڈیلیسیوسا، رویل پام ٹری، گل مہر کے درخت، پن وہیل جیسمین اور پیٹونیا جھاڑیاں پائی جائیں گی۔ مینفریڈی، جو ہارورڈ یونیورسٹی میں شہری ڈیزائن کے ایک سینئر نقاد کے طور پر بھی اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں، بتاتے ہیں ’’کھلے پن کے احساس کے ساتھ ایک محفوظ ماحول کو متوازن کرنے کا چیلنج ہمارے لیے دیواروں کے احاطے اور باغات کے روایتی ہندوستانی فن تعمیر کو دیکھنے کا ایک موقع ہے۔ یہ فن تعمیر آہستہ آہستہ خالی جگہوں کی ایک ترتیب کو ظاہر کرتا ہے جو انتہائی عوامی سے انتہائی نجی گوشے تک وسعت رکھتی ہے۔‘‘
ماحول کے تئیں حسّاس مستقبل
جالی دار پتھر کی دیواروں سے پہچانے جانے والی سفارت خانہ کی تاریخی عمارت کی تزئین و آرائش کی جائے گی تاکہ کھلے ماحول اور وسائل کے تحفظ کا احساس روز افزوں ہو۔ یونیوسٹی آف پینسلوانیا میں تعمیرات میں پریکٹس کے گراہم چیئر پروفیسر کی خدمات بھی انجام دے رہی ہیں بتاتی ہیں کہ تعمیر کے دوران جو اہم تبدیلیاں کی جارہی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ اس پر کنٹرول کیا جائے گا کہ سورج کی روشنی عمارت میں کیسے داخل ہورہی ہے تاکہ عمارت کے داخلی ایئر کنڈیشننگ سسٹم پر دباؤ کم پڑے۔ وہ بتاتی ہیں ’’ ہم جانتے ہیں کہ جالی دار اسکرین کی وجہ سے دفتر کی کھڑکیوں کے باہر دیکھنا بہت مشکل ہو رہا تھا۔ اس لیے ہم نے ستونوں کی شفافیت اور جالی کے جھالر کو ملانے کے بارے میں غور کیا تاکہ جالی کا ایک نیا اور موثر منظر وجود میں آئے جو روشنی کی کیفیات کو اپنے اندر سمو سکنے کے ساتھ دھوپ کی عمارت میں راست رسائی کو بھی روک سکے۔‘‘
وائس بتاتی ہیں کہ امریکی معمار کے کام کے احترام اور ان کی تخلیق کی تعظیم کے طور پر نئی دفتر کی عمارت سفارت خانہ کی موجودہ عمارت سے زیادہ اونچی نہیں ہوگی۔ اس کے بجائے اس میں زیر زمین علاقہ زیادہ ہوگا جو توانائی کی بچت کو برقرار رکھنے کے لیے زمین کی قدرتی ٹھنڈک اور اس کے صحن سے آنے والی قدرتی روشنی کا استعمال کرے گا۔
سفارت خانہ کی عمارت کے باہر خوبصورت تالاب بارش کے پانی کے استعمال کے نئے طریقے کے ساتھ اپنے اعزازی معیار کو برقرار رکھنے والاہو گا۔ وائس کہتی ہیں ’’ہم سمجھتے ہیں کہ پانی اب صرف ایک عکس فراہم کرنے کا اعزازی ذریعہ نہیں ہے بلکہ وسائل کے طور پر بھی یہ نہایت قیمتی ہے۔ اب اس تالاب میں دس لاکھ گیلن پانی جمع کیا جائے گا جسے سال بھر استعمال کیا جا سکتا ہے۔‘‘
بارش کے پانی کے انتظام کا نیا نظام ’اس جگہ گرنے والے پانی کے ہر قطرے‘ کو جمع کرے گا اور اسے دوبارہ استعمال کرے گا۔ اس میں پینے کے قابل نہیں ہونے والے پانی کے علاوہ دوبارہ استعمال کے لائق بنایا جا سکنے والا پانی بھی شامل ہے۔اس تالاب کے نیچے پانی یکجا کرنے کی سہولت ہوگی جس کی گنجائش ’ چار اولمپک سائز کے سوئمنگ پول‘ کے برابر ہوگی۔
نئی دفتری عمارت اور معاون عمارتوں میں کھڑکیوں پر سایہ فراہم کرنے والی پٹیاں ہوں گی تاکہ شمسی حرارت کو کم کیا جا سکے۔ نئی عمارت کی کھڑکی سے دیوار کا تناسب ۴۱ فی صد ہوگا، مشرق اور مغرب کی طرف کم کھڑکیاں ہوں گی تاکہ کم زاویے کے سورج کی روشنی کو روکا جا سکے۔ اس کے علاوہ عمارت کے سامنے کے حصے میں لگنے والی ٹائٹینیم ڈائی آکسائیڈ کی کوٹنگ ذرات کو ہٹا کر ہوا کو صاف کرنے میں مدد کریں گی۔
روشنی کی کثافت میں بہتری اور قابل تجدید توانائی کے وسیع نظام سے توانائی کی بچت میں مزید اضافہ ہوگا۔ عمارت کی سالانہ بجلی اور تھرمل توانائی کی کھپت کے ۲۰ فی صد حصے کی تکمیل قابل تجدید توانائی کی پیداوار کے ذریعہ کی جائے گی اور اس کے لیے احاطے میں چھتوں پر بڑے شمسی پینل نصب ہوں گے۔
نئی دہلی کے امریکی سفارت خانہ کے احاطے میں چہل قدمی کی غرض سے بنایے جانے والے سبز خطے کاایک فنکارانہ تصور۔ (بشکریہnewusembassynewdelhi.state.gov)
گہرے تعلقات کا خاکہ
مینفریڈی کہتے ہیں کہ سفارت خانے کا موجودہ ڈھانچہ ’’اس بات کی روشن مثال ہے کہ کس طرح امریکہ نے کھلے ماحول اور سفارت کاری کو فروغ دینے کے لیے فن تعمیر کا استعمال کیا۔ ایڈورڈ ڈیورل اسٹون کے ڈیزائن نے امریکی جدیدیت اور ہندوستانی فن تعمیر کے روایتی نمونوں کو یکجا کیا ہے۔‘‘
وائس اور مینفریڈی نے بھی قدیم ہندوستانی فن تعمیر سے ترغیب حاصل کی۔ وائس کہتی ہیں ’’ہمارے لیے آگرہ کا قلعہ، تاج محل یا یہاں تک کہ آبی زخائر جیسے حفاظتی احاطے بنانے کے لیے زمین کے اندر تہہ لگانے اور نقش و نگار کا خیال واقعی اس پروگرام سے مطابقت رکھتا ہے۔ یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہم اس ثقافت سے گہری توجہ حاصل کرنے کے قابل بنے جس نے اس تعلق کی (قدرت اور تعمیر کے درمیان کی) خصوصیت پائی ہیں۔‘‘
وائس کا کہنا ہے کہ اس ڈیزائن پر کام کرتے ہوئے ان کے سب سے بڑے مقاصد میں سے ایک یہ تھا کہ نئی تعمیر کے ساتھ اسٹون کی ڈئزائن کی ہوئی سفارت خانہ کی عمارت کی طرح ہی ارضی منظر نامے اور احاطہ کو باہم ملایا جائے تاکہ ناقابل یقین تاریخ کے ساتھ پرانے ڈھانچے مربوط ہوسکیں اور گہری سفارت کاری ایک مربوط ترتیب کے طور پر سامنے آسکے۔ نئے احاطے میں مختلف عمارتوں کو جوڑنے والے ڈھکے ہوئے راستوں کا حوالہ دیتے ہوئے وہ کہتی ہیں ’’ہمارا خیال ایک سبز دری کے تصور کے ساتھ اس تعلق کو مضبوط کرنا تھا اور ایک طرح سے یہ سبز دری سب کو جوڑے رکھنے والا اہم ذریعہ بن جاتا ہے۔‘‘
نئی دہلی میں امریکی سفارت خانے میں اوورسیز بلڈنگ آپریشنز کے ڈویژن ڈائریکٹر رابرٹ ٹی جیٹر اس منصوبے کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’’یہ منصوبہ درحقیقت امریکہ اور ہندوستان کے درمیان تعلقات کی نمائندگی کرتا ہے۔ اس عمارت میں ہماری سرمایہ کاری ہماری طویل تاریخ کو یکجا کرتی ہے اور مستقبل کے لیے اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ ہم کہاں جا رہے ہیں اور ہمارا عزم کیا ہے۔‘‘
اسپَین نیوز لیٹر کو میل پر مفت منگوانے کے لیے لنک میں دیے گئے فارم کو بھریں: https://bit.ly/SubscribeSPAN
تبصرہ