امراض کی تشخیص کی تربیت

امریکی حکومت کی حمایت یافتہ وبائیات کی تربیت عوامی صحت کے شعبے میں کام کرنے والے حکام کو ایسے ہنر سے متصف کرتی ہے کہ وہ بیماریوں کا حقیقی وقت میں پتہ لگا سکیں اور اس سے ہونے والے خطرات کا تدارک کرسکیں۔

کریتیکا شرما

August 2023

امراض  کی تشخیص کی تربیت

امریکی مرکز برائے انسدادِ عارضہ کا حمایت یافتہ فیلڈ ایپیڈیمیلوجی ٹریننگ پروگرام صحت کے شعبے میں کام کرنے والوں کو ایسی جانکاری اور ہنر سے متصف کرتا ہے کہ وہ صحت سے متعلق چیلنجوں کا مقابلہ کرسکیں اور ان طبقات تک پہنچ سکیں جن تک رسائی عام طور پر مشکل ہوتی ہے۔(تصویر بشکریہ امتیاز امام)

بڑے پیمانے پر پھیلنے والی کسی بیماری کی روک تھام کے لیے ایک تربیت یافتہ عوامی طبّی عملہ کی موجودگی ناگزیر ہے۔امریکی مراکز برائے انسدادِ عارضہ(سی ڈی سی ) ملک میں بھارتی قومی مرکز برائے انسدادِ عارضہ(این سی ڈی سی )اور وزارتِ صحت و خاندانی بہبود کے اشتراک سے فیلڈ ایپیڈیمولوجی ٹریننگ پروگرام (ایف ای ٹی پی) چلا رہا ہے۔ اس پروگرام کے تحت طبّی پیشہ ور افراد کوطبّی خطرات کی بروقت نشاندہی کرنے اور ان سے نمٹنے کی تربیت دی جاتی ہے۔

فروری ۲۰۲۳ ءمیں سی ڈی سی نے ایف ای ٹی پی۔ انڈیا کانفرنس ۲۰۲۳ کا مشترکہ طور پر اتر پردیش کے شہر بنارس میں انعقاد کیا۔

اس کانفرنس میں ایف ای ٹی پی گروہ کے اراکین نے شرکت کی جنہوں نے اپنی کامیابی کی داستانیں سنائیں، نیز یہ بھی بتایا کہ کس طرح یہ تربیتی پروگرام مثبت تبدیلی کا موجب بنا۔

مثبت تبدیلی

چھتیس گڑھ کے رائے پور میں غیر متعدی بیماری سے متعلق رابطہ کار اور ایف ای ٹی پی سے فیض یافتہ ڈاکٹر وزیندر کور اس چیز پر نازاں ہیں جو وہ کرتی ہیں ۔ ڈاکٹر کور بتاتی ہیں کہ اس پروگرام نے انہیں طبقات اور مقامی طبّی خدمات کے نظام کے درمیان ایک مستحکم رابطہ قائم کرنے میں کافی مدد کی ہے۔

وہ چھتیس گڑھ کے ایک دور دراز گاؤں کی ایک عمر رسیدہ خاتون کا قصہ بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں ’’وہ پچھلے چھ سال سے ہائی بلڈ پریشر کا شکار تھیں۔ وہ طرزِ حیات میں تبدیلی یا خورد و نوش کی عادات سے قطعی طور پر ناواقف تھیں۔ وہ تو اپنی دوائیاں بھی پابندی سے نہیں لے رہی تھیں۔ ہم نے مداخلت کی جس کے سبب ان کےطرز حیات میں بعض تبدیلیاں واقع ہوئیں اور انہوں نے کھانے میں نمک کا استعمال کم کر دیا ۔‘‘

وبائیات سے متعلق انٹیلی جینس خدمات افسر بھاویش لودھی کو ایف ای ٹی پی سے جو ہنر اور مہارت حاصل ہوئی اس سے انہوں نے کووِڈ۔۱۹ دوران بہت کام لیا۔

اس تربیت کی بدولت وہ کرناٹک کے دکشنا کنڈا ضلع میں واقع ایک اقامتی اسکول میں اومائیکرون پر قابو پانے میں کامیاب رہے۔ یہ اسکول ایک دیہی علاقے میں واقع تھا اس لیے انہیں سرعت رفتار سے کام کرنا تھا۔وہ بتاتے ہیں ’’ہم نے تمام مطالعات کیے، اعداد وشمار اکٹھا کرنے کے بعد اس کا تجزیہ کرنے پر ہم مخصوص نتائج پیش کرنے میں کامیاب ہوئے جس سے اسکول کو بیماری کو پھیلنے سے روکنے اور بچوں کو محفوظ رکھنے میں مدد ملی۔‘‘

بااختیار عملہ

ایف ای ٹی پی کے اثرات طبقات سے پرے بھی بڑے پیمانے پر محسوس کیے جا سکتے ہیں ۔ ایف ای ٹی پی ٹرینر ڈاکٹر شیلجا یادو بتاتی ہیں کہ اس پروگرام کا اطلاق مختلف ریاستوں میں ضلعی سطح پر کیا گیا جس سے ان جیسے مزید تربیت دینے والوں کو مقامی افسران سے تبادلہ خیال کے مواقع فراہم ہوئے۔ تربیت کا ایک اہم موڑ وہ تھا جب ایک ای آئی ایس افسر نے انہیں بتایا کہ عوامی نظام میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ معلومات کا اشتراک اس وقت آسان ہو گیا جب وہ (ساتھی لوگ) اپنے کام کی اہمیت اور ان کے زیر نگرانی لوگوں کی زندگیوں پر ان کاموں کے اثرات کو سمجھ گئے۔

اس تربیت کی بدولت گروہ کے اراکین نے روز مرہ کے کام کے اہم ہنر سیکھے جس سے ان کے اندر خود اعتمادی بھی پیدا ہوئی۔ مثلاً ایف ای ٹی پی تربیت یافتہ وکاس کوکارے ،جو کہ گجرات میں ڈبلیو ایچ او میں اطلاقی وبائیات پروگرام افسر ہیں ، کہتے ہیں کہ اس پروگرام سے ان کے اندر فیلڈ میں بہتر کام کرنے کی صلاحیت پیدا ہوئی ۔نیز بحیثیت ایک طبّی پیشہ ور وہ مزید بااختیار ہوئے ہیں اور ان کو روز مرہ کے چیلنجوں کا سامنا کرنے میں آسانی ہوئی ہے۔وہ مزید کہتے ہیں ’’(اس پروگرام میں داخلہ لینا) میری زندگی کا سب اچھا فیصلہ تھا۔‘‘

بنارس میں منعقد ہونے والی ایف ای ٹی پی ۔ انڈیا کانفرنس میں ایف ای ٹی پی گروہ کے ارکین نے اپنی اپنی کامیابی اور درپیش مسائل کی کہانیوں کا اشتراک کیا ۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اس سے ان کے طبقات میں کیا کیا تبدیلیاں واقع ہوئیں۔

ڈاکٹر کرسٹن وانڈرانڈے، جو کہ سی ڈی سی انڈیا میں ایف ای ٹی پی کی رہائشی مشیر ہیں، کہتی ہیں ’’یہ ایک ایسا موقع تھا جب ہمیں اپنے صفِ اوّل پر کام کرنے والے افسران، گریجویٹس اور ریاستوں کے نگرانی افسران سے ان کے کام پر ایف ای ٹی پی کے مثبت اثرات کے واقعات سننے کو ملے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ایف ای ٹی پی کا صحت عامّہ پر کافی مثبت اثر ہے۔ اور کامیابی کی یہ تمام واقعات بہت شاندار ہیں۔ یہ ہماری کاوشوں کا ایک بہترین نمونہ ہیں۔‘‘

تبدیلی کے لیے تعاون

ایف ای ٹی پی تین دائروں این سی ڈی سی، انڈین کونسل فار میڈیکل ریسرچ ۔نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ایپیڈیمولوجی اور عالمی ادارہ صحت کے بھارت میں کام کرنے والے دفتر پر مشتمل ہے۔ بھارت میں امریکی سی ڈی سی کی ڈائریکٹر میگھنا دیسائی کہتی ہیں کہ ایف ای ٹی پی کی بدولت ممالک ضلعی اور قومی سطح پر ’’بیماری کے متعلق خبردار کرنے والے‘‘ تیار کر پا تے ہیں جن کے اندر وبائی امراض کی ابتدا ہی میں شناخت کرنے اور ان کی توسیع پر قدغن لگانے کی صلاحیت ہوتی ہے۔

اس پروگرام کے تحت جن امور کی بنیادی تعلیم دی جاتی ہے ان میں وبائی امراض، امراض کی نگرانی، وبائی امراض سے نمٹنے کی تیاری، پھیلاؤ کی وجہ جاننے کے لیے تحقیق، فیلڈ پر مبنی اسٹڈیز کو ڈیزائن کرنا، فیلڈ تحقیقات اور سروے کرنا، ادارہ جاتی اعداد وشمار کا تجزیہ اور رپورٹ تحریر کرنا شامل ہیں۔


اسپَین نیوز لیٹر کو مفت حاصل کرنے کے لیے لنک میں دیے گئے فارم کو بھریں: https://bit.ly/SubscribeSPAN



تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے