اس مضمون میں صنفِ مخصوص سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر تری نیتر ہلدر گُمّا راجو بطور فنکار ہ اور مواد تخلیق کار اپنے سفر کے بارے میں بتا رہی ہیں۔
June 2023
ڈاکٹر تری نیتر ہلدر گُمّاراجو ایک ڈاکٹر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک سماجی کارکن اور سوشل میڈیا تخلیقکار بھی ہیں۔ (تصویر بشکریہ ڈاکٹر تری نیتر ہلدر گُمّاراجو)
ڈاکٹر تری نیتر ہلدر گُمّا راجو کی حیثیت ایک انتہائی ماہر معالج سے بڑھ کر ہے۔ ایک ڈاکٹر ہونے کے علاوہ وہ صنفِ خاص سے تعلق رکھنے والی فنکارہ ، معاشرتی کارکن اور سوشل میڈیا پر صنفِ مخصوص برادریوں کی ایک طاقتور آواز ہیں۔
ان کے اس سفر کا آغاز محض چار برس کی چھوٹی سی عمر میں ہی ہو گیا تھا۔ ان کو لڑکوں کی طرح برتاؤ نہ کرنے، نیز ساری اور اونچی ایڑی والی جوتی پہننے کی چاہت رکھنے پر طعنے سننے کو ملتے تھے۔ تری نیتر کو اپنی اسکولی زندگی کے شروعاتی برسوں میں کافی بدسلوکی اور ذلت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ مگر جب انہوں نے ایم بی بی ایس (بیچلر آف میڈیسن، بیچلر آف سرجری) میں داخلہ لیا تب جا کر انہیں صحیح سمت ملی۔ انہوں نے ایک معالج کی مدد سے اپنی صنفی شناخت تلاش کرنی شروع کی۔ سوشل میڈیا کی مدد سے انہوں نے ایک نئی دنیا دریافت کی جسے انہوں نے اپنے اظہارِ خیال اور آزادی کے ایک آلہ کے طور پر استعمال کیا۔
سوشل میڈیا خانوادہ
تری نیتر نے ۲۰۱۷ء میں اپنی صنفی تبدیلی کے لوازمات کا آغاز کیا اور اگلے برس جنوری میں قانونی طور پر اپنا نام اور صنفی شناخت تبدیل کر لی۔ ایک برس تک مسلسل ان کی ہارمون تھیراپی چلتی رہی اور ۲۰۱۹ ءمیں جنس کی تصدیق کی سرجری کروائی۔ بالآخر ۲۰۲۱ءمیں انہوں نے باقاعدہ طور پر اپنا پاسپورٹ بھی تبدیل کر دیا۔ اس پورے عمل کے دوران وہ سوشل میڈیا پر مسلسل پوسٹ کرتی رہیں۔ اس طرح انہوں نے دنیا بھر کے لوگوں کے ساتھ اپنے تجربات کا اشتراک کیا۔
آج تری نیتر کو ہزاروں لوگ آن لائن فالو کرتے ہیں ۔ وہ باقاعدگی سے تصاویر اور امید افزا پیغامات کا آن لائن اشتراک کر رہی ہیں۔ وہ اپنی سوشل میڈیا پوسٹس کے بارے میں بتاتے ہوئے کہتی ہیں ’’میری سوشل میڈیا پوسٹس ایک مواد تخلیق کار، ڈاکٹر اور صنفِ خاص کا تجربہ رکھنے والی خاتون کے طور پر میری ابھرتی ہوئی شناخت کی ایک زبردست تشہیر ہے جو ایک صنفی دنیا کو عبور کر رہی ہے۔ میری یہ بھی کوشش رہتی ہے کہ میرے قارئین اور سامعین کو میرے مواد میں خود ان کی جھلک نظر آئے تاکہ ان میں ہمدردی کا مادہ پیدا ہو اور وہ اسے ساتھ لے کر آگے بڑھیں۔‘‘
انتشار میں امن
گوکہ سوشل میڈیا پر مقبول افراد کو اکثر بااثر سمجھا جاتا ہے مگر تری نیتر خود کو تخلیق کار کہلوانا زیادہ پسند کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں ’’لکھنا، تصاویر بنانا اور وی لاگ بنانا (نجی ویب سائٹ یا سوشل میڈیا اکاونٹ سے باقاعدگی کے ساتھ چھوٹے ویڈیو پوسٹ کرنا)یہ وہ تمام کام ہیں جن میں میں اپنی شناخت کے اعتبار سے سکون حاصل کرتی ہوں۔ جب میں نے نوعمری میں اپنے نرالے پن کے بارے میں جاننا شروع کیا، اس وقت سوشل میڈیا کا استعمال عام ہونا شروع ہو رہا تھا۔ اس نے مجھے اپنے ہی جیسے لوگوں سے یکجہتی کا اظہار کرنے کا پلیٹ فارم فراہم کیا۔‘‘
حالانکہ سوشل میڈیا پر ایک قوی آواز بنناتری نیتر کا بنیادی مقصد کبھی نہیں تھا مگر انہوں نے اپنے جیسے دوسرے لوگوں سے رشتہ بنانے کے لیے اس کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ وہ بتاتی ہیں ’’مواد کی تخلیق سے مجھے سکون ملتا ہے۔ مجھے اس وقت اور بھی خوشی کا احساس ہوتا ہے جب کوئی یہ کہتا ہے کہ میری تخلیق ان کے دل کو چھو گئی ہے۔‘‘
سوشل میڈیا پر اپنی متحرک موجودگی کے علاوہ تری نیتر نے گذشتہ دو برسوں کے دوران دو ویب سیریز میں بھی کام کیا ہے۔ ان دونوں ہی ویب سیریز میں سماجی شمولیت اور مساوات کے مضبوط پیغامات پنہاں ہیں۔ وہ ممبئی منتقلی ،نیز طبّی پیشہ پر کم اور اداکاری اور مواد کی تخلیق پر زیادہ توجہ دینے کے لیے پُرجوش ہیں۔
دماغی صحت کی خود دیکھ بھال کرنا
تری نیتر کا کہنا ہے بحیثیت ایک ڈاکٹر، کارکن، آرٹسٹ اور مواد تخلیق کار اتنی متنوع دنیاؤں میں بیک وقت سفر کرنا دشوار گزار ہے۔ وہ انکشاف کرتی ہیں ’’میری کوشش ہوتی ہے کہ میں کچھ توازن قائم کر سکوں۔ میں اپنی نفسیاتی صحت کو سنجیدگی سے لیتی ہوں۔ میں کوشش کرتی ہوں کہ میں باقاعدگی سے تھیراپسٹ کے پاس جاؤں، نیز اپنی برادریوں کے قریب بھی رہوں۔ میں پینٹنگ بھی کرتی ہوں، لکھتی بھی ہوں اور ادرک کی چائے کا بھی بڑے شوق سے لطف اٹھاتی ہوں۔‘‘
بھارت میں صنفِ خاص کی زندگی بہتر بنانے کی کاوشوں کے درمیان تری نیتر پُرامید ہیں کہ آنے والے برسوں میں ان برادریوں کو لے کر کئی سیاسی اور سماجی تبدیلی واقع ہو گی۔ وہ صنفِ خاص کی کارکن گریس بانو کے کام سے کافی متاثر ہیں اور صنفِ خاص برادری کی تعلیم اور ملازمت کے میدانوں میں ان کے کوششوں کی وہ پُرجوش حمایت کرتی ہیں۔
تری نیتر تسلیم کرتی ہیں کہ بھارت میں حالانکہ صنفِ خاص کی قبولیت کے سلسلہ میں کافی پیش رفت ہوئی ہے مگر بہرحال ابھی بھی ان کے خلاف وسیع پیمانہ پر تفریق برتی جاتی ہے جس کا دائرہ وسیع ہے۔ ان کو امید ہے کہ آجر صنفِ خاص امیدواروں کو ملازمت پر رکھنے کو ترجیح دیں گے۔
تری نیتر کہتی ہیں ’’کیا ہی اچھا ہو اگر بیمہ پالیسی میں صنفی تبدیلی کے اخراجات بھی شامل ہوں، دفاتر میں انسداد تفریق پالیسی پر سختی سے عمل کیا جائے، جنسی غیر جانب دار غسل خانے ہوں اور صنفِ خاص کے جوڑوں کو بھی وہی مراعات حاصل ہوں جو کہ دوسرے جوڑوں کو حاصل ہیں۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو صنفِ خاص کے لیے بہتر پیشہ ورانہ مواقع کی راہیں ہموار ہوں گی۔‘‘
اگر کسی کو اپنی صنفی شناخت کو لے کر کوئی مسئلہ درپیش ہے یا پریشانی ہو رہی ہے تو ایسے لوگوں کے لیے تری نیتر کا مشورہ ہے کہ وہ اس کو اپنے اندر کسی قسم کے عیب سے تعبیر نہ کریں بلکہ اسے نعمت خداداد تصور کریں۔ وہ کہتی ہیں ’’دراصل یہ شخصی شناخت کی تعمیر کرنے کا سنہری موقع ہے،ایک ایسی شناخت جو معاشرےکے روایتی بندھنوں سے آزاد ہماری اپنی تعمیر کردہ ہے۔‘‘
مائیکل گیلنٹ نیو یارک سٹی میں مقیم مصنف، موسیقار اور ایک کاروباری پیشہ ور ہیں۔
تبصرہ