ماحول موافق تکنیک کے اثرات

یونیورسٹی آف یوٹا سے گریجویشن کرنے والے آکاش اگروال کی نیو لیف ڈائنا مِک ٹیکنالوجیز انڈیا کے دیہی اور دور دراز علاقوں میں مقیم کسانوں کے لیے گرین چِل نامی سسٹم پیش کرتی ہے جو بجلی کی روایتی فراہمی پر انحصار کیے بغیر کام کرنے والا ایک ریفریجریشن سسٹم ہے۔

پارومیتا پین

May 2020

ماحول موافق تکنیک کے اثرات

گرین چِل کولِنگ سسٹم کولڈ اسٹو ریج، پری کولر اور رائپیننگ چیمبر کے نظام کو بحال رکھنے میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ تصویر بشکریہ آکاش اگروال۔

عام طور پر  یہ ہوتا ہے کہ طلبہ کسی کورس کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ایک سال کا بریک لیتے ہیں مگر آکاش اگروال نے یونیورسٹی آف یوٹا میں پڑھائی کے دوران ہی شفاف توانائی سے کام کرنے والے ایک کولنگ سسٹم کو تیار کرنے کی غرض سے ایک برس کا بریک لیا۔ ماحول موافق تکنیک کا استعمال کرتے ہوئے سماجی کاروباری پیشہ ور ی میں ہمیشہ دلچسپی رکھنے والے اگروال نے ۲۰۱۱ء میں ہی گرین چِل کا خیال پالا تھا۔ اس کا تعلق بجلی کی روایتی فراہمی اور ڈیژل سے کام کرنے والے جنریٹروں پر منحصر رہے بغیر بایو ماس یا کھیتوں میں باقی رہ جانے والے فضلہ(جیسے پودوں کے ٹکڑے، گنے کے پھوک اور کسی بھی فصل کی باقیات ) کوا ستعمال کرکے زرعی پیداواروں کو ٹھنڈا رکھنے سے تھا۔

اپنی اعلیٰ تعلیم مکمل کرنے کی خاطر وہ پھر امریکہ گئے۔ اس تکنیک سے متعلق تحقیق کرنے والی اور اس کی بازارکاری کرنے والی نئی دہلی میں واقع کمپنی نیو لیف ڈائنا مک ٹیکنا لوجیز کے شریک بانی کے طور پر اگروال نے گرین چِل کو ہند کے طول و عرض  میں کامیابی کے ساتھ کھیتوں میں نصب کیا ہے۔ وہ بتاتے ہیں ’’ میرا تعلق یونیورسٹی آف یوٹا میں انڈر گریجویٹ ڈگری مکمل کرنے کے پہلے سے ہی زرعی صنعت سے رہا ہے۔ میں نے وسیع پیمانے پر بھارت کا دورہ کیا ہے ، ہزاروں کسانوں سے ملاقات کی ہے اور ان کی ضروریات اور دشواریوں کو سمجھنے کے لیے بڑے، درمیانی اور چھوٹے سائز کے کھیتوں کا سروے کیا ہے۔‘‘

نقصان سے حفاظت

یہ تکنیک ایک بہت ہی بنیادی مسئلے کو حل کرتی ہے۔  اور وہ ہے زرعی پیداوار کو ہونے والا نقصان جو اکثر کولڈ اسٹوریج کی سہولت کے فقدان کی وجہ سے ہوتا ہے۔ گرین چِل بنیادی طور پر چیزوں کو ٹھنڈا کرنے کا ایک نظام ہے ۔ مثال کے طور پر اس کے استعمال کی بدولت ایک ہزار لیٹر دودھ ٹھنڈا کیا جا سکتا ہے۔ اور اس طرح یہ کسانوں کی بہتر آمدنی کی وجہ بنتا ہے۔ اسی طرح اس تکنیک کا استعمال کرکے کسی کولڈ اسٹوریج ، پر ی کولر ، رائپیننگ چیمبر اور بَلک مِلک چیمبر (جہاں بڑی مقدار میں دودھ کو ٹھنڈا کیا جا سکتا ہے)کو چلانا ایک سستا متبادل ہو جاتا ہے۔ یہ خاص طور پر ان کھیتوں کے لیے مفید ہے جہاں بجلی یا تو دستیاب نہیں ہے یا جہاں اس کی مستقل فراہمی ممکن نہیں ہو پاتی۔ اس تکنیک کا ایک اور فائدہ یہ ہے کہ اس کے استعمال کی بدولت ماحولیات کے لیے مضر گیسوں کا اخراج بھی نہیں ہوتا ہے۔

اس تکنیک پر مبنی اپنے  پروجیکٹ کے بارے میں اگروال باخبر کرتے ہیں ’’ ہمارا پہلا پائلٹ پروجیکٹ دہلی کے غازی پور میں شروع ہوا جہاں ہم نے گائے کے گوبر سے پیدا کی گئی بجلی کا استعمال کرکے ۵۰۰ لیٹر دودھ کامیابی کے ساتھ ٹھنڈا کیا ۔ اس وقت سے لے کر اب تک بہت سارے کسانوں نے دودھ،سیب، انار، خربوزہ ، سنترا، کیلا، آم،ناشپاتی، شریفہ، لیمون ، آلو، شملہ مرچ، مٹر ، ہری مرچ اور گیندا کے پھول جیسی خراب ہوجانے والے مہنگی زرعی پیداوار کے تحفظ کے لیے اپنے کھیتوں میں گرین چِل سسٹم نصب کیا ہے۔‘‘

تبدیلی کی ترغیب

گرین چِل کے ابتدائی خیال کی ترغیب اگروال کو اترپردیش کے سہارنپور کے کسانوں سے ملی تھی جنہیں انہوں نے ٹرکوں کا انتظار کرتے دیکھا تھا جو ان کے دودھ کو وہاں سے ۵۰۔۴۰ کیلومیٹر دور واقع وہاں کے سب سے نزدیکی پروسیسنگ سینٹر میں لے جانے والے تھے۔ ان کسانوں کو آس پاس ایسی کوئی سہولت دستیاب نہیں تھی۔ و ہ بتاتے ہیں ’’ یہ دیکھ کر مجھے اس ’سپلائی چین لاجسٹک ‘ کو تبدیل کرنے اور ٹرکوں کی عدم دستیابی کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کو روکنے کے لیے کام کرنے کی تحریک ملی۔ ہم گاؤں میں ہی ایک ایسا ریفریجریشن سسٹم فروغ دینا چاہتے تھے جہاں کسان دودھ کو محفوظ رکھ سکیں ، اور جسے بعد میں یا اسی دن یا اگلے دن پروسیسنگ سینٹر لے جایا جا سکے۔ ’آف گرڈ بَلک مِلک چِلر‘ وہ پہلی مشین تھی جس میں گرین چِل ٹیکنالوجی کا استعمال کیا گیا۔ اس کے بعد اس ٹیکنالوجی کا استعمال دیگر مصنوعات کے لیے ’ آف گرڈ کولڈ اسٹوریج‘ بنانے میں کیا گیا۔

امریکہ کی خوردہ اشیاء فراہم کرنے والی شہرہ آفاق کمپنی وال مارٹ نے ۲۰۱۸ء میں اپنے معاشرتی ذمہ داری پروگرام کے تحت ’نیو لیف ڈائنا مک  ٹیکنالوجیز ‘کی  مالی امداد کی تھی۔ اس کا مقصد اترپردیش میں ۵۰۰ چھوٹے اور معمولی کسانوں کو ایک ساتھ لانا تھا تاکہ وہ قدرتی طور پر آم اور کیلے کو پکائیں اور وال مارٹ کے ’ بیسٹ پرائس اسٹورس‘ میں براہ راست اس کو بیچیں۔ اپنی پیداوار کی بہتر قیمت پانے میں اس نے کسانوں کی خاطر خواہ مدد کی۔

تکنیک کی مقامی سطح تک رسائی

ان معلومات کو فروغ دینے سے متعلق تحقیق کے بیشتر حصے تک رسائی بڑے ریفریجریشن سسٹم اور گرین ٹیکنالوجی کے موضوعات پر جرائد میں شائع مقالوں کی بدولت ہوئی۔ اگروال کی کمپنی نوئیڈا کے اپنے پلانٹ پر مختلف مصنوعات اور پرزوں کو ملا کر مشین کی شکل دیتی ہے جسے وہ مصنوعات سازی اور مزدوری کے بڑے اخراجات میں تخفیف کے لیے دیگر مقامی کمپنیوں کو آرڈر دے کر حاصل کرتی ہے۔ ہر مشین میں ضرورت کے مطابق کچھ نہ کچھ تبدیلی کی ضرورت پڑتی ہے ۔ ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کے اعتبار سے مشین کی قیمت ۱۲ لاکھ روپے سے ۱۴ لاکھ روپے تک ہوتی ہے۔ ان کے روابط بینکوں سے ہوتے ہیں جو ضرورت کے اعتبار سے کسانوں کو مالی وسائل فراہم کرتے ہیں۔

کووِڈ۔۱۹  کی وبا کے دوران ملک بھر میں کمپنی کی جانب سے خدمات فراہم کرنے والے ملازمین نے اپنے صارفین کے لیے خدمات کو برقرار رکھا ہے جنہیں گرین چِل کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔ اگروال کہتے ہیں ’’ ہم اس صورت حال کو ایک موقع سمجھ رہے ہیں تاکہ گرین چِل کو ایک نیا ڈیزائن دے سکیں تاکہ بحران ختم ہونے کے بعد ہماری دسترس میں ایک بہترین سسٹم ہو۔‘‘

اگروال اور ان کے والد کو ، جن کے ساتھ انہوں نے کمپنی قائم کی، گرین چِل کوفروغ دینے اور مشینیں نصب کرنے میں کافی مشکلات کا سامنا کر نا پڑا ۔ اگروال بتاتے ہیں ’’ کسانوں کو ایک ایسی مشین کے استعمال کے لیے راضی کرنا بہت مشکل ہوتا ہے جسے ان لوگوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا ہے۔ ہم نے ابتدائی منصوبوں کے لیے پیسے خود ہی لگائے تھےا ور اس وقت مشینوں کی لاگت موجودہ وقت کے مقابلے دو گنی  ہوا کرتی تھی۔‘‘

اگروال کہتے ہیں کہ یونیورسٹی آف یوٹا میں مینجمنٹ کی پڑھائی کے دوران ذاتی ملاقات  کے ذریعہ سامانوں کا فروخت کرنا ان کا پسندیدہ موضوع تھا۔ اس تعلیم نے انہیں سکھایا کہ صارفین کو کس طرح ایسی مصنوعات خریدنے کے لیے راضی کریں جنہیں انہوں نے پہلے نہ کبھی اور نہ کبھی ان کے بارے میں سنا تھا۔

گرین چِل کا استعمال آج نئی دہلی ، گجرات ، مہاراشٹر ،مدھیہ پردیش ، اتر پردیش ، پنجاب اور راجستھان میں کا جا رہا ہے۔ ہر مشین کا استعمال ۱۰۰۰ لیٹر دودھ اور جلد خراب ہونے والے پھلوں ، سبزیوں ، پھولوں اور مچھلیوں پر مشتمل قیمتی پیداوار کے ۲۰میٹرک ٹن وزن کو تب تک محفوظ رکھنے میں کیا جا سکتا ہے جب تک انہیں بازار یا پروسیسنگ سینٹر نہ بھیج دیا جائے۔ نیولائف ڈائنامک ٹیکنالوجیز کو حال ہی میں امریکہ۔ ہند سائنس اینڈ ٹیکنالوجی انڈومینٹ فنڈ (یو ایس آئی ایس ٹی ای ایف ) سے مالی اعانت ملی ہے ۔ امریکہ کے محکمۂ خارجہ اور بھارت کے ڈیپارٹمنٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی نے ۲۰۰۹ ء میں یہ فنڈ قائم کیا تھا تاکہ مشترکہ طور پر اطلاعاتی تحقیق اور ترقی کو فروغ دیا جا سکے۔ مذکورہ فنڈ امریکی اور بھارتی محققین اور کاروباری پیشہ وروں کے مابین شراکت داری کے  ذریعہ تیار کردہ ٹیکنالوجی کی تجارت کی بھی حمایت کرتا ہے ۔ اس کی سرگرمیوں کی دیکھ ریکھ ہند۔ امریکہ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فورم کرتا ہے۔ اگروال بتاتے ہیں کہ یو ایس آئی ایس ٹی ای ایف کے ذریعہ دی جانے والی مالی اعانت ’ اَیبزورپشن ریفریجریشن سسٹمس ‘  کے شعبے کے علم بردار جارجیا ٹیک (جارجیا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی ) کے ساتھ ہوئے ہمارے مفاہمت نامے کے مطابق ہے ۔ وہ کہتے ہیں ’’ یہ شراکت داری ہمیں گرین چِل کی مصنوعات کی آئندہ نسل کو فروغ دینے، اسے تیار کرنے کی لاگت میں کمی لانے اور اس تکنیک کو عوام تک پہنچانے میں مدد کرے گی۔‘‘

پارومیتا پین رینو میں واقع یونیورسٹی آف نیواڈا میں گلوبل میڈیا اسٹڈیز کی معاون پروفیسر ہیں۔



تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے