صاف و شفاف ہوا کے لیے اشتراک

سوسائٹی فار انڈور انوائرونمنٹ اور انڈیا میں امریکی سفارت خانے کے مابین ایک اشتراک آلودگی میں کمی اور صاف و شفاف ہوا کی امید جگاتا ہے۔

مائیکل گیلنٹ

September 2020

صاف و شفاف ہوا کے لیے اشتراک

مغربی بنگال کے شہر سِلّی گوڑی میں واقع یونیورسٹی آف نارتھ بینگال میں ایک چھوٹے موسم اسٹیشن کا قیام عمل میں آیا۔ ایسا بھارت کے امریکی سفارت خانہ اور سوسائٹی فار انڈور انوائرونمنٹ کے مابین اشتراک کی وجہ سے ممکن ہو سکا۔ تصویر بشکریہ سوسائٹی فار انڈور انوائرونمنٹ۔ 

فضائی آلودگی نے ہند میں ایک ایسے شدید اور مستقل مسئلہ کی شکل اختیار کر لی ہے جو لاکھوں لوگوں کی صحت کو متاثر کر رہی ہے۔لیکن ایک جدت طراز نئی شراکت داری مقامی سطح پر ہوا کے معیار کے تئیں بیداری پیدا کرکے اس سنگین مسئلے سے نمٹنے کے اشارے دے رہی ہے۔

ڈاکٹر ارون شرما نئی دہلی میں واقع غیر سرکاری تنظیم سوسائٹی فار انڈور انوائرونمنٹ کے صدر ہونے کے علاوہ ایک معالج اور صحت عامّہ کے شعبے میں پروفیسر بھی ہیں۔سنہ ۲۰۱۹ ء میں اگست  میں قیام کے بعد ان کی تنظیم نے ہند میں ملک گیر پیمانے پر کم قیمت کے ’ایئر مونیٹر اینڈ ویدر اسٹیشن ‘(موسم گاہ جہاںموسمی کیفیات پر نظر رکھی جاتی ہو اور موسمیاتی اعداد و شمار ریکارڈ کرنے کا بندو بست ہو)قائم کرنے کے لیے نئی دہلی کے امریکی سفارت خانہ کے ساتھ اشتراک کیا ۔ اس اشتراک کو مالی تعاون امریکہ کے ’کلائیمیٹ ٹرینڈس‘ نامی ادارے سے حاصل ہوا۔ ڈاکٹر ارون شرما بتاتے ہیں کہ اس کا مقصد شمالی ہند میں چھوٹی اور درمیانی درجے کی برادریوں سے ہوا کے معیار کے بارے میں گراں قدر اعداد وشمار یکجا کرنا ، صحت عامہ سے متعلق اہم مسائل کے بارے میں بیداری پید ا کرنااور ایک مثبت تبدیلی کے لیے صلاحیت سازی کی تشکیل کرنا تھا۔

اس شراکت داری کی داغ بیل اس وقت پڑی جب امریکی ایجنسی برائے عالمی ترقی(یو ایس ایڈ )نے ڈاکٹر ارون شرما کو امریکی سفارت خانہ کے ایک پروگرام میں فضائی آلودگی اور صحت کے موضوع پر بات کرنے کی دعوت دی۔ اس کے بعد سفارت خانہ کے عہدیداروں اور یوایس ایڈ کے عملہ نے ڈاکٹر شرما کی تجربہ گاہ کا دورہ کیا ۔ اسی دوران ملک میں ہوا کے معیار کی نگرانی کے لیے ایک ساتھ کام کرنے کے خیال نے جنم لیا۔

ڈاکٹر شرما اس بارے میں بتاتے ہیں ’’ہمارے ملک کے چھوٹے شہروں اور دیہی علاقوں میں انسانی صحت پر فضائی آلودگی کے اثرات سے متعلق بیداری اطمینان بخش نہیں ہے۔ لہٰذا امریکی سفارت خانہ کی معاشی، ماحولیاتی ، سائنسی اور تکنیکی امور سے متعلق ٹیم نے ساتھ میں کام کرنے کی تجویز رکھی۔ ہواکے معیار کی نگرانی کو عوامی بیداری کے پروگرام کے ساتھ منسلک کیا جا سکتا ہے۔ اس کام کے لیے امریکی سفارت خانہ نے ہمیں سستے ایئر مانیٹر اورویدر اسٹیشن دستیاب کرانے کی پیشکش کی۔‘‘

ڈاکٹر شرما کے منصوبے میں چھوٹے شہروں کے تعلیمی اداروں میں ہوا کی نگرانی کرنے والے آلات کا نصب کیا جانا شامل تھاجہاں ہوا کے معیار جیسے معاملات کی معلومات عام نہیں ہے۔ایسی جگہوں میں طلبہ اور اساتذہ کو اس موضوع سے متعلق سیکھنے کے مواقع بھی پہلے سے دستیاب نہیں ہیں۔ ہوا کی نگرانی سے متعلق اس آلے کو سب سے پہلےریاست راجستھان کے شہر جودھپور کے لچھو میموریل کالج آف سائنس اینڈٹیکنالوجی میں نصب کیا گیا جہاں سوسائیٹی فار انڈور انوائرونمنٹ کی ڈاکٹر شرما کی ٹیم نے ایک ورکشاپ کا بھی اہتمام کیا۔

ڈاکٹرشرما اس ورکشاپ کے بارے میں مزید کہتے ہیں ’’اس میں۳۰۰ طلبہ اور اساتذہ نے شرکت کی۔ یہ ورکشاپ اس طور پر کامیاب رہا کہ اس سے لوگوں کے درمیان بڑی بیداری پیدا ہوئی۔ اس میں شریک ہونے والے طلبہ میں سے زیادہ کی عمر ۱۶ سے ۲۰ برس کے درمیان تھی ۔ یہ لوگ بڑے تحقیق پسند اور متجسس واقع ہوئے ۔ وہ پروگرام میں متوجہ رہے۔ شعبۂ علم ِ حیوانات اور ماحولیات کے اساتذہ اور طلبہ نے موسمی اعداد وشمار کی نگرانی کے پروجیکٹ میں دلچسپی لی۔ سینسر کے ذریعہ یکجا کیے گئے یہ اعداد وشمار ہر ماہ ہمارے پاس تجزیے کے لیے بھیجے جاتے رہے۔‘‘

اس کے بعد دیگر اداروں تک رسائی کو ممکن بنایا گیا ۔ ڈاکٹر شرما کی ٹیم نے اتر پردیش، ہریانہ، مغربی بنگال، پنجاب، چنڈی گڑھ اور دیگر علاقوں میں اس آلے کو نصب کیا اور کالجوں کےطلبہ کے ساتھ کام کیا۔ ڈاکٹر شرما کہتے ہیں ’’اب تک ہم لوگوں نے۹ مقامات پر ان آلات کو نصب کیا ہے ۔ ۷ دیگر مقامات پر اسے نصب کرنے کا منصوبہ ہے لیکن کووِڈ۔۱۹ (پابندی)کی وجہ سے اب تک ہم لوگ مزید پیش رفت نہیں کر پائے ہیں۔‘‘

کورونا وباکے سبب پروجیکٹ رکنے سے پہلے ڈاکٹر شرما پروگرام کی پیش رفت سے کافی خوش تھے ۔ ان کے اس پروگرام میں ایک پہل وہ بھی تھی جس کے تحت طلبہ نے فضائی آلودگی سے منسلک دائمی بیماریوں کے بارے میں سماجی اراکین سے سوالات کرنے کے لیے ہر گھر کا سروے کیا تھا۔ڈاکٹر شرما اور ان کی ٹیم کے منصوبے میں مقامی سینسر اور ویدر اسٹیشن کے ذریعہ یکجا کیے گئےاعداد و شمار کے سیاق و سباق میں ان جائزوں سے ملنے والے نتائج کا تجزیہ شامل تھا تاکہ ہوا کے معیار اور انسانی صحت کے درمیان رشتے کو مزید بہتر طور پر سمجھا جاسکے۔

معلومات یکجا کرنے اور اس سے متعلق علم حاصل کرنے کے علاوہ ڈاکٹر شرما کا مقصدیہ بھی ہے کہ ان کی یہ کوششیں فضائی آلودگی کے خلاف اس جنگ میں ملک کے شہریوں کو بھی شریک کریں۔وہ کہتے ہیں ’’میں جس چیز کو دیکھ رہا ہوں وہ اس کا چھوٹے پیمانے پر اثر ہے ۔ ایک بہت بڑی آبادی والے ملک میں حکومت کے لیے ہوا کو صاف کرنے میں تمام وسائل کو لگا دینا ممکن نہیں ہے۔ اس کام میں ملک کے شہریوں کی شراکت داری ضروری ہے۔‘‘

ڈاکٹر شرما کہتے ہیں’’جب لوگوں میں کسی مسئلے کے بارے میں بیداری آتی ہے تووہ اس کے تعلق سے کچھ کرنے کے لیے بااختیار ہوتے ہیں۔ جن طلبہ کے ساتھ ہم لوگ کام کرتے ہیں وہ تبدیلی لانے والے ایجنٹ ہیں جو ان پیغامات کو اپنے گھروں تک لے کر جائیں گے اور پھر روزانہ کی ان مشقوں میں وہ تبدیلی لائیں گے جو فضائی آلودگی کا سبب ہیں۔‘‘

بھارت میں فضائی آلودگی کے اسباب کا تعلق معاشرے کی سطح پر مختلف قسم کے ذرائع سے ہے ۔ بہت سارے دیہی علاقوں میں قابل اعتماد بجلی کی فراہمی کے لیے بنیادی ڈھانچے کی کمی ہے۔ اس طرح وہاں رہنے والے جنریٹر میں ڈیزل کا استعمال کرتے ہیں جس سے آلودگی پیدا ہوتی ہے ۔ اسی طرح لکڑی اور دیگر حیاتیاتی ایندھن والے اسٹوو خوب استعمال کئے جاتے ہیں جو فضائی آلودگی میں مزید اضافہ کرتے ہیں۔ ڈاکٹر شرما کہتے ہیں’’حکومت گھروں میں کھانا پکانے کے لیے سلنڈروں میں مائع پٹرولیم گیس کے استعمال کو فروغ دینے کی کوشش کررہی ہےکیوں کہ یہ زیادہ صاف و شفاف ہے اور لکڑیوں اور کوئلوں کو جلانے سے پیدا آلودگی کی بہ نسبت کم آلودگی کا سبب بنتی ہے۔ اگر طلبہ کو یہ معلوم ہو جائے کہ وہ کون سے اسباب ہیں جن سے آلودگی پیداہوتی ہے تو وہ اپنے کنبوں کے ذریعہ کیے جانے والے کاموں یا کاروبار سے متعلق ان کی سرگرمیوں میں مثبت تبدیلی لا کر ان معلومات کو ایک با معنی شکل دے سکتے ہیں۔‘‘

کووِڈ۔۱۹ کے سبب مارچ ۲۰۲۰ ءمیں جب ملک میں تالہ بندی ہوئی تو کالج اور یونیورسٹیاں بند کر دی گئیں جس کی وجہ سے ڈاکٹر شرما اور سوسائٹی فار انڈور انوائرونمنٹ کے ان کے ساتھیوں کو شراکت دار اداروں سے اعداد و شمار ملنے بند ہوگئے۔ وہ کہتے ہیں’’ہمارا منصوبہ پورے ایک سال اعداد شمار یکجا کرنا اور زمین کے مختلف استعمال ، مختلف جغرافیائی حالات اور مختلف قسم کے موسم کے خلاف اس کاموازنہ کرنے کاتھا۔ یہ مسرت کا مقام ہے کہ امریکی سفارت خانہ نے ہمیں اس سلسلے میں مزید ایک برس کی توسیع کی اجازت دے دی تاکہ ہم اعداد وشمار یکجا کرسکیں اور اس دلچسپ کام کو مکمل کر سکیں۔‘‘

مائیکل گیلنٹ،گیلنٹ میوزک کے بانی اور سی ای او ہیں۔ وہ نیو یارک سٹی میں رہتے ہیں۔



تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے