امریکہ میں نسوانی کالج بہت اہمیت کے حامل ہیں کیوں کہ یہاں سے نہ صرف غیر معمولی خاتون قائدین فارغ التحصیل ہوتی ہیں بلکہ ایسے کالج صنفی مساوات کے علم بردار بھی ہیں ، نیز ان کالجوں میں خواتین کو تعلیم کے محفوظ مواقع بھی حاصل ہوتے ہیں۔
May 2024
امریکہ کے نسوانی کالج طلبہ کو ایک محفوظ اور آرامدہ ماحول فراہم کرتے ہیں تاکہ وہ اپنی پسند کے شعبوں میں ترقی کریں اور نام پیدا کریں۔ (تصویر بشکریہ برنارڈ کالج)
امریکہ میں خواتین کے کالجوں کی مساوات اور رسائی کی ایک طویل تاریخ ہے۔ ۱۹ ویں صدی عیسوی میں جب خواتین نے اعلیٰ تعلیم کی طرف زیادہ توجہ دینی شروع کی تو ان پر ایک حقیقت آشکار ہوئی کہ امریکی کالجوں میں سے صرف ۳۰ فی صد اداروں ہی میں مخلوط تعلیم کی سہولت دستیاب ہے۔ جبکہ کثیر تعداد ایسے کالجوں کی تھی جن میں صرف مرد ہی تعلیم حاصل کر سکتے تھے۔ لہٰذا خواتین کی تعلیم کے لیے فکر مند اورپیش قدمی کرنے والے افراد نے نسوانی کالج قائم کرنا شروع کیے جہاں کا نصاب اسی قدر مشقت کا متقاضی تھا جیسا کہ خاص مردوں کے تعلیمی اداروں والا نصاب۔
نسوانی کالج کے اتحاد کے مطابق ۱۹۶۰ء کی دہائی کے مقابلے (جب نسوانی کالجوں کی تعداد ۲۰۰ سے بھی زیادہ ہوا کرتی تھی) آج ملک بھر میں محض ۳۰ ایسے کالج موجود ہیں ۔ انجلی آنند سیٹھ، جو ریاست جارجیا میں واقع ویزلیئن کالج میں بین الاقوامی داخلہ جات کی ایسوسی ایٹ وائس پریسیڈنٹ ہیں، کہتی ہیں ’’تعداد میں کمی کے باوجود خواتین کے کالج آج کے مقابلے کبھی زیادہ موزوں نہیں رہے کیوں کہ خواتین اور صنفی اقلیتوں کو ہنوز معاشرتی رکاوٹوں اور گہرے تعصبات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘‘ واضح رہے کہ ویزلیئن کالج کو امریکہ میں خواتین کی تعلیم کا پہلا کالج ہونے کا شرف حاصل ہے۔
رابطہ کاری کا قیام اور قیادت کی تشکیل
آج کالج برائے نسواں میں خواتین خود کو محفوظ محسوس کرتی ہیں ۔ ایسے کالجوں میں انہیں اپنی شخصیت کی تعمیر اور اپنے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرنے کا پورا پورا موقع میسر ہوتا ہے۔ کولکاتہ سے تعلق رکھنے والی اور ماؤنٹ ہولیوک کالج سے فارغ التحصیل اشیتا ٹبریوال اپنا تجربہ بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں ’’جیسے ہی میں نے کالج کے کیمپس میں قدم رکھا میرا سابقہ ایک ایسی کمیونٹی سے پڑا جو تربیت فراہم کرنے کے علاوہ با اختیار بنانے والی بھی تھی ۔ یہ ایسی جگہ تھی جہاں طلبہ کے درمیان دوستی اور ہم آہنگی بالکل واضح تھی۔ ‘‘
ہم خیال خواتین کے ساتھ تعلیم حاصل کرنے کا اپنا لطف ہے۔ آپ کو اپنے ہم عصروں اور اتالیقوں سے مدد ملتی ہے۔ اس طرح کے ماحول سے طالبات خود کو بااختیار محسوس کرتی ہیں جس سے ان کے اندر خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے اور وہ اپنے منتخب تعلیمی میدان میں شاندار کارگردگی انجام دیتی ہیں۔
ان اعلیٰ تعلیمی اداروں کا مطمح نظر خواتین کو قائدانہ کرداروں کے لیے تیار کرنا بھی ہے۔ ان میں کئی کالجوں کے نصاب اور مراکز میں قائدانہ تربیت اور وسائل شامل ہیں۔
ٹبریوال طلبہ۔کھلاڑی مشاورتی کمیٹی کی رکن رہی ہیں۔وہ کیمپس میں مختلف النوع کاموں میں مصروف رہ چکی ہیں۔ انہوں نے قومی کولیجیٹ کھلاڑی ایسو سی ایشن (این سی اے اے) اور طلبہ۔ کھلاڑی کانفرنسوں میں شرکت کی اور امریکی اوپن ٹینس چمپئن شپ میں انٹرن شپ بھی کی۔ وہ کہتی ہیں ’’ہر ایک تجربے نے میری ذاتی ترقی میں اہم کردار ادا کیا اور اس نے مجھے میرے موجودہ کردار کے لیے تیار کیا۔‘‘
ماؤنٹ ہولیوک کالج سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد ٹبریوال نے ایمہرسٹ میں واقع یونیورسٹی آف مسا چیوسٹس کے مارک ایچ میک کارمیک شعبہ برائے اسپورٹ مینجمنٹ میں داخلہ لیا اور وہاں ۲۰۲۳ ءتک زیر تعلیم رہیں۔ فی الوقت ٹبریوال نیشنل ایسوسی ایشن فار کالجیٹ ڈائریکٹرس آف ایتھلیٹکس میں بطور مارکٹنگ ڈائریکٹر اور اسپانسرشپ تجزیہ کار کام کر رہی ہیں۔
نسوانی کالجوں میں مضبوط رابطہ کاری کی بدولت خواتین اپنے کریئر میں کامیابی کی منازل طے کر رہی ہیں۔ ان میں اسٹیم شعبہ جات سے متعلق مضامین بھی شامل ہیں جن میں روایتی طور پر خواتین کی نمائندگی بہت کم ہے۔ اس کی ایک بہترین مثال سنیتا کرشنن ہیں۔ سنیتا وبائی امراض کی ماہرہ ہیں جنہوں نے۱۹۹۲ء میں برنارڈ کالج سے فراغت حاصل کی۔ فی الوقت وہ بِل ایند ملنڈا گیٹس فاؤنڈیشن کے ہندوستان دفتر میں لائحہ عمل، پورٹفولیو انصرام اور تشخیص کی نائب ڈائریکٹر ہیں۔
کرشنن برنارڈ کالج کی بہت ساری خصوصیات بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں ’’کلاسوں میں طالبات کی کم تعداد، طالبات کے لیے وقف اساتذہ اور ان کے ساتھ فرداً فرداً مشاورت، لیب کی سہولت وغیرہ۔ ان سب سے میرے اندر خود اعتمادی پیدا ہوئی اور میں اپنے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرپائی۔‘‘
کرشنن کے تعلیمی سفر میں برنارڈ کالج میں موجود رابطہ کاری کی سہولت نے بہت اہم کردار نبھایا۔ ان کہنا تھا ’’جب میری سال اوّل کی سیمینار پروفیسر کو معلوم ہوا کہ میری دلچسپی وبائی امراض میں ہے تو انہوں نے مجھے عشائیہ پر مدعو کیا جہاں ان کے شوہر (جو کہ آگے چل کر ہارورڈ اسکول برائے صحت عامّہ کے ڈین بنے) اور کولمبیا یونیورسٹی کے دیگر دو اور وبائی امراض کے اساتذہ بھی موجود تھے۔ لہٰذا سینئر سال میں میں نے وبائی امراض کے کورس کو منتخب کیا اور بالآخر برکلے یونیورسٹی سے وبائی امراض میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔‘‘
بعض تحقیقات سے معلوم ہوتا ہے کہ نسوانی کالجوں سے فارغ التحصیل طالبات کامیابی کے ساتھ قائدانہ کردار نبھاتی ہیں نیز وہ نجی کمپنیوں کے بورڈ روم، حکومتی محکمہ جات، سائنس، تخلیقی صنعت بلکہ دیگر شعبوں میں بھی بہت شاندار خدمات انجام دے رہی ہیں۔ سیٹھی کہتی ہیں ’’لہٰذا یہ دعویٰ قطعاً مبالغہ آرائی پر مبنی نہیں کہ کالج برائے نسواں خواتین کو تعلیم حاصل کرنے کے لیے محفوظ ماحول فراہم کرتے ہیں تاکہ وہ دنیا میں مثبت تبدیلی لانے کی اہل بن سکیں۔‘‘
ڈیبورا روزاریو ممبئی میں واقع ایجوکیشن یو ایس اے دفتر میں بحیثیت سینئر مشیر تعینات ہیں۔
اسپَین نیوزلیٹر کو اپنے میل پر مفت منگوانے کے لیے لنک پر کلک کریں اور مختصر سا فارم بھریں: https://bit.ly/SubscribeSPAN
تبصرہ