پوجا راناڈےجو کہ ایک معلمہ اور ثقافتی سفیر ہیں، ریاستہائے متحدہ امریکہ میں اپنی فلبرائٹ فیلوشپ کے دوران تعلق قائم کرنے اور دیرپا رشتے استوار کرنے میں مدد کرتی ہیں۔
September 2021
پوجا راناڈے امریکی ریاست انڈیانا کے ساؤتھ بینڈ میں واقع نیونر فائن آرٹس اکیڈمی میں گریڈ ۲ طلبہ کے ساتھ۔ تصویر از میرانڈا بلینکین بیکر۔
امریکہ کے تعلیمی اداروں میں طلبہ کو ہندی پڑھانا اور ثقافتی طریقوں کے بارے میں معلومات کا اشتراک کرنا انگریزی کی اسسٹنٹ پروفیسر پوجا سنیل راناڈے کے تجربات کی تکمیل کر رہا ہے۔ ادبی ثقافتی مطالعات اور خارجہ امور میں ان کی دلچسپی نےثقافتی سفارت کاری کو فروغ دینے کی خاطر فلبرائٹ فارن لینگویج ٹیچنگ اسسٹنٹ (ایف ایل ٹی اے ) پروگرام کے لئے درخواست دینے کی ان کی حوصلہ افزائی کی ۔ اس موقع نے انہیں انڈیانا تک پہنچایا۔
راناڈے یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں ’’یونیورسٹی آف نوٹری ڈیم ، انڈیانا کے جنوبی بنڈ کے وسط مغربی قصبے میں واقع ہے۔ یونیورسٹی کی ٹیم نے گرمجوشی اور فیاضی کا مظاہرہ کیا اور اس نے مجھے امریکی تعلیمی اور پیشہ ورانہ اخلاقیات سے ہم آہنگ ہونے میں مدد کی۔‘‘
راناڈے اور ان کے ساتھیوں نے ابتدائی طور پر اوپن ہاؤسز اور ورکشاپس کا انعقاد کرکے طلبہ میں دلچسپی پیدا کی۔وہ بتاتی ہیں ’’شروعات سے پڑھانا شروع کرنا ایک چیلنج تھا لیکن مجھے مخلص طلبہ کا ساتھ ملا۔ وہ بھارت کے بارے میں جاننے کے لیے بیتاب تھے اور ہندی میں حقیقی دلچسپی پیدا کی، جس کی وجہ سے وہاں ایک ناقابل یقین تجربہ ہوا۔‘‘
تدریس کے علاوہ، راناڈے نے ریاستہائے متحدہ امریکہ میں اپنے قیام کے دوران جو کچھ کرنے کی کوشش کی اس کا ایک بڑا حصہ تنوع کےتصورات اور لوگوں کو ثقافتی طور پر شامل کرنا تھا۔ وہ کہتی ہیں’’زیادہ تر (بھارتی دقیانوسی تصورات) لاعلمی سے پیدا ہوتے ہیں۔ ’’ لہٰذا میرا مقصد لوگوں کو ایسی سرگرمیوں میں شامل کرنا تھا جو بھارت کے بارے میں مزید تازہ ترین تفہیم کا اشتراک کرتے ہیں۔‘‘
انہوں نے بہت سے امریکی طلبہ کو ہندی اور دیگربھارتی زبانوں کے بارے میں متجسس پایا جس کی وجہ امریکہ میں بھارتی تارکین وطن کی بڑی تعداد اور ملک کے ساتھ بھارت کے قریبی رشتے ہیں۔ وہ بھارتی روایات اور ثقافت کو بھی سمجھنا چاہتے ہیں، جو روایتی طور پر پاپ کلچر میں دکھایا گیا ہے۔
راناڈے کہتی ہیں ’’میرے طلبہ میرے مضبوط ترین حلیف بن گئے۔ وہ ہماری (بھارتی)ثقافت اور طرز زندگی کو سمجھنے کے مشتاق تھے اور یہاں تک کہ اپنے والدین کو بھارت کے بارے میں ان کے خیالات کو درست کیا۔ جب مقامی کنبوں نے مجھے ان کی تقریبات جیسے کہ تھینکس گیونگ، کرسمس اور ایسٹر کا حصہ بننے کے لیے مدعو کیا تو یہ ایک موقع تھا کہ میں زیادہ سے زیادہ لوگوں سے ملاقات کروں اور بھارت کے بارے میں ان کے یکساں تاثرات اگر کچھ ہوں تو اسے درست کروں۔‘‘
ہندی سیکھنے کا انتخاب کرتے وقت وہ کہتی ہیں’’میرے نوٹرے ڈیم کے کچھ طلبہ سوشل سائنس اور ادبی علوم کی تعلیم حاصل کر رہے تھے اور وہ ہمارے متمول ورثے اور تاریخ کے لیے بھارت کے بارے میں جاننا چاہتے تھے۔ دوسری طرف، ایس ٹی ای ایم کے طلبہ ٹیکنالوجی کے شعبے کا دورہ کرنے، بھارت کے طبی خیراتی اداروں میں کام کرنے یا قرون وسطی کے بھارتی فن تعمیر کا مطالعہ کرنے میں دلچسپی رکھتے تھے۔چوں کہ یہ ایک متنوع گروپ تھا، اس لیے ہماری کلاسز متحرک، مواد پر مبنی اور تمام طلبہ کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیےتیار کی گئی تھیں۔‘‘
نوٹرے ڈیم میں اپنے دورکے دوران راناڈے نے کلے انٹرنیشنل اکیڈمی اور نونر فائن آرٹس اسکول میں بنیادی ہندی بھی پڑھائی۔ راناڈے کنڈرگارٹن سے چھٹی جماعت تک سینکڑوں طلبہ اور اساتذہ کے ساتھ بات چیت کر سکتی تھیں ۔ انہوں نے ان کے ساتھ بھارتی تاریخ، موسیقی، آرٹ اور ہندی زبان کا اشتراک کیا ۔ انہوں نے بھارت کے دیگر خطوں اور ثقافتوں کے بارے میں بھی معلومات شیئر کرنے کی کوشش کی۔ وہ بتاتی ہیں ’’یہ ایک انوکھا اور جذباتی تجربہ ثابت ہوا۔ میرے نوجوان امریکی طلبہ، جن کا تعلق کام کرنے والے طبقے کے کنبوں سے تھا اور وہ امریکہ سے باہر نہیں گئے تھے، اتنے پرجوش اور پیارکرنے والے تھے کہ وہ انڈیانا چھوڑکر سال کے اختتام پر بھارت چلے جانا چاہتے تھے!‘‘
فلبرائٹ فیلو کے طور پر راناڈے نے ایک ثقافتی سفیر کا رول بھی ادا کیا۔ انہوں نےبھارتی تہواروں جیسے دیوالی، عید، ہولی اور کرسمس وغیرہ کی میزبانی کی۔ انہوں نے پنورما فیسٹیول کے انعقاد میں بھی مدد کی، جہاں انہوں نے تمام ممالک میں ثقافت کے سلسلے میں تعصبات سے متعلق مباحثوں کی میزبانی کی۔
راناڈے کا ماننا ہے کہ بھارتی ثقافت کے بارے میں اب بھی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔ تاہم وہ کہتی ہیں’’گذشتہ بیس برسوں میں بھارت میں کافی تبدیلی آئی ہے۔ تعلیمی ڈھانچے ۲۱ویں صدی کے بھارت کے بارے میں زیادہ قابل احترام اور باخبر ہیں۔ پھر بھی، کچھ لوگ بھارت کو فلموں اور میڈیا کی تصویر کشی سے پیدا ہونے والے دقیانوسی تصورات کے ساتھ جوڑتے ہیں، جن میں صنف اور طبقے، کھانے کی عادات، یا یہ کہ تمام بھارتی صرف اطلاعاتی ٹیکنالوجی کا مطالعہ کرتے ہیں، جیسے امور شامل ہیں۔‘‘َ
راناڈے کا احساس ہے کہ مواصلاتی خلاء کو دور کرنے کے لیے مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔ تاہم، وہ مانتی ہیں کہ ثقافتی پروجیکٹوں کے اشتراک اور علمی تبادلے کو فروغ دینے سے روایتی بھارتی ثقافت کے امتزاج کو اجاگر کیا جا سکتا ہے۔
ایف ایل ٹی اے کے شرکاء ایک امریکی یونیورسٹی میں مادری زبانیں پڑھاتے ہیں اور اپنی متعلقہ ثقافتوں کے بارے میں معلومات ساجھا کرنے میں مدد کرتے ہیں۔بھارتی شرکاء ہندی یا اردو سکھاتے ہیں۔ راناڈے نے ۲۰۱۸ء اور ۲۰۱۹ءمیں نوٹرے ڈیم یونیورسٹی میں ہندی پڑھائی۔
رنجیتا بسواس کولکاتہ میں مقیم صحافی ہیں جو افسانوی ادب کا ترجمہ کرنے کے علاوہ مختصر کہانیاں بھی لکھتی ہیں۔
تبصرہ