خلائی ڈیٹا سے حل کی تلاش

ہندوستان کی ان دو ٹیموں سے ملیں جن کی دلکش تصویریں ناسا، یو این وی آئی ای اور یو این او او ایس اے کے زیر اہتمام منعقد پیل بلیو ڈاٹ: ویژولائزیشن چیلنج میں توجہ کا مرکز بنے۔

دیپانجلی ککاتی

June 2024

خلائی ڈیٹا سے حل کی تلاش 

’پیل بلیو ڈاٹ‘ کے شرکاء: تصوراتی چیلنج نے عوامی طور پر دستیاب خلائی ڈیٹا کا استعمال کرتے ہوئے ایسے تصوارت کی تخلیق کی جس سے پائیدار ترقی کے اہداف جیسے کہ موسمیاتی کاروائی، صاف پانی اور بھوک کے خاتمے کی حمایت کی جاسکے۔(ٹرف/شٹراسٹاک ڈاٹ کام/اس تصویر کے عناصر ناسا نے بہم پہنچائے)

دنیا کو موسمیاتی تبدیلی، پانی اور خوراک کی کمی جیسے فوری چیلنج درپیش ہیں ۔ فضائے بسیط سے حاصل کردہ زمین کے مشاہدے کے اعداد وشمار ان مسائل سے نمٹنے کا ایک اہم وسیلہ ہیں۔ سٹیلائٹ کی تصاویر پر مشتمل یہ اعداد وشمار فضا، سمندر، ماحولیاتی نظام، زمینی احاطہ اور شہری علاقوں کے بارے میں درست اور عوامی طور پر قابل رسائی معلومات پیش کرتے ہیں ۔

نومبر ۲۰۲۳ء میں ایک بین الاقوامی مقابلہ شروع کیا گیا تھا تاکہ زیادہ متنوع سامعین کو یہ سیکھنے میں مدد ملے کہ خلا سے حاصل شدہ اعداد وشمار کے ذریعے حقیقی دنیا کے مسائل سے کیسے نمٹا جائے۔ نیشنل ایروناٹکس اینڈ اسپیس ایڈمنسٹریشن (ناسا) اور یو ایس مشن ٹو انٹرنیشنل آرگنائزیشنس ان ویانا (یو این وی آئی ای) نے یونائیٹڈ نیشنس آفس فار اوٹر اسپیس افیئرس (یو این او او ایس او) کے تعاون سے پیل بلیو ڈاٹ: ویژولائزیشن چیلنج تیار کیا تھا۔

جنوری ۲۰۲۴ء میں ختم ہونے والے ورچوئل چیلنج نے ۱۰۰ ملکوں کے تقریباً ۱۶۰۰ شرکاء کو اپنی طرف متوجہ کیا، جن میں سے ۷۰ فی صد شرکاء کو زمین کے مشاہدے کے اعداد و شمار کا کوئی پیشگی تجربہ نہیں تھا۔ انہوں نے صفر بھوک، صاف پانی اور آب و ہوا کی کارروائی جیسے پائیدار ترقیاتی اہداف (ایس ڈی جی ایس) کی حمایت میں تصویر کشی کی ۔ ہر اندراج میں ایک تصوراتی تصویر اور اس کے حقیقی دنیا اور اخلاقی مضمرات کی وضاحت شامل تھی۔ ماہر ججوں نے اثرات، دیانتداری، تکنیکی محنت، استعمال اور تعبیر پذیری کی بنیاد پر فاتحین کا انتخاب کیا۔

ہندوستان کی دو ٹیموں نے ان کے دلکش تصاویر کی وجہ سے خصوصی توجہ حاصل کی۔ راوینشا یونیورسٹی کی ٹیم نے اسسٹنٹ پروفیسر ججناسینی راؤت اور پی ایچ ڈی ریسرچ اسکالر دیبیا جیوتی موہنتی کی قیادت میں مشرقی ہندوستان میں برہمنی۔بیترنی ندی کے طاس میں ہائیڈرو۔کلائمیٹک تغیر پذیر ہاٹ اسپاٹس کا مطالعہ کیا۔ اسٹار میپ نیویگیٹر نے نوشین فاطمہ خان، مانہوی یادو اور ابھیجیت کمار کی قیادت میں کرہ ارض کا ایک تھری ڈی ویژولائزیشن تیار کیا جو پچھلے ۴۰ سال میں درجہ حرارت، بارش اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں اضافے کو ظاہر کرتا ہے۔ انہوں نے ایک ٹو ڈی گراف بھی بنایا جس میں تقریباً ۷۵ ممالک کا ۱۹۸۱ ءسے ۲۰۲۲ ءتک کا سالانہ ڈیٹا دکھایا گیا ہے۔ خان، یادو اور کمار اترپردیش کے گریٹر نوئیڈا میں آئی آئی ایل ایم یونیورسٹی میں کمپیوٹر سائنس میں انڈرگریجویٹ کی پڑھائی کر رہے ہیں۔

راوینشا یونیورسٹی

ہائیڈرو کلائیمیٹک تغیر پذیری سے مراد وقت کے ساتھ پانی سے متعلق آب و ہوا کی نوعیتوں میں ہونے والی تبدیلیاں ہیں۔ اس میں بارش، ندیوں کے بہاؤ اور آب و ہوا کے عوامل سے متاثر پانی کے دورانیے کے دیگر پہلوؤں میں ہونے والے تغیرات شامل ہیں۔ ماحولیاتی وسائل کے انصرام اور موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے لیے ان تغیرات کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔

راؤت اور موہنتی کا کہنا ہے ’’ہمارا پروجیکٹ برہمنی۔بیترنی ندی کے طاس میں۲۰۰۰ ء سے ۲۰۲۲ءتک ماہ وار ہائیڈرو۔کلائمیٹک تغیر پذیر ہاٹ اسپاٹ خطوں کا تعین کرتا ہے، ان علاقوں کی نشاندہی کی جاتی ہے جن میں اوسط اقدار سے سب سے زیادہ موسمیاتی تبدیلی ہوتی ہے۔ ہم نے درجہ حرارت، بخارات کا دباؤ اور بارش جیسے معیارات کا طویل مدتی ماہانہ ڈیٹا استعمال کیا ہے۔‘‘

ٹیم کی تحقیق برہمنی۔بیترنی ندی کے طاس میں ہائیڈرو کلائمیٹک تغیرات کو سمجھنے کے لیے اہم ہے، خاص طور پر موسمیاتی کارروائی پر ایس ڈی جی ۱۳ اور صفر بھوک پر ایس ڈی جی ۲ کو۔

راؤت اور موہنتی کے پائلٹ لٹریچر کے جائزے سے پتہ چلتا ہے کہ برہمنی۔بیترنی ندی کے طاس نے انسانی سرگرمیوں، بالخصوص کان کنی ، صنعت کاری اور زراعت کی وجہ سے اپنے ماحول میں غیر معمولی تبدیلیاں دیکھی ہیں۔ ان کا کہنا ہے ’’اس کی وجہ سے آبی وسائل کا زیادہ سے زیادہ اخراج ہوا ہے، جس سے زیر زمین سطح آب میں کمی واقع ہوئی ہے اور ندیوں کا بہاؤ کم ہوا ہے۔ یہ ماحولیاتی چیلنجز آب و ہوا کے تغیرات سے جڑے ہوئے ہیں، جس کے نتیجے میں بے قاعدہ بارش اور انتہائی موسمی واقعات رونما ہوتے ہیں جن سے ندیوں کے طاس پر منحصرطبقات کا ذریعہ معاش متاثر ہوتا ہے۔‘‘

ٹیم کا کہنا ہے کہ وہ پیل بلیو ڈاٹ: ویژولائزیشن چیلنج میں حصہ لینے پر کافی پُرجوش تھی اور اس نے ان کے اسپیشیل ڈیٹا کے تجزیہ کی مہارت کو بڑھانے میں مدد کی۔ وہ کہتے ہیں ’’ہم نے اس بارے میں بصیرت حاصل کی کہ ناسا کس طرح ایک تنظیم کے طور پر کام کرتا ہے ،نیز اس کی ترجیحات اور طریقہ کار کو سمجھا۔ مقابلے نے ہمیں مسائل کے حل کے لیے اختراعی سوچ کو استعمال کرنے کی ترغیب دی اور ہمیں عالمی چیلنجوں کے لیے تخلیقی حل تیار کرنے پر مجبور کیا۔ مجموعی طور پر، اس نے ہم میں بین الاقوامی تعاون اور پائیداری کے مسائل کو حل کرنے کی اہمیت کے تئیں گہری سمجھ پیدا کی۔‘‘

راؤت اور موہنتی کا کہنا ہے کہ خلائی ڈیٹا ماحولیاتی نگرانی، قدرتی آفات کے انصرام، موسمیاتی تبدیلی کی تحقیق، زرعی اصلاح اور شہری منصوبہ بندی سمیت متعدد فوائد پیش کرتا ہے۔ وہ مثال کے طور پر نثار سٹیلائٹ پروجیکٹ کا حوالہ دیتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں ’’نثار کی ہائی ریزولیوشن تصاویر زمین کی سطح کی تبدیلیوں کی درست نگرانی، تباہی کی پیشن گوئی اور ردعمل، موسمیاتی تحقیق اور زرعی منصوبہ بندی میں مدد کریں گی۔ یہ زلزلے کی پیشن گوئی کے لیے ٹیکٹونک سرگرمی کا سراغ لگانے، کاربن اکاؤنٹنگ کے لیے جنگل کی نقشہ سازی اور سطح سمندر میں اضافے کی تحقیق کے لیے قطبی برف کی چادروں کی نگرانی کا اہل بنائیں گی۔ مجموعی طور پر خلا پر مبنی ڈیٹا کرہ ارض کے نظاموں کے بارے میں ہماری تفہیم کو بڑھاتا ہےاور پائیدار ترقی اور ماحولیاتی چیلنجوں کے لیے لچک کی حمایت کرتا ہے۔‘‘

The Ravenshaw University team with Jajnaseni Rout (top left) and Dibya Jyoti Mohanty (above left) studied hydro-climatic variability hotspots in the Brahmani-Baitarani river basin in eastern India (above right). (Photographs courtesy Dibya Jyoti Mohanty)

راوینشا یونیورسٹی ٹیم نے جس میں جگناسینی راؤت(سب سے اوپر بائیں) اور دبیا جیوتی موہنتی(اوپر بائیں) نے مشرقی ہند میں برہمائی۔بیترنی دریا کے طاس میں ہائیڈرو۔موسمی تغیر پذیری کے ہاٹ سپاٹس کا مطالعہ کیا۔(تصاویر بشکریہ دبیا جیوتی موہنتی)

اسٹارمیپ نیویگیٹر

خان، یادو اور کمار کہتے ہیں ’’ایس ڈی جی ایس پر ہماری تحقیق کے دوران ہم نے کلائمیٹ اینڈ کلین ایئر کولیشن کی طرف سے پیش کی جانے والی ایک اہم تحقیقی نتیجہ دریافت کیا، جس میں کہا گیا ہے کہ قلیل مدتی موسمیاتی آلودگیوں کو کم کرنے کے لیے عالمی اقدام سے صفر اعشاریہ ۶ ڈگری سیلسیس گرمی کو ۲۰۵۰ ءتک روکا جا سکتا ہے۔ اس نے اس بات کو اجاگر کیا ہے کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج اور ماحولیاتی آلودگیوں میں تخفیف عالمی حرارت کو کم کرنے اور پیرس معاہدے کے ذریعے مقرر کردہ ۲ ڈگری سیلسیس کے ہدف کو حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے۔‘‘

ٹیم کا ہدف ۱۹۸۱ ءاور ۲۰۲۲ ءکے درمیان سالانہ بنیادوں پر تقریباً ۷۵ ممالک سے پیدا ہونے والے کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کے بارے میں بصیرت حاصل کرنا اور یہ تجزیہ کرنا تھا کہ ان اخراج نے درجہ حرارت اور بارش کی تبدیلیوں کو کس طرح متاثر کیا ہے تاکہ اخراج کو کم کرنے کے لیے ضروری اقدامات کیے جا سکیں اور خاص طور پر درجہ حرارت اور بارش کی سطح کو برقرار رکھا جا سکے۔

ٹیم نے پیل بلیو ڈاٹ چیلنج کے توسط سے ان اہم عالمی مسائل اور ان اقدامات کے بارے میں سیکھا جو لوگ ایس ڈی جی ایس کو حاصل کرنے کے لیے کر رہے ہیں۔

وہ کہتے ہیں ’’ناسا کے ڈیٹا سیٹس کی دریافت کرنا خاص طور پر اہم ہے، جس سے دنیا بھر میں طلبہ کے لیے دستیاب مواقع کا پتہ چلتا ہے۔ آب و ہوا کے اثرات کو کم کرنے میں کوشاں لوگوں کی بے لوث کوششوں کو دیکھ کر ہم پر گہرا اثر پڑا اور اس مقصد میں اپنا تعاون پیش کرنے کے لیے ہمارے اندر ایک مضبوط عزم پیدا ہوا۔‘‘

ٹیم کا ماننا ہے کہ خلا سے جمع کردہ ڈیٹا زمین پر آنے والی نسلوں کے نتائج کو بہتر بنانے میں بے حد موثر ثابت ہو سکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں ’’خلا پر مبنی مشاہدات موسمیاتی تبدیلی کو سمجھنے اور پیشن گوئی کرنے کے لیے بہت اہم ہیں، جو آنے والی نسلوں کو شدید موسم اورعالمی حرارت سے بچانے کے لیے حکمت عملیوں کی تیاری میں مدد فراہم کرتے ہیں۔‘‘

سٹیلائٹ قدرتی آفات کی نگرانی کرتے ہیں، ابتدائی انتباہات اور مؤثر ہنگامی ردعمل کو فعال کرتے ہیں، جبکہ ماحولیاتی نظام کے تحفظ میں مدد کے لیے جنگلات کی کٹائی، صحرا بندی اور آلودگی کا بھی پتہ لگاتے ہیں۔ وہ آبی اداروں اور برف کے ڈھکنوں کا مشاہدہ کرتے ہیں جو آبی وسائل کے انصرام اور پانی کی کمی کو دور کرنے کے لیے ضروری ہیں۔ مزید برآں ،سٹیلائٹ ہوا کے معیار، تابکاری اور بیماری کے ویکٹر کی نگرانی کرتے ہیں، جو صحت عامہ کے اقدامات کی حمایت کرتے ہیں۔ ٹیم اسٹار میپ نیویگیٹر کہتی ہے ’’ان کوششوں میں اکثر بین الاقوامی تعاون شامل ہوتا ہے۔ آئندہ نسلوں کے فائدے کی خاطر عالمی مسائل کو حل کرنے کے لیے عالمی شراکت داری کو فروغ دینا بھی ان کوششوں کا حصہ ہیں۔‘‘

The Starmap Navigator team, with Manhvi Yadav (from above left), Naushin Fatima Khan and Abhijeet Kumar, produced a 3D visualization of Earth (top) that shows the rise in temperature, rainfall and carbon dioxide emissions in the last 40 years. (Photographs courtesy Naushin Fatima Khan)

The Starmap Navigator team, with Manhvi Yadav (from above left), Naushin Fatima Khan and Abhijeet Kumar, produced a 3D visualization of Earth (top) that shows the rise in temperature, rainfall and carbon dioxide emissions in the last 40 years. (Photographs courtesy Naushin Fatima Khan)

دی اسٹار نیویگیٹر ٹیم جس کے شرکاء مانوی یادو(اوپر کی جانب سے بائیں)، نوشین فاطمہ خان اور ابھیجیت کمار نے کرہ ارض کاایک تھری ڈی ویژوالائزیشن تیار کیا(سب سے اوپر)جو گذشتہ چالیس برسوں کے دوران درجہ حرارت میں اضافہ، بارش اور کاربن کے اخراج کی نشاندہی کرتا ہے۔(تصاویر بشکریہ نوشین فاطمہ خان)


اسپَین کی مشمولات کو میل پر مفت منگوانے کے لیے لنک میں دیے گئے فارم کو بھریں: https://bit.ly/SubscribeSPAN



تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے