نیکسَس تربیت یافتہ جِنومِکس ذیابیطس، ہائی بلڈ پریشر اور موٹاپا جیسی طرز زندگی سے متعلق خرابیوں کی روک تھام اور ان کے بندوبست کے لیے لعاب( تھوک) پر مبنی جینیاتی جانچ اور مشاورت فراہم کرتی ہے ۔
March 2020
راجا شکلا(بائیں سے)، آدتیہ چوہان، سُربھِت جوہری اور عطیہ عمر پر مبنی جنومِکس کی ٹیم ۔ جنومِکس ایک اسٹارٹ اپ ہے جو ذیابیطس کی ابتدائی علامات کی نشاندہی کرتا ہے۔ تصویر بشکریہ جنومِکس۔
ذیابیطس بھارت کے تناظر میں صحت سے متعلق ایک تشویش ناک صورت حال ہے ۔ اور ہر سال اس کی زد میں آنے والے افراد کی تعداد بڑھتی جار ہی ہے ۔ ایک غیر منافع بخش تنظیم ڈائبٹیز فاوَنڈیشن آف انڈیا کے مطابق۵۰ اعشاریہ ۹ ملین افراد ملک میں ذیابیطس کا شکار ہیں ۔ ۲۰۲۵ ء تک اس تعداد کے ۸۰ ملین تک ہو جانے کا امکان ہے ۔ ٹیکساس ہارٹ انسٹی ٹیوٹ کے مطابق ٹائپ ٹو ڈائبٹیز کے لیے موٹاپا بڑی حد تک ذمہ دار ہے ۔ مزید یہ کہ جان ہاپکِنس میڈیسن کے مطابق ’’ہائی بلڈ پریشر (یا ہائیپر ٹینشن)سے کسی انسان کو ذیابیطس کا خطرہ دو گنا ہو جاتا ہے جب کہ ان افراد میں ذیابیطس کا خطرہ اس قدر نہیں ہوتا جنہیں ہائی بلڈ پریشر کی شکایت نہیں ہے ۔ اور اگر اس کا علاج نہ کیا جائے تو ہائی بلڈ پریشر دل کی بیماریوں اور دل کا دورہ پڑنے کاسبب بھی بن سکتا ہے۔
ان تمام اسباب نے پلانی میں واقع برلا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی اینڈ سائنس(بِٹس پلانی)سے علم الحیات اور الیکٹریکل انجینئرنگ میں دوہری ڈگری حاصل کرنے والے گریجویٹ سُر بھِت جوہری کو پریشان کر دیا ۔ وہ کہتے ہیں ’’ موٹا پا، ذیابیطس اور ہائی بلڈ پریشر کا ایک مضبوط جینیاتی جزو ہے اور آج کل یہ چیزیں طرز زندگی سے متعلق بیماریوں میں شمار ہوتی ہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کا علم جلد ہوجانے اور طرز زندگی میں تبدیلیاں لے آنے سے ان پر قابو پایا جا سکتا ہے ۔ اور کچھ معاملات میں تو ان سے بچا بھی جا سکتا ہے ۔‘‘
جوہری کی کمپنی جِنومِکس جس کی بنیاد مشترکہ طور پر بِٹس پلانی سے تعلق رکھنے والے دوسرے لوگوں کے ساتھ رکھی گئی ، حفظان صحت سے متعلق ایک نووارد کمپنی ہے جو موٹاپا ، ذیابیطس اور ہائی بلڈ پریشر جیسی بیماریوں کی نشاندہی کو نہ صرف آسان بناتی ہے بلکہ فوری مداخلت اور علاج کو بھی یقینی بناتی ہے ۔
جانچ اور مشاورت
کمپنی لعاب پر مبنی جینیاتی ٹیسٹ کرواتی ہے تاکہ اس سے لوگوں کو ذیابیطس ، ہائی بلڈ پریشر یا موٹاپا کے خطرات سے آگاہ کرنے میں مدد ملے ۔ کمپنی نے آن لائن آرڈر کیا گیا لعاب کو جمع کرنے والا کِٹ ایک ٹیوب میں تھوکنے کے لیے آسان ہدایات کے ساتھ متعارف کیا جسے بعد میں ڈلیوری پارٹنر کے ذریعہ یکجا کیا جاتا ہے ۔ اسے بعد میں جِنومِکس کی تجربہ گاہوں میں بھیج دیا جاتا ہے ۔ یہ تجربہ گاہیں نیشنل اَیکریڈیٹیشن بورڈ فار ٹیسٹنگ اینڈ کَیلیبریشن لیبریٹریز (این اے بی ایل)کے ذریعہ تصدیق شدہ ہیں
اور لعابِ دہن سے ڈی این اے نکالنے ، عمل کاری اور تجزیہ کرنے کے لیے جدید ترین ٹیکنالوجی کا استعمال کرتی ہیں ۔ ان کی جانچ کے بعد کمپنی کی جانب سے صارفین کو آسانی کے ساتھ سمجھ میں آنے والی رپورٹ بھیجی جاتی ہے جس میں موٹاپا ، ذیابیطس اور ہائی بلڈ پریشر میں مبتلا ہونے کے امکانات کی وضاحت کی جاتی ہے ۔ جوہری کہتے ہیں ’’ لوگوں کو صرف یہ بتانا ہی کافی نہیں ہے کہ وہ کس طرح موٹاپا اور ہائی بلڈ پریشر کا شکار ہو سکتے ہیں ۔ صحت مند رہنے کے لیے ان اقدامات کے بارے میں وضاحت کرنابھی ضروری ہے جو انسانوں کو اختیار کرنے ہیں ۔‘‘
لہٰذا جِنومِکس غذائیت کے ماہرین، جینیاتی ماہرین اور جسمانی تربیت کاروں کے ساتھ آن لائن ویڈیو سیشن کی سہولت بھی دیتا ہے تاکہ صارفین کو مطلوبہ رویوں یا طرز زندگی میں تبدیلی لانے میں مدد مل سکے ۔ کمپنی کی جانب سے دستیاب کرائی جانے والی جانچ اور مشاورت پر کُل ملا کر ۳ ہزار روپے خرچ ہوتے ہیں ۔
جوہری نے مساچیوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی ) میں کُھرانا اسکالر ایکسچینج پروگرام کے تحت انٹرن شپ کرنے میں ایک سال موسمِ گرما کا تمام عرصہ یہاں صرف کیا ۔ اس پروگرام کو حکومت ِ ہند کے محکمہ َ بایو ٹیکنالوجی ،انڈو ۔ یوایس سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فورم اور وِن اسٹیپ فاروارڈ کی حمایت حاصل ہے ۔ جوہری بتاتے ہیں ’’ ایم آئی ٹی میں میرا زیادہ تر کام اسٹیم سیل پر مبنی تحقیق کے گرد گھومتا ہے جہاں میں لِمفوماس(لمفی نسیج کی رسولی) کا علاج کرنے کے لیے دوائیں تیار کرنے کی غرض سے جینیاتی سوءچوں کا نمونہ بنانے کی کوشش کر رہا تھا ۔‘‘
ایم آئی ٹی میں ان کی ملاقات ایک تحقیق کار ڈاکٹر عطیہ عمر سے ہوئی جنہوں نے فوراًہی ڈی این اے امتحان کے ذریعہ خطرات کو بھانپ کر انسانوں کو صحت مند طریقہَ زندگی کی جانب منتقل کرنے کی اس چیز کی صلاحیت کو پہچان لیا ۔ ڈاکٹر عطیہ جِنومِکس ٹیم کے ابتدائی ممبران میں سے ایک ہیں کیوں کہ وہ انسانوں میں مثبت تبدیلی لانے میں کارآمد کسی بھی پروگرام کا حصہ بننے کی مشتاق تھیں ۔
اپنے کنبہ کے افراد سے حوصلہ پاکر جنہیں جوہری نے موٹاپا اور ہائی بلڈ پریشر جیسی چیزوں سے نبرد آزما ہوتے ہوئے دیکھا تھا ، وہ مَولیکُلر بایو لوجی میں اپنے علم اور تربیت کو جینیات کے ساتھ یکجا کرکے لوگوں کو احتیاطی طرز زندگی اختیار کرنے میں مدد کرنا چاہتے تھے ۔ ان کے کنبہ کے بہت سارے افراد ان کی کمپنی کے ابتدائی گاہکوں میں سے تھے ۔ یہ ٹیم نئی دہلی کے امیریکن سینٹر میں واقع نیکسَس انکیوبیٹر اسٹارٹ اپ ہب کا بھی حصہ تھی ۔ نیکسَس کسی پروڈکٹ کی بازارکاری سے پہلے تجارت کے رموز و نکات سکھانے کے لیے اور منصوبوں میں جان ڈالنے کے لیے ۱۰ ہفتوں پر مبنی کاروباری تربیت فراہم کرتا ہے ۔ یہ چنندہ ٹیموں کو اتالیقی اور سرمایہ کار انہ نیٹ ورک سے وابستہ کرنے میں بھی مدد دیتاہے ۔
جینیات تک محدود نہیں
جوہری اور ان کی ٹیم کا ہدف اس امر کو یقینی بنانا ہوتا ہے کہ صارفین کو جینیاتی خطرات سے متعلق نہ صرف رپورٹ دستیاب ہوں ۔ ٹیم کا مقصد یہ بھی ہے کہ صارفین کو صحت اور فلاح و بہبود کے لیے موزوں اور قابل عمل تبدیلیوں کے بارے میں مشورے مل سکیں ۔ جوہری بتاتے ہیں ’’ جب ہم نے شروعات کی تو ہم نے سوچا کہ ہم صرف ماہرین حیاتیات ہیں ۔ ہم نے لعابِ دہن کی جانچ کو بہتر بنانے پر توجہ مرکوز کی ۔ مگر جب ہم نے محسوس کیا کہ صارفین کو تغذیہ کے ماہرین اور تربیت دہندگان کے ساتھ گفت و شنید اور مکالموں سے بہت فائدہ ہوا تو ہم نے فوری طور پر ان شعبہ جات میں اپنی کوششیں تیز کر دیں ۔‘‘
جِنومِکس بہت زیادہ صارفین پر مرکوز کمپنی ہے ۔ کمپنی کا اعتراف ہے کہ صارفین سے ملنے والی آرا بہت اہمیت کی حامل چیز ہے ۔ جوہری اعتراف کرتے ہیں کہ اس سے مصنوعات کی جانچ نئے زاویوں سے کرنے میں مدد ملتی ہے ۔ کمپنی کے بانی کمپنی کو صحت سے متعلق معاملات کے شعبے کا حصہ سمجھتے ہیں ۔ وہ جینیات کو ایک اہم جزو کے طور پر دیکھتے ہیں ۔ وہ صحت اور طرز زندگی کے انتخاب کا ایک ڈیٹا بیس بنانے کے خواہشمند ہیں تاکہ یہ چیز صحت کے خدشات اور احتیاطی تدابیر کے بارے میں ہماری تفہیم کو مہمیز کرنے کی خاطر تحقیق کے لیے استعمال کی جا سکے ۔ جوہری اپنے ارادے کا اظہار ان الفاظ میں کرتے ہیں ’’ ہم لوگوں کو احتیاطی تدابیر والی طرز زندگی بسر کرنے میں مدد کرنا چاہتے ہیں اور جینیاتی جانچ اسی ہدف کو پانے کا ایک طریقہ ہے ۔ ہماری خواہش ہے کہ ہم مزید موَثر طریقے تلاش کریں تاکہ لوگوں کو صحت سے متعلق سفارشات اپنانے میں مدد کرسکیں ۔‘‘
پارومیتا پین رینو میں واقع یونیورسٹی آف نیواڈا میں گلوبل میڈیا اسٹڈیز کی معاون پروفیسر ہیں ۔
تبصرہ