یو ایس ایڈ چھوٹے اور درمیانے درجے کا کاروبار کرنے والوں کو ڈیجیٹل ہنر سکھاکر بااختیار بنا رہا ہے تاکہ وہ اپنی تجارت کو بہترین طریقے سے چلا سکیں۔
November 2022
ڈیجیٹل سارتھک پروجیکٹ کے تحت ادائیگی کے لیے اسمارٹ فون استعمال کرنے، لین دین کا حساب رکھنے اور انتہائی چھوٹی کاروباری پیشہ ور دیہی خواتین کو سوشل میڈیا کا استعمال کرکے تشہیر کرنے کی تربیت دی جاتی ہے۔(تصویر بشکریہ ڈیجیٹل امپاورمینٹ فاؤنڈیشن)
کووِڈ۔۱۹ عالمی وبا کے دوران مویشیوں کا چارہ تیار کرنے والی ’ماڈرن فیڈ انڈسٹریز‘ نے اپنے گاہکوں کے ساتھ معمول کے حساب کتاب کے لیے ڈیجیٹل ادائیگیوں کا طریقہ کار اپنا لیا۔ اس تبدیلی نے کمپنی کے سربراہ اکشے متل کے لیے ادائیگیوں اور دیگر متعلقہ معاملات کی نگرانی میں کافی آسانی پیدا کر دی۔ وہ ڈیجیٹل کاروباری صلاحیتوں سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور انہوں نے اپنے کاروبار میں جدیدیت لانے کی خاطر’ گوگل ورک اسپیس‘ پر اپنا کھاتہ کھولا۔ ’گوگل ورک اسپیس ‘ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جو کلاؤڈ کمپیوٹنگ کے استعمال سے کمپنی کے ڈیٹا کو کسی بھی کمپیوٹر آلہ پر رسائی کے قابل بناتا ہے۔ اکشے چاہتے ہیں کہ اب وہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنی مشینوں کی بھی دور بیٹھے ہی نگرانی کر سکیں تاکہ کام میں کسی قسم کی کوئی رکاوٹ پیش نہ آئے۔ متل کہتے ہیں ’’جب ہمارے پاس ڈیٹا اینالیٹکس (خام ڈیٹا کا تجزیہ کرنے کی سائنس) کی سہولیت دستیاب ہو گی تو ہم گاہکوں کی تسکین،کاموں کی کارکردگی، مال کی خرید و فروخت اورمحنت کشوں کی کارکردگی جیسے میدانوں میں بھی غیر معمولی تبدیلیاں لا پائیں گے۔‘‘
امریکی ایجنسی برائے عالمی ترقی (یو ایس ایڈ) نے کئی ایسے اقدام کیے ہیں جن کی بدولت انتہائی لطیف، چھوٹے اور درمیانہ درجے کے کاروباروں کو ڈیجیٹل پلیٹ فارم تک رسائی میں مدد فراہم کی جا رہی ہے۔ اس نے مقامی متعلقین کے ساتھ شراکت داری کے ذریعے دیہی علاقوں میں خواتین کے لیے ڈیجیٹل تربیت کا اہتمام کیا ہے۔ اس مشن کے تحت ہریانہ اور مدھیہ پردیش میں چھوٹے اور درمیانہ درجے کے کاروباری اداروں اور چھوٹی کرانہ دکانوں کی خواتین مالکان کو ڈیجیٹل لین دین کی تربیت دی گئی ہے۔
ایسا ہی ایک پروگرام جنوب ایشیائی علاقائی ڈیجیٹل پہل (سارڈی) ہے۔ اس کے ذریعے یو ایس ایڈ ڈیجیٹل خواندگی اور سائبرسلامتی کی صلاحیت کو بڑھانے کے لیے نجی شعبے، حکومت اور سول سوسائٹی کے ساتھ شراکت میں مصروفِ عمل ہے۔
’ڈیپ‘ کے فوائد
ہریانہ میں واقع ماڈرن فیڈ انڈسٹریز یو ایس ایڈ امداد یافتہ ڈیجیٹل انیبلمنٹ اینڈ ایمپاورمنٹ پروگرام (ڈیپ) کے مستفیدین میں سے ایک ہے۔ ڈیپ ہریانہ اور مدھیہ پردیش میں ۱۵۰۰ نوجوانوں اور خواتین کی قیادت والے چھوٹے اور درمیانہ درجے کے کاروباروں کو ڈیجیٹل لین دین کی تربیت فراہم کر رہا ہے۔
ڈیپ کے مستفیدین میں ایک شُبھ انٹرپرائزز بھی ہے۔ یہ مصنوعات تقسیم کرنے والی ایک کمپنی ہے جس میں ۲۰۰ ملازمین کام کر رہے ہیں۔ یہ کمپنی بھارتی حکومت کو بھی ہنر کی تربیت فراہم کرتی ہے۔ شُبھ انٹرپرائزز کے اعلیٰ مالیاتی افسر اکشے جین کا کہنا ہے کہ آن لائن تربیت نے ان کی کمپنی کو کلاؤڈ پر مبنی کاروباری حل اپنانے اور سائبر سلامتی کو بہتر بنانے میں رہنمائی کی ہے۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ کلاؤڈ کمپیوٹنگ اختیار کرنے سے شُبھ انٹرپرائزز کو کاروبار کرنے میں کافی آسانی پیدا ہوئی ہے۔ نیز اسے سے یہ بھی پتہ چل جاتا ہے کہ کس نے اور کب ڈیٹا میں تبدیلی کی۔
جین بیان کرتے ہیں کہ بہت سے چھوٹے اور درمیانہ درجے کے کاروبار ڈیجیٹل کاروباری حل میں دلچسپی رکھتے ہیں لیکن وہ یہ نہیں جانتے کہ آغاز کہاں سے کریں۔ مزید برآں، ڈیجیٹل پلیٹ فارم سے استفادہ کرنے کے لیے درکار آلات، سافٹ ویئر، تربیت اور معاونت اکثر مہنگی ہوتی ہے۔
ڈیپ صرف تربیت تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ ایک ٹیلی فون ہیلپ ڈسک کے ذریعے ڈیجیٹائزیشن کے متعلق سوالات کے جوابات بھی دیتا ہے۔ ٹرائیکا ٹیکنالوجیز کے ڈائریکٹر جنید جمیل عثمانی کے مطابق ’’مقصد پہل کی پائیداری ہے۔ اس (ٹرائیکا ٹیکنالوجیز) نے یہ پروگرام (ڈیپ) ۲۵۰۰ چھوٹے اور درمیانہ درجے کے کاروباروں کے سروے میں ان کے مروجہ ڈیجیٹل طریقوں اور دلچپسیوں کو سمجھنے کے بعد تیار کیا ہے۔‘‘
خواتین دکان مالکان کو بااختیار بنانا
’پروجیکٹ کرانہ‘ بھی خواتین کی ملکیت والے چھوٹے اور درمیانہ درجے کے کاروباروں کو ڈیجیٹل مہارت کی تربیت دے رہا ہے۔ دراصل ’پروجیکٹ کرانہ‘ یو ایس ایڈ اور ماسٹرکارڈ سینٹر فار انکلوسیو گروتھ کا ایک مشترکہ پروگرام ہے جس کی مدد سے خواتین کے ذریعے چلائے جانے والے کرانہ دکانوں کو اپنے کاروبار کو بڑھانے کے لیے درکار ڈیجیٹل اور مالیاتی مہارتیں سکھائی جا رہی ہیں۔
اس پروگرام کے تحت ڈیجیٹل ادائیگیوں، بینکنگ، بیمہ اور بنیادی کاروباری ہنر جیسے کاروبار سے متعلق چیزوں کو سنبھالنا اور حساب کتاب کرنے کی مہارتیں سکھاتی جاتی ہیں۔
اس پروجیکٹ سے پہلے ہی اترپردیش کے کئی شہروں میں کم و بیش ۳۵۰۰ افراد فائدہ حاصل کر چکے ہیں۔ دوسرے مرحلے میں یہ پروجیکٹ سائبر سلامتی کے مختلف پہلوؤں جیسے دھوکا دھڑی اور دیگر جعل سازیوں سے محفوظ رہنے پر توجہ مرکوز کرے گا۔
ڈیجیٹل راہ نما
یو ایس ایڈ کے ایک اور پروگرام ’ڈیجیٹل سارتھک پروجیکٹ‘ کے تحت سلائی ،کڑھائی اور مویشیوں کو پالنے جیسے چھوٹے کاروباروں سے وابستہ ۱۶۰۰ دیہی خواتین کو مختلف ڈیجیٹل ہنر جیسے مالی لین دین، حساب کتاب رکھنے اور سوشل میڈیا پر تشہیر کے لیے اسمارٹ فون استعمال کرنے کی تربیت دی گئی ہے۔
اس پروگرام کے تحت ’خواتین ڈیجیٹل سارتھک‘ تیار کی جاتی ہیں۔ ان خواتین کو اہم ڈیجیٹل ہنر سکھائے جاتے ہیں اور پھر تربیت یافتہ خواتین اپنی اپنی برادریوں میں مزید ۱۰۰ خواتین چھوٹے کاروباریوں کی نشاندہی کر کے ان کو ڈیجیٹل ہنر سکھاتی ہیں۔
اترپردیش کے رسول پور گاؤں کی رہنی والی پرتیما جیسوال ایک ڈیجیٹل سارتھک ہیں۔ وہ کہتی ہیں ’’میں اسمارٹ فون کے استعمال کے بارے میں زیادہ نہیں جانتی تھی لیکن انہوں نے میری تربیت کی۔ اس پروگرام کے تحت مجھے ہر ماہ نئےتربیتی نمونے بھیجے جاتے ہیں۔‘‘
جیسوال اب ۱۰۰ مقامی خواتین کو تربیت دے رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے ’’اکثر خواتین نیم خواندہ تھیں اور انہیں اسمارٹ فون کا استعمال کرکے کسی سے بات کرنی نہیں آتی تھی۔ شروعاتی دور میں ہماری کافی مخالفت ہوئی اور وہ بھی خاص طور پر اپنے گھر والوں کی طرف سے۔ اُن کو اس پر اعتراض تھا کہ آخر آپ ایک عورت کو اسمارٹ فون دینا کیوں چاہتی ہیں؟ ایک عورت کو بھلا اسمارٹ فون کی کیا ضرورت؟‘‘ جیسوال ان سوالات کا جواب اپنی مثال پیش کرتے ہوئے دیتی ہیں ’’میں تفصیل سے بیان کرتی ہوں کہ اسمارٹ فون کی مدد سے مجھے میرے چھوٹے کاروبار کو چلانے میں کیسے مدد ملی۔‘‘
جیسوال کہتی ہیں ’’اس پروگرام کے ان خواتین کی زندگیوں پر کافی مثبت اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ اب یہ خواتین زیادہ خود کفیل ہیں۔‘‘ وہ مزید کہتی ہیں کہ ڈیجیٹل تربیت یافتہ کاروباری خواتین بہت ساری معلومات مثلاً موسم کا حال اور کپڑوں کے جدید ڈیزائن جاننے کے علاوہ نئی نئی چیزوں اور اشیائے خوردنی کو اسمارٹ فون سے ہی آرڈر کر سکتی ہیں۔
چھٹکی شرما مدھیہ پردیش کے ڈنگاسرا گاؤں میں ایک چھوٹی سی کرانہ کی دکان چلاتی ہیں۔ انہیں ایک مقامی ڈیجیٹل سارتھک نے دو برس تک ڈیجیٹل تربیت دی۔ وہ بیان کرتی ہیں ’’شروع شروع میں تو میرے گھر والوں کو خدشہ تھا مگر پھر بہت جلد ہی جب انہوں نے خود سے اس پروگرام کے فوائد کا مشاہدہ کیا تو وہ مطمئن ہوئے۔‘‘
شرما نے اس پروگرام کی وساطت سے اپنے گاہکوں کے لیے ایک واٹس ایپ گروپ بنانا سیکھا جس میں وہ اپنی نئی مصنوعات کی تشہیر کرتی ہیں۔ وہ مزید کہتی ہیں ’’تربیت حاصل کرنے سے قبل لوگ میری مصنوعات سے ناواقف تھے مگر اب کثیر تعداد میں گاہکوں نے میری دکان پر آنا شروع کر دیا ہے۔‘‘
برٹن بولاگ واشنگٹن ڈی سی میں مقیم ایک آزاد پیشہ صحافی ہیں۔
تبصرہ