موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کی پہل

امریکی محکمہ خارجہ کی مالی اعانت سے چلنے والے ایک پروگرام نے پانچ جنوبی ایشیائی ممالک کے ذہین ترین افراد کو موسمیاتی بحران سے نمٹنے کے لیےیکجا کرنے کا کام کیا ہے۔

کریتیکا شرما

April 2023

موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کی پہل

دی کلائیمیٹ ایکشن چیمپئنس نیٹ ورک بنگلہ دیش ، بھوٹان، بھارت، نیپال اور سری لنکا کے نوجوان قائدین کو اپنے اپنے ملکوں اور ہند۔بحرالکاہل خطے میں ماحولیات سے متعلق کام کرنے کے لیے یکجا کرتا ہے۔ تصویر بشکریہ جے پرکاش نایک۔

بھارت اور اس کے پڑوسی ممالک کا دنیا کی آبادی اور حیاتیاتی تنوع میں ایک بڑا حصہ ہے لیکن یہ ممالک موسمیاتی تبدیلی کا بھی شکار ہیں۔ امریکی محکمہ خارجہ کے مالی تعاون سے چلنے والا کلائمیٹ ایکشن چیمپیئنس نیٹ ورک  (سی اے سی این) بنگلہ دیش، بھوٹان، بھارت، نیپال اور سری لنکا کے نوجوان رہنماؤں کو اپنے آبائی ممالک اور ہند بحر الکاہل خطے میں موسمیاتی اقدامات کی قیادت اور وکالت کے لیے اکٹھا کرتا ہے۔

سی اے سی این گروپ کے پہلے تین بھارتی ارکان کے بارے میں اس مضمون میں جانیں۔

 بیداری کے لیے آواز

سماجی ترقی کی ماہر ہ کی حیثیت سے ساہانہ سنکر خواتین، آدیواسی کسانوں اور پہلی نسل کے طلبہ کے ساتھ کام کرتی ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ سماجی اور اقتصادی بااختیاریت پائیداری پر بات چیت شروع کرنے کی کلید ہے۔ وہ بتاتی ہیں ’’کمیونٹی جتنی زیادہ بااختیار ہو گی اسے تبدیلی لانے اور پائیداری کے بارے میں بات کرنے کے لیے اتنی ہی زیادہ آواز اٹھانی ہو گی۔ ہم نے دیکھا ہے کہ آواز بلند کرنے والی خواتین بلدیاتی سطح پر حکومتی فیصلوں پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر گاؤں کی ایک میٹنگ جہاں عورتیں پانی کی فراہمی کی یا درخت لگانے کی وکالت کرتی ہیں۔ معاشی خودمختاری اضافی مالی آزادی، معلومات تک رسائی اور آزادی کے ساتھ ماحول دوست کھپت کا انتخاب کرنے کی صلاحیت کا سبب بنتی ہے۔‘‘

سنکر’ہینڈ ان ہینڈ انڈیا ‘کی چیف آپریٹنگ افسر ہیں اور بنیادی طور پر سوشل میڈیا کے ذریعے ترسیل اور سرمایہ اکٹھا کرنے پر توجہ مرکوز کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں ’’میرا ماننا ہے کہ تبدیلی کی وکالت کرنے میں سوشل میڈیا کی آواز ایک طاقتور آواز ہے۔‘‘ ہینڈ ان ہینڈ ایک عالمی غیر منافع بخش تنظیم ہے جو غربت سے لڑنے اور ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنے کے لیے کام کرتی ہے۔

تعلیم سے انجنیئر سنکر پہلے سی اے سی این گروپ کا حصہ ہیں۔ انہوں نے نیپال کے دارالحکومت کاٹھمنڈو میں اس کی پہلی قومی کانفرنس میں شرکت کی۔ وہ کہتی ہیں کہ اس کانفرنس میں ’’ہمارے گروپ کو موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں واضح طور پر جاننے کا موقع ملا اور ہمیں ان طویل مدتی اور قلیل مدتی اہداف کو سمجھنے میں مدد ملی جو ہمیں چیلنجوں پر قابو پانے کے لیے مقرر کرنے ہوں گے۔‘‘

جنوبی ایشیائی ممالک کے درمیان خاص طور پر جغرافیائی اور سماجی مماثلت کا مطلب ہے کہ خیالات کے باہمی تجزیے سے موسمیاتی مسائل کے بہتر حل پیدا کرنے میں مدد ملتی ہے۔ وہ کہتی ہیں ’’بھارت، سری لنکا اور بنگلہ دیش میں زرعی پیداوار کے زیادہ تر طریقے ایک جیسے ہیں۔ بھوٹان اور نیپال کے علاقے پن بجلی کی پیداوار کے لیے ایک جیسے اور مثالی ہیں۔ بنگلہ دیش میں موجود ساحلی  جنگلات کا تحفظ بھارت کی مہارت کا آئینہ دار ہے۔ ہمارا تجربہ بھی ایک جیسا ہی ہے یعنی قدرتی وسائل کی کثرت کے باوجود ان کا استحصال کیا گیا ہے۔‘‘

سنکرمزید کہتی ہیں کہ وہ اس موقع کا استعمال ’’سوشل میڈیا پر اپنی آواز بلند کرنے کے لیے کرنا چاہتی ہیں تاکہ نچلی سطح پر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کے بارے میں بیداری پیدا کی جا سکے اور ان کا مقابلہ کرنے کے لیے جنوبی ایشیا پر مبنی مختلف اسباق مشترک کیے جا سکیں۔‘‘

وہ کہتی ہیں ’’میں زراعت اور پانی کے تحفظ میں کچھ آسان ٹیکنالوجی پر مبنی حل پر بھی عمل درآمد کرنا چاہوں گی جو کسانوں کو طویل مدت تک کھیتوں کی پیداوار بڑھانے میں مدد دیں گے۔‘‘

 تبدیلی کے لیے تعاون

آئی آئی ٹی دہلی سے بیچلرس کی ڈگری مکمل کرنے کے فوراً بعد کنیکا پرجاپت نے ’کریا لیبز ‘کی بنیاد رکھی۔ ان کا اسٹارٹ اپ زرعی فضلہ سے پائیدار  ٹیبل ویئر(کھانے پینے کے برتن ، چمچ اور چھوری وغیرہ) تیار کرتا ہے۔ پرجاپت کے مطابق ان کا یہ قدم صرف فصلوں کی باقیات کو کارآمد بنا کر فضائی آلودگی کے مسئلے سے نمٹنے کے بارے میں نہیں تھا بلکہ اس کا تعلق کسانوں کو یہ باقیات بیچ کر پیسہ کمانے میں مدد کرنے سے بھی تھا۔

پنجاب، ہریانہ اور ان کی آبائی ریاست راجستھان کی کسان برادریوں کے ساتھ ان کی بات چیت نے انہیں یہ سمجھنے میں مدد کی کہ موسمیاتی تبدیلی نے پسماندہ برادریوں کو کس طور پر  بری طرح متاثر کیا ہے۔ وہ کہتی ہیں ’’انہوں نے اپنے تجربات کا اشتراک کرتے ہوئے بتایا کہ کس طرح غیر متوقع بارش، ٹڈی دل کے حملوں، سرد اور گرم لہروں (لُو) نے ان کے لیے فصل کی مستقل پیداوار حاصل کرنا اور  قرض چکانا مشکل بنا دیا ہے۔‘‘

کووِڈ۔۱۹ لاک ڈاؤن کے دوران پرجاپت نے موسمیاتی تبدیلی پر کام کرنے والی تنظیموں کی تلاش شروع کی اور لندن میں واقع ایک خیراتی ادارے ’کلائمیٹ سائنس‘ کے بارے میں جانا۔ وہ بتاتی ہیں ’’میں نے جنوری ۲۰۲۱ ءمیں ان کے عالمی اولمپیاڈ پروگرام کے ساتھ رضاکارانہ طور پر کام کرنا شروع کیا۔ چند مہینوں میں ہی مجھے کلائمیٹ سائنس اولمپیاڈ کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے کلائمیٹ سائنس کی مرکزی قیادت کی ٹیم میں شامل ہونے کی پیش کش کی گئی۔‘‘

کلائمیٹ سائنس اولمپیاڈ میں پرجاپت مختلف براعظموں سے تعلق رکھنے والے رضاکاروں کے ساتھ کام کرتی ہیں اور طلبہ کی شرکت میں اضافے پر توجہ مرکوز کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں ’’۲۰۲۰ ءمیں ۴۰ رضاکاروں کی ایک ٹیم کے ساتھ کام کرتے ہوئے میں نے اولمپیاڈ کو ۱۹۰ ممالک تک وسعت دی  اور اب تک اس میں ۵۵ ہزار طلبہ کو شامل کیا ہے۔‘‘

سی اے سی این فیلو ہونا اس کردار کی توسیع ہے۔ پرجاپت بتاتی ہیں ’’مختلف ممالک کے ساتھیوں کے ساتھ کام کر کے میں موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے میں درپیش چیلنجوں کے بارے میں زیادہ جامع اور باریک بینی سے سمجھ پیدا کرنے کے قابل ہوئی ہوں اور ان متنوع سیاق و سباق سے متعلق زیادہ مؤثر اور پائیدار حل کی نشاندہی کرنے کے قابل ہوئی ہوں جن میں ہم لوگ کام کرتے ہیں۔‘‘

سی اے سی این گروپ کے ممبروں کے ساتھ بات چیت نے انہیں یہ احساس دلایا کہ موسمیاتی تبدیلی کمزور برادریوں کو مختلف طریقوں سے متاثر کرتی ہے۔ وہ کہتی ہیں ’’بنگلہ دیش میں سمندر کی اونچی ہوتی ہوئی سطح اور میٹھے پانی کے ذرائع میں نمکیات میں اضافہ زراعت اور میٹھے پانی تک رسائی کو متاثر کرتے ہیں جس کی وجہ سے لوگوں کو نقل مکانی کرنا پڑتی ہے۔ بھارت میں لُو ، سیلاب اور خشک سالی کے واقعات میں شدت آتی جا رہی ہے جس کی وجہ سے پانی پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں اورغذائی عدم تحفظ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ نیپال میں گلیشیئروں کے تیزی سے پگھلنے کے نتیجے میں پانی کی قلت کا خطرہ بڑھتا جا رہا ہے جبکہ سری لنکا میں بارش میں اضافہ مٹی کے تودے کھسکنے اور سیلاب کا سبب بن رہا ہے۔‘‘

اپنی فیلوشپ مکمل کرنے کے بعد پرجاپت زراعت اور آب و ہوا سے متعلق مالی اعانت کے پروجیکٹوں پر دیگر فیلوز کے ساتھ شامل ہونا چاہتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں ’’مجھے امید ہے کہ میں ان کے ساتھ شامل ہو جاؤں گی اور وکالت و پالیسی کے کام میں مشغول ہونے کے لیے ہم اپنی اجتماعی مہارت اور نیٹ ورک کو استعمال کریں گے۔ نیز مقامی، قومی یا بین الاقوامی سطح پر نظاماتی تبدیلی پر زور دیں گے۔‘‘

تخفیف کے لیے منصوبہ بندی

جے پرکاش نائک   اس وقت ۱۹ برس کے تھے جب ۲۰۱۹ءمیں ان کی آبائی ریاست اڈیشہ کے ساحل سے فنی نامی  سمندری طوفان ٹکرایا ۔  سمندری طوفان نے اپنے راستے میں آنے والے گھروں، کھیتوں اور قصبوں کو تباہ کر دیا تھا۔ طوفان سے ہونے والی تباہی نے نائک  کو بری طرح متاثر کیا۔ وہ کہتے ہیں ’’اس سے مجھے احساس ہوا کہ ہمارے شہر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کے لیے کس طرح کم تیار ہیں اور اگر ہم مکمل طور پر تیار نہیں ہوئے تو اس سے پیدا ہونے والے تباہ کن اثرات کس شدت کے ہو سکتے ہیں۔‘‘

فنی سمندری طوفان سے ہونے والی اس تباہی اور اڈیشہ کے ساحل کے کٹاؤ سے نائک   کے موسمیاتی تبدیلی کو دیکھنے کے انداز میں تبدیلی آگئی۔ وہ کہتے ہیں ’’اڈیشہ کے ساحلی علاقے کے قریب رہنے سے میں مخصوص طور پر متاثر ہوا اور اس نے مجھے موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنے پر مجبور کیا۔‘‘

جون ۲۰۲۱ء میں نائک کو حیدر آباد میں واقع امریکی قونصل خانہ نے ۱۵ دیگر رضاکاروں کے ساتھ ینگ کلائمیٹ لیڈرس ایکشن پروجیکٹ (وائی۔سی ایل اے پی) کے لیے منتخب کیا ۔ وائی۔ سی ایل اے پی رضاکار کی حیثیت سے نایک غیر آب و ہوا دوست طرز عمل کی شناخت کے لیے بیریئر آئیڈینٹیفکیشن ٹول کا استعمال کرنے والی ٹیم کا حصہ تھے۔ وہ کہتے ہیں ’’اس سے مجھے پلاسٹک کے زیادہ استعمال اور ہمارے معاشرے میں کوڑے کو مناسب طریقے سے الگ نہ کرنے کی بنیادی وجوہات تلاش کرنے میں مدد ملی۔‘‘

نائک  اب موسمیاتی تبدیلی کے مسئلے، موافقت اور تخفیف کے مسئلے کو بنیادی سطح پر اور پالیسی سازوں کے درمیان اٹھانے پر کام کر رہے ہیں جہاں بقول ان کے ’’میری تجاویز کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔‘‘ وہ آب و ہوا کے بجٹ اور این ڈی سیز (قومی سطح پر طے شدہ شراکت) کے اہداف کے حصول میں اس کی اہمیت پر بھی تحقیق کر رہے ہیں تاکہ ایک جامع موسمیاتی ایکشن پلان تیار کرنے میں مدد مل سکے۔

سی اے سی این پروگرام کا حصہ ہونے کی وجہ سے نائک کو موسمیاتی تبدیلی کے مختلف پہلوؤں اور اڈیشہ پر اس کے اثرات کے بارے میں لوگوں کو معلومات فراہم کرنے کے ساتھ یہ سمجھنے کا موقع ملا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی جنوبی ایشیا میں جغرافیہ کو اور آب و ہوا سے متعلق آنے والے خطرات کو کس طرح متاثر کرتی ہے۔

اس پروگرام نے نائک  کو قابل قدر معلومات فراہم کی ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی کے شعبے میں  کام کرنے والے اسٹارٹ اپس اور اقدامات کے بارے میں جاننے سے لے کرساحلی جنگلات اور ساحلی ماحولیاتی نظام کی اہمیت کے بارے میں بھی وہ  سیکھ رہے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ ساحلی پٹیوں کی حفاظت کے لیے آب و ہوا کے لچک دار بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کے بارے میں جاننے میں بھی دلچسپی لے رہے ہیں۔

سی اے سی این میں اپنی فیلوشپ مکمل کرنے کے بعد نائک   کو امید ہے کہ وہ ریاستی اور مرکزی حکومتوں کو طویل مدتی بجٹ منصوبہ بندی میں موسمیاتی اقدامات کو ضم کرنے کی ترغیب دینے کے لیے پالیسی وکالت میں شامل ہوں گے۔ وہ مزید کہتے ہیں ’’میں موسمیاتی تبدیلی کے معاشی اثرات جیسے غربت، عدم مساوات اور افراط زر پر بھی تحقیق کروں گا۔‘‘



تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے