طبّی خدمات میں ڈرون کا استعمال 

یوایس ایڈ امداد یافتہ ایک پروجیکٹ کی مدد سے دور دراز علاقوں میں ٹی بی کے مریضوں کی تشخیص میں ڈرون کی وجہ سے سہولت ہو رہی ہے۔ اس پروجیکٹ کے سبب تھوک کے نمونوں کو تجربہ گاہ میں جانچ کے لیے جلد از جلد پہچانا ممکن ہو سکا ہے۔

مائیکل گیلنٹ

September 2022

طبّی خدمات میں ڈرون کا استعمال 

ریڈوِنگ لیبریٹریز نے ڈرون تکنیک مہیا کروائی تاکہ دیہی علاقوں میں مقیم مریضوں کے نمونوں کو جانچ کے لیے تجربہ گاہوں تک پہنچایا جا سکے۔ (تصویر بشکریہ پیرامل سواستھ)

پوری دنیا میں بھارت میں سب سے زیادہ ٹی بی کے مریض پائے جاتے ہیں۔ٹی بی کے خلاف جنگ بھارت سرکار کا طویل مدتی ہدف ہے۔ سرکار کا منصوبہ ہے کہ ۲۰۲۵ء تک ملک سے ٹی بی کو مکمل طور پر ختم کر دیا جائے۔

ان کوششوں کومزید تقویت دینے کے لیے  بین الاقوامی تنظیموں اور سرکاری ایجنسیوں نے آپس میں اشتراک کیا ہے۔ اس اشتراک کے سبب ملک میں انسداد ٹی بی کے لیے نئی ٹیکنالوجی متعارف ہونے کی راہ ہموار ہوئی ہے۔مارچ ۲۰۲۲ء  میں اس اشتراک نے اوڈیشہ میں ایک پائلٹ پروگرام کا آغاز کیا ۔ اس کا مقصد یہ دریافت کرنا ہے کہ آیا ریموٹ کنٹرول سے چلنے والے ڈرون کی مدد سے ٹی بی کے مریضوں کی تشخیص جلد از جلد ممکن ہے تا کہ ان کی زندگیاں  بچائی جا سکیں ۔

اختراع پردازی کی جڑیں

ڈرون پرو جیکٹ کا تصور نہایت سادہ مگر ضروری تھا۔اصل میں صحت خدمات انجام دینے والے مقامی افراد   دور افتادہ علاقوں میں ٹی بی کے مشتبہ مریضوں کے تھوک کے نمونوں کو جمع کرتے ہیں۔ پھر ان تھوک کے نمونوں کو ڈرون میں رکھا جاتا ہے جو سرعت پرواز سے ان  نمونوں کو تجربہ گاہ  میں پہنچادیتا ہے جہاں تھوک کے نمونوں کی ٹی بی کے لیے جانچ کی جاتی ہے۔ جانچ مکمل ہونے پر صحت خدمات انجام دینے والے مقامی افراد کو نتائج سے مطلع کر دیا جاتا ہے۔

اس طرح  کے  اختراعی اقدام کی قبائلی علاقوں ، دیہی علاقوں اور پہاڑی علاقوں میں اشد ضرورت تھی کیوں کہ ان علاقوں میں بھارت کی تقریباً ۱۰ فی صد آبادی بستی ہے۔ یو ایس ایڈ/انڈیا  میں  سینئر ٹی بی اسٹریٹجی اور اننوویشن  مشیر کی حیثیت سے کام کر نے والے اور اس پائلٹ پروگرام کا لائحہ عمل تیار کرنے والے ڈاکٹر امر این شاہ بتاتے ہیں ’’  قبائلی طبقات میں ٹی بی کی شرح کافی زیادہ ہے ۔ ان علاقوں میں معیاری علاج کی سہولیات کی بروقت رسائی اکثر ایک بڑا مسئلہ ہوتی ہے۔ ڈرون کے استعمال کا مقصد اسی مسئلے کا حل تھا۔ اس پروجیکٹ سے ہمیں امید تھی کہ ہم ٹی بی کے زیادہ سے زیادہ معاملات کی تشخیص کرنے میں کامیاب ہو سکیں گے تاکہ جلد از جلد درست علاج کیا جا سکے اور قبائلی طبقات میں ٹی بی کے مزید پھیلاؤ کی روک تھام کی جاسکے۔ ‘‘

ممبئی میں واقع پیرامل فاؤنڈیشن نے ڈرون پائلٹ کو تیار کرنے ،  ڈیزائن کرنے اور اس پروگرام  کو نافذ کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔پیرامل فاؤنڈیشن صحت کے شعبہ میں کام کرنے والی ایک غیر منفعت بخش تنظیم ہے جس نے اپنے قبائلی صحت اشتراک کے خصوصی پروگرام ’ انامایا‘ کے تحت ڈرون پائلٹ پروگرام چلایا تھا۔ پیرامل فاؤنڈیشن کے سینئر نائب صدر برائے صحت عامّہ اختراع پردازی   ڈاکٹر شیلندرہیگڑے نے افسوس ظاہر کیا کہ بھارت میں  قبائلی آبادی کی ایک بڑی تعداد جدید ترین لیب کی سہولیات سے محروم ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ ٹی بی کے مشتبہ مریض اپنی جانچ کرانے اور علاج کی درست  تدابیر کرنے سے قاصر ہیں۔ڈاکٹر ہیگڑے نے بتایا ’’ بھارت کے دیہی علاقوں میں جو قبائل آباد ہیں وہ مرکز یعنی شہر سے کافی دور ہیں۔  اس کے علاوہ   جنگلات سے ڈھکے پہاڑی علاقے میں راستے کافی ناہموار بھی ہوتے ہیں۔انہیں سب وجوہات کی بنا پر ان لوگوں کا بر وقت ٹی بی کا علاج نہیں ہوپاتا ۔ ٹی بی کے علاج میں اس اہم مسئلہ کا حل ہی اس کی تشخیص، علاج اورروک تھام اور شرح اموات میں اہم کردار ادا کرتا ہے ۔بھارت میں ویسے بھی ٹی بی کے علاج کی سہولیات کا فقدان پایا جاتا ہے۔‘‘

 ڈرون پروگرام کا اصل مقصد ہی ٹی بی کے تشخیص جیسے مسائل پر ، گھنٹوں، دنوں حتیٰ کہ ہفتوں قبل  حل کیا جا سکے تاکہ مریضوں کی صحت یاب ہونے کی شرح میں خاصہ اضافہ ہو سکے۔

بین الاقوامی اشتراک

پیرامل فاؤنڈیشن اور یو ایس ایڈنے ریڈوِنگ ایرواسپیس لیباریٹریز نامی ایک کمپنی کے ساتھ مل کر ڈرون پرو جیکٹ  کوشرمندہ تعبیر کیا۔ واضح رہے کہ ریڈوِنگ بینگالورو میں واقع ایک ٹیکنالوجی کمپنی ہے۔حالانکہ اس سے قبل بھی ڈرون کی مدد سےدیہی علاقوں میں ادویات کے  پہنچانے کا کام کیا جاچکا ہے مگرڈاکٹر ہیگڑےکے مطابق اس ٹیکنالوجی کی مدد سے تشخیص نے  علاج کی نئی راہیں کھول دی ہیں۔ لیکن یہ کام اشتراک اور ٹیم ورک کے ذریعہ سے ہی ممکن ہو سکے گا۔ ڈاکٹر ہیگڑے نے بتایا

’’ پیرامل فاؤنڈیشن کی انامایا ٹیم نے ریڈوِنگ لیبس اور کالاہانڈی ضلع انتظامیہ کے ساتھ مل کر پائلٹ پروگرام چلایا۔ انامایا نے پروجیکٹ  کے ہر پہلو پر توجہ دی۔ مقامی حکومتی اداروں کے تعاون سے ضروری اجازت نامےحاصل کیے اور امداد فراہم کی۔مزید برآں، صف اول کے کام کرنے والوں کے ساتھ مل کر تھوک کے نمونوں کو بھی جمع کیا۔‘‘

رَیڈ وِنگ لیب نے ڈرون میں تبدیلیاں کیں تاکہ ان سے تھوک کے نمونوں کو آسانی سے محفوظ طریقے پر لے جایا جا سکے۔ مگر ہاں اس بات بھی خاص خیال رکھا کہ ڈرون کی پرواز بھرنے کی صلاحیت میں کوئی کمی واقع نہ ہو اور وہ محفوظ مقامات پر اتر سکے۔

مارچ ۲۰۲۲ ء میں پائلٹ پروگرام کے تحت اوڈیشہ میں کیسنگا اور نارلا سےتھوک کے ۱۷نمونوں کو جانچ کے لیے ڈرون کی مدد سے بھوانی پٹنہ ضلع ہسپتال لا یا گیا۔ ڈاکٹر ہگڑے کہتے ہیں کہ ریڈوِنگ کے ڈرون کی کارگردگی بہت شاندار رہی اور پائلٹ پروگرام بھی کافی کامیاب رہا۔ ڈاکٹر ہیگڑے بتاتے ہیں ’’ اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ تھوک کے نمونوں کو دور دراز علاقوں سے تشخیص کے لیے ٹی بی یونٹ بنا کسی نقصان کے لایا جا سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ امر بھی اتنا ہی ضروری ہے کہ  برادریوں کے افراد اور صحتی خدمات انجام دینے والے افراد بھی  یہ ظاہر کریں کہ ان کو ڈرون کے ساتھ کام کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہے۔تاکہ اس پروجیکٹ کی مستقبل میں توسیع ممکن ہو سکے۔    ‘‘

ڈاکٹر  شاہ نے بتا یا کہ اس طرح کے پروگرام کے لیے ٹیم نے قانونی اور انتظامی منظوریوں کے متعلق اہم معلومات حاصل کیں۔ اس کے علاوہ ٹیم نے یہ بھی جانا کہ عملہ کے مختلف افراد  دور دراز کے قبائلی علاقوں میں ٹی بی کی تشخیص اور علاج میں کیا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ جو افراد مریضوں کو براہ راست صحتی خدمات پہنچا رہے ہیں ان کےواسطے اس پروجیکٹ میں تبدیلی لانے کے امکانات ہیں۔ ڈولومنی ماجھی ،جو نارلا میں لیب ٹیکنیشین ہیں، کہتے ہیں کہ ڈرون کی مدد سے نمونوں کو سنبھال کر رکھنے اور ان کو براہ راست ہسپتال پہنچانے میں بہت آسانی پیدا ہو گئی ہے۔ اب ان کو طویل مدت تک فرج میں رکھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

اسی طرح چندراوتی جھانکڑ جو کہ خود ایک منظور شدہ سماجی صحتی کارکن (آشا) ہیں اور ٹی بی کے مریضوں کی تیمارداری پر  مامور ہیں، بتاتی ہیں کہ ڈرون کی مدد سے صحت کی خدمات انجام دینے والے افراد کو ایک ہی دن کے اندر جانچ کے نتائج معلوم ہو جاتے ہیں جس سے مریضوں کو جلد از جلد مطلع کیا جا سکتا ہے۔ بر خلاف موجودہ طریقہ کار کے جس میں نمونوں کو ٹی بی یونٹ لانے لے جانے میں کافی وقت ضائع ہوتا ہے۔

ڈرون ٹیکنالوجی کی کامیابی سے ڈاکٹر شاہ کو یقین ہو گیا ہے کہ یہ آنے والے برسوں میں بھارت کی صحت عامہ کا ایک جزو لا ینفک بن جائے گی۔ وہ خیال آرائی کرتے ہوئے کہتے ہیں ’’ گھر گھر دوائیں پہنچانا اور چانچ کی سہولت فراہم کرنا ایک معمول کی چیز ہونا چاہیے ، خواہ دیہی علاقے کتنے ہی دور ہوں اور ان کا راستہ کتنا ہی دشوار گزار کیوں نہ ہو۔‘‘

مائیکل گیلنٹ، گیلنٹ میوزک  کے بانی اور سی ای او ہیں ۔ وہ نیو یارک سٹی میں مقیم ہیں۔



تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے