سبز انقلاب کی سوغاتیں

خوراک کی پیداوار کےسلسلے میں دہائیوں پہلے ہوئے عالمی اشتراک سے زرعی پیداوار کے شعبے میں بھارت نئے سرے سے متعارف ہوا۔ آج زراعت کے شعبے میں ملک میں بپا ہوئے انقلاب نےخوراک کی عالمی پیداوار پر اثرا نداز ہونا جاری رکھا ہے۔

مائیکل گیلنٹ

July 2022

سبز انقلاب کی سوغاتیں

نارمن بورلاگ (دائیں) نے سائنسداں ایم ایس سوامی ناتھن (دائیں سے دوسرے) کے ساتھ مل کر پھپھوند سے محفوظ رہنے والی گندم کی اپنی نئی اقسام کی جانچ کی۔ اس سے حاصل شدہ نتائج نے بھارت میں گندم کی پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ کیا جسے سبز انقلاب کے نام سے موسوم کیا گیا۔

۱۹۶۰ اور ۱۹۷۰ کی دہائی میں سبز انقلاب کے نام سے معروف دَور نے دنیا میں خوراک کی پیداوار کے طریقے میں انقلابی تبدیلی بپا کی۔ اس کے نتیجے میں زرعی صلاحیتوں میں ملک گیر سطح پر کئی گنا اضافہ ہوا اور لاکھوں لوگوں کو کھانا میسرآیا ۔ اس سے اس بات کا بھی پتہ چلا کہ اختراعی عالمی تعاون کس قدر بار آور ثابت ہو سکتا ہے۔ بھارت میں سبز انقلاب کے نتیجے میں غذائی اجناس کی پیداوار ۱۹۵۴ء کے ۷۰ ملین ٹن کے مقابلے آج ۲۷۵ ملین ٹن ہو گئی ہے۔ اس حصولیابی کا باعث بننے والے عمل نے تکنیکی جدت کو متعارف کیا جس کی وجہ سے آنے والی نسلوں کے لیے پیداواری صلاحیت کو برقرار رکھنے کے لیے دیر پا تعلقات اور اداروں کا قیام ممکن ہو سکا۔

انقلاب کی جڑیں کہاں پیوست ہیں ؟

۱۹۶۰کے عشرے کے دوران دنیا زراعت کی فرسودہ تکنیکوں، فصلوں کی بیماریوں، خوراک کی تقسیم کے ناکافی نظام، خشک سالی اور سیلاب جیسی ماحولیاتی دشواریوں جیسے مسائل سے دوچار تھی۔ نیو یارک کی کورنیل یونیورسٹی میں ٹاٹا کورنیل انسٹی ٹیوٹ کے اطلاقی معاشیات کے پروفیسر اور ڈائریکٹر پربھو ایل پنگلی اس عہد کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ بھارت میں لاکھوں لوگوں کو خوراک کی شدید قلت اور بڑے پیمانے پر بھوک کا سامنا کرنا پڑتا تھا ۔ وہ کہتے ہیں ’’ اس مدت کے دوران قحط کی حیثیت ایک عام مسئلے کی ہو گئی تھی۔‘‘

اوراس مسئلے کو بھارت کی درآمد شدہ اناج پر بہت زیادہ انحصاریت نے دو چند کر دیا تھا۔ مرکزی زرعی یونیورسٹی کے سابق چانسلر آر بی سنگھ کہتے ہیں کہ بھارت کو ہر سال ۸ سے ۱۰ ملین ٹن اناج درآمد کرنا پڑتا تھا جس کے لیے ادائیگی اس کے لیے مالی مشکلات کا سامان کرتی تھی۔

اسی دوران سمندروں کی مسافت پر واقع میکسیکو میں امریکی سائنسداں نارمن بورلاگ کی قیادت میں زرعی تحقیق میں بڑی کامیابیاں مل رہی تھیں۔ گندم کی نئی،لچکدار اور وافر اقسام کی تیاری کے سلسلے میں ان کا کام غیر معمولی اہمیت کا حامل تھا۔

بھارتی سائنسداں ایم ایس سوامی ناتھن کے ساتھ مل کر بورلاگ نے بھارت میں پھپھوند سے محفوظ رہنے والی گندم کی اپنی نئی اقسام کی جانچ شروع کی۔ نتائج یادگارثابت ہوئے۔ محض پانچ برسوں میں کاشتکاروں کے ہاتھوں میں گندم پہنچنے سے بھارت کی گندم کی پیداوار دوگنی سے بڑھ کر تقریباً ۲۴ ملین ٹن سالانہ ہو گئی۔ سنگھ یاد دہانی کرواتے ہوئے کہتے ہیں ’’اس تیز رفتار تبدیلی کو امریکی بین الاقوامی امدادی اہلکار ولیم گوڈ نے ’سبز انقلاب‘ کا نام دیا اور سبز انقلاب کے بانی نارمن بورلاگ کو ۱۹۷۰ء میں لاکھوں لوگوں کو بھکمری سے بچانے کے عوض امن کا نوبل انعام عطا ہوا۔‘‘

پنگلی کے مطابق سبز انقلاب کا بھارت کی زراعت اورملک کی دیہی آبادیوں پر انقلابی اثر ہوا۔ وہ بیان کرتے ہیں ’’چاول اور گندم کی زیادہ پیداوار دینے والی اقسام میں سرمایہ کاری کے سبب خوراک کی فراہمی میں ڈرامائی بہتری آئی اور ۱۹۷۰ کی دہائی کے آخر تک بھارت غذائی اجناس میں خود کفیل ہو گیا۔ اور آج تووہ خوراک کا ایک بڑا برآمد کنندہ ملک ہے۔ عوام اب پہلے کی طرح بھوکے نہیں رہتے ، اس صورت حال میں تیزی سے بہتری ہوئی ہے۔ اور اب بھارت کو قحط کے خطرے کا سامنا بھی نہیں ہے ۔

زیادہ پیداوار زرعی آمدنی میں اضافے اور دیہی غربت میں تیزی سے کمی کا باعث بنتی ہے۔ یوں سبز انقلاب نے مجموعی اقتصادی ترقی کو رفتار دینے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔‘‘

بھارتی کونسل برائے زرعی تحقیق کے سابق ڈائریکٹر جنرل راجندر سنگھ پروڈا کہتے ہیں کہ سبز انقلاب نے نہ صرف بھارت کو خوراک کی فوری ضروریات پوری کرنے میں مدد کی بلکہ ’’اس نے بھارت کو اپنی بڑھتی ہوئی آبادی کے لیے مزید پیداوار جاری رکھنے کے لیے انتہائی ضروری قومی اعتماد بھی فراہم کیا۔‘‘

نئی پیش رفت سے امتیاز پیدا کرنا

سبز انقلاب محض ایک واحد تاریخی واقعہ نہیں تھا بلکہ یہ مسلسل ترقی پذیر امریکہ ۔بھارت زرعی تعاون کا آغاز تھا۔پنگلی کہتے ہیں’’گذشتہ۵۰ برسوں میں کپاس جیسی دیگر فصلوں اور بایو ٹیکنالوجی جیسی جدید تکنیک کی ترقی کے لیے شراکت داری میں توسیع ہوئی ہے۔ بھارتی سائنسدانوں نے امریکی یونیورسٹیوں اور تحقیقی مراکز میں تعلیم حاصل کی ہے اور کام کیا ہے، اور ایسی نئی ٹیکنالوجیوں کو تیار کرنے میں تعاون کیا ہے جس کا پوری دنیا میں زراعت پر بہت زیادہ اثر پڑا ہے۔‘‘

پروڈا کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک نے متعدد فصلوں اور پھلوں کے لیے جینیاتی وسائل کے مفت تبادلے کو شامل کرنے کی غرض سے اپنے رشتوں کو وسعت عطا کی ہے۔ وہ یاد دلاتے ہیں ’’دونوں ممالک کے درمیان بہت ساری فصلوں، خاص طور پر سویا بین اور مکئی کے لیے زرعی تجارت بھی موجود ہے۔ ماضی میں زرعی سائنسدانوں کی ایک بڑی تعداد نے امریکہ میں تعلیم و تربیت حاصل کی ۔ اور بہت سے خصوصی شعبوں میں اداروں اور ماہرین کے درمیان عمدہ سائنسی تعاون آج بھی موجود ہے۔ ‘‘ وہ چند مثالوں کے طور پر بیج سائنس ، کیڑے مار دوا کی اثر انگیزی میں بہتری اور زرعی مشینوں کے استعمال کے شعبوں کا حوالہ دیتے ہیں۔

سبز انقلاب کے زبردست فوائد اور نصف صدی کے بعد بھی زراعت میں مسلسل بہتری کے باوجود ماہرین کا خیال ہے کہ بھارت اور باقی دنیا کے لیے غذائی تحفظ سے متعلق مسائل بڑھتے رہیں گے۔ پنگلی کہتے ہیں ’’ آبادی میں اضافہ، تیزی سے شہرکاری، ماحولیاتی وسائل کو پہنچنے والے نقصانات اور موسمیاتی تبدیلی سے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت جیسے’ ہمارے خوراک نظام کو متاثر کرنے والے چیلنجوں کا ایک عالمی طوفان‘ہے۔ ہمیں بھارت اور دیگر جگہوں پر بہترین دماغ کی ضرورت ہے تاکہ ان چیلنجوں سے نمٹنے اور مستقبل کی آبادیوں کو پائیدار اور ماحول دوست طریقے سے کھلانے کے لیے حل تلاش کرنے پر توجہ مرکوز کی جا سکے۔‘‘

ان نوجوانوں کے لیے جو اس شعبے میں شامل ہونا چاہتے ہیں پنگلی عمدہ تعلیم، وسیع نقطہ نظر اور عالمی توجہ کی سفارش کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’’زراعت کو درپیش دشواریوں کے لیے سائنسی اختراع کے ساتھ ساتھ کاروباری ذہانت کی بھی ضرورت ہے۔ خاص طور پر امریکی یونیورسٹیوں اور نجی شعبے کے ساتھ بین الاقوامی تعاون اور شراکت داری ماضی کے مقابلے یکساں طور پر اہم ہے۔ زرعی ترقی پر توجہ مرکوز کرنے والی عملی زندگی بھارت اور دیگر ممالک میں دیہی غریب کسانوں اور شہری صارفین کی زندگیوں پر بہت زیادہ اثرات مرتب کرے گی۔ ‘‘

دشواریاں پریشان کن معلوم ہوسکتی ہیں، لیکن مدد کے مواقع بھی بہت زیادہ ہیں۔ پنگلی کہتے ہیں ’’ اطلاعاتی ٹیکنالوجیوں میں اپنی طاقت کے علاوہ بھارت زرعی تحقیق اور اختراع میں تیزی سے مستحکم مقام حاصل کر رہا ہے۔ ان شعبوں میں مہارت کے پیش نظر بھارت ڈیجیٹل زراعت میں ایک عالمی رہنما بن سکتا ہے۔ ڈیجیٹل آلات کا استعمال کرتے ہوئے امریکہ۔ بھارت کے تعاون سے کاشت کاری کو نہ صرف بھارت کے لیے بلکہ دیگر ممالک کے لیے بھی ایک چست درست زرعی حقیقت میں بدلا جا سکتا ہے۔ ‘‘

مائیکل گیلنٹ، گیلنٹ میوزک کے بانی اور سی ای او ہیں۔ وہ نیویارک سٹی میں رہتے ہیں۔


ٹَیگس

تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے