جنگلات کا موثرانتظام

جنگلات کے بہتر انتظام سے جنگلات کی پائیداری میں اضافہ ہونے کے ساتھ ساتھ معاشی مواقع اور طبقات کے لیے روزگار میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔

پارومیتا پین

June 2022

جنگلات کا موثرانتظام

وَین سسٹم کا استعمال کرکے اعدادوشمار جمع کرنے کا منظر تاکہ ورکنگ پلان تیار کیا جاسکے۔ (تصویربشکریہ ایس سدھاکر) 

جنگلات اور انسانوں میں نہایت ہی خوب صورت رشتہ ہے۔ یو ایس ایڈ کے عام ترقیاتی دفتر میں جنگلات کے ماہر اور ڈپٹی ڈائریکٹر ورگیز پال اس کے بارے میں بات کرتے ہوئے بتاتے ہیں  ’’ بھارت کے کل رقبہ کا تقریباً  ۲۵ فی صد حصہ جنگلات پر مشتمل ہے ۔ ملک کے تقریباً ۳۰۰ ملین باشندوں کا روزگار بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر  ان جنگلات  ہی سے وابستہ ہے۔  جنگلات معدومیت کے خطرے سے دوچار جنگلی حیات اور انتہائی ضروری جانور جیسے شیر اور گینڈے کو محفوظ مسکن بھی فراہم کرتے ہیں۔‘‘

جنگلات سے لوگ لکڑی اورجڑی بوٹی حاصل کرتے ہیں۔ لوگ اکثر اپنے مویشیوں کو جنگلات میں چرانے کے لیے بھی لاتے ہیں۔پال مگر تاسف کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں ’’ اس سے جنگلات کا رقبہ کم ہوتا ہے جس سے منفی نتائج مرتب ہوتے ہیں۔اگر جنگلات کا انتظام  بہتر طور پر کیا  جائے تو پیڑ  ماحول سے زیادہ مقدار میں کاربن ڈائی آکسائڈ کشید کریں گے ، پانی زیادہ مقدار میں حاصل ہوگا اور مقامی اور  قبائلی طبقات کے لیے روزگار کے مواقع میں بھی اضافہ ہوگا۔‘‘

پال اپنی بات جاری رکھتے ہوئے وضاحت کرتے ہیں ’’ جنگلات ماحولیات، ماحولیاتی تبدیلی اورمعاشرتی ،معیشتی اور روزگار کے پہلوؤں سے بھی  کافی اہمیت کے حامل ہیں۔مگر بہرحال ان کے انتظام کی خاطر کافی افرادی قوت درکارہے۔جنگلات کا انتظام ایک کثیرالجہتی  عمل ہے جس میں جنگلات کے ماحولیاتی اور ثقافتی کردار کو خاص طور پرملحوظ رکھا جانا چاہیے۔‘‘

جنگلات کا انتظام

جنگلات کے انتطام کو بہتر بنانے کے لیے یو ایس ایڈ اور بھارت سرکار کی وزارت برائے ماحولیات، جنگلات اور ماحولیاتی تبدیلی نے فاریسٹ پلس ۲اعشاریہ ۰پروگرام کا آغاز کیا ہے۔ اس پنج سالہ پروگرام کو تلنگانہ کے میڈک جنگل ڈویژن، بہار کے گیا جنگل ڈویژن اور کیرل کے ترو اننت پورم جنگل ڈویژن میں نافذ کیا گیا ہے۔ اس پروگرام کے تحت مقامی طبقات  کے تعاون سے جنگلات کے انتظام کو بہتر بنانے کا منصوبہ ہے۔

اس پروگرام کا اہم جزو وین ہے۔ یہ ایک مربوط نظام ہے جس کے تحت جنگلات کی انونٹری اور ماحولیاتی نظام کےاعداد وشمار کو موبائل ایپ کے ذریعہ سے جمع کیا جاتا ہے اور پھر ویب پورٹل پر خود کار طریقہ سے اس کا تجزیہ ہوتا ہے۔ دراصل وین نظام سٹیلائٹ کی تصویروں اور مخصوص مقامی معلومات کو کلاؤڈ میں محفوظ کردیتاہے۔ پھر اس ڈیٹا کی مدد سے جنگلات کے نظام کو بہتر بنا یا جاتا ہے۔ اس ڈیٹا کا تجزیہ کرکے جنگلات کی منصوبہ بندی  بھی کی جاتی ہے۔

وین نظام کی افادیت کا اندازہ گیا، میڈک اور ترو اننت پورم میں بخوبی ہوا۔ جنگلات کے ان ڈویژنوں میں وین نظام کا استعمال کرکے نہ صرف یہ کہ درست ڈیٹا جمع کیا گیا بلکہ اس ڈیٹا کوجمع کرنے اور اس کے تجزیہ میں درکار وقت میں بھی خاطر خواہ تخفیف ہوئی۔ میڈک جنگل ڈویژن کی بیٹ فاریسٹ افسر ڈی تیجسونی کے مطابق وین نظام سے نہ صرف یہ کہ ان کے کام کرنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوا ہے  بلکہ ڈیٹا یکجا کرنے کے وقت میں تقریباً ۶۰ فی صد تک کمی واقع ہوئی۔ وین میں تیجسونی کی ڈویژن کے متعلق پہلے سے درج معلومات فارم پُر کرتے وقت کافی کرآمد ثابت ہوئی۔

گیا میں بھی وین نظام نے افسران کو اہم تکنیکی معلومات فراہم کیں جس کے سبب جنگلات کے ماحولیاتی نظام پر مبنی بہتر انتظام ممکن ہو سکا۔ فاریسٹ پلس ۲اعشاریہ ۰پروگرام کے تحت جنگلات کی نگرانی کے لیے تیار شدہ اجزا٫ اور وین دونوں کی مدد سے ریموٹ سنسنگ ڈیٹا جمع کیا گیا۔یہ ڈیٹا جنگلات کی زمین کے تحفظ میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اب صرف میدانی اعداد وشمار پر انحصار نہیں رہا ہے۔ بہار میں گیا فاریسٹ سرکل کے کنزرویٹر آف فاریسٹ ایس سدھاکر بتاتے ہیں’’ابھی فی الحال ہمارے افسران کو اس کی تربیت دی جارہی ہے اورہم اپنے کمپیوٹرسروروں کے ڈیٹا محفوظ کرنے کی صلاحیت میں بھی اضافہ کررہے ہیں۔‘‘

Training on progress of members of JFMC

بہار کی جوائنٹ ممبر فاریسٹ کمیٹی کا ایک تربیتی پروگرام۔(تصویر بشکریہ ایس سدھاکر)

یوایس ایڈ/انڈیا کے عام ترقیاتی آفس کے ڈائریکٹر مارک ٹیگن فلڈٹ تصریح کرتے ہیں ’’ وین نظام سے حاصل شدہ اعداد شمار کی مدد سے کیرل، تلنگانہ اور بہار میں دو ملین  ہیکٹررقبہ پر پھیلے جنگلات کے لیے  ورکنگ پلان تیار کیا جارہا ہے۔ان منصوبوں کے نفاذ سے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں تخفیف واقع ہو گی، کاربن جذب کرنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوگا، جنگلات سے آبی بہاؤ بہتر ہوگا اور حیاتیاتی تنوع کا تحفظ ہوگا۔‘‘

مقامی طبقات کا اشتراک

مقامی طبقات کے لیے معاشی مواقع میں اضافہ کرنا بھی فاریسٹ پلس ۲اعشاریہ ۰پروگرام کا  ایک اہم پہلو ہے۔سدھاکر بتاتے ہیں ’’ ایکو سیاحت کے منصوبوں کو دنگیشوری اور بارابر پہاڑیوں میں نافذ کیا گیا ہے۔ پھول دراصل ٹھوس فضلہ ہیں جن کا اب بہتر طریقہ پر مختلف اشیا٫ تیار کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے جن کو جنگلات کی مشترکہ کمیٹی فروخت کرتی ہے۔ ابھی فی الحال ہم ابتدائی مرحلے میں ہیں مگر ہم کاروبار کی جانب بھی توجہ دے رہے ہیں ۔ جیسے ہی ہمارا کاروبار بڑھے گا ، برادریوں کے لیے روزگار کے مواقع میں بھی اضافہ ہوگا۔ مصنوعات کو آن لائن فروخت کرنے سے مصنوعات کا مطالبہ بڑھے گا جس سے ہمارے صارفین کی تعداد بڑھے گی۔ اس کے علاوہ روزگار کے مواقع میں مورنگا ویلیو چین مصنوعات اورمہابودھی اور وشنو پد مندروں میں پھولو ںکو دوبارہ استعمال میں لاکر اگر بتی تیار کرنا، جنگلی شہد اور اچار تیار کرنا  بھی شامل ہیں۔ ان کے معیار کو مزید بہتر بنا کر ان کوبودھ گیا میں دکانوں پر فروخت کیا جائے گا ،جہاں سیاح ہمارے بڑے صارفین ہیں۔  حالاں کہ مستقبل میں اپنی مصنوعات کے لیے نئے پلیٹ  فارم تلاش کرنا ایک اہم مسئلہ ہے۔ ‘‘

سدھاکر بتاتے ہیں کہ اس طرح کے ترقیاتی پروگراموں کے سبب جنگلات کے افسران کو دیہی طبقات  کے ساتھ مل کر قریب سے کام کرنے کے مواقع حاصل ہوئے ہیں۔ اس سےآپس میں  ایک طرح کی ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے جس سے انسان اور جنگلی حیات تنازعات جیسے مسائل کو بہتر طریقہ پر حل کرنا ممکن ہو سکا ہے ۔ فاریسٹ پلس ۲اعشاریہ ۰پروگرام ٹیم سے وقتاً فوقتاً ہونے والی گفتگو اور اس ٹیم کے ذریعہ دی جانے والی تربیت سے  ان لوگوں کو اس پروگرام کے اغراض و مقاصد کی تفہیم میں مدد ملی ہے۔ ’’ہم جنگلات کی بعض سرگرم کمیٹیوں کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں  ۔ہمارا ارادہ مستقبل میں آوٹ ریچ کی مزید توسیع کرنے کا ہے۔ ہم پابندی سے ون مہوتسو مناتے ہیں، مقامی کمیٹیوں سے ملاقاتیں کرتے ہیں، ماحولیاتی موضوعات پر فلمیں دکھاتے ہیں اور جنگلات کے تحفط کےمتعلق اٹھائے جانے والے اقدامات پر معلوماتی پیمفلیٹ بھی تقسیم کرتے ہیں۔‘‘

سدھاکر کا بحیثیت فاریسٹ افسر ہدف ہے کہ اس طرح کی زیادہ سے زیادہ کمیٹیوں کو مختلف اقسام کی سرگرمیوں میں شامل کیا جائے۔ وہ کہتے ہیں ’’ ہم چاہیں گے کہ گیا ماڈل کو جنگلات کی روہتاس ڈویژن اور کیمورڈویژن میں بھی نافذ کیا جائے۔‘‘

اس طرح فاریسٹ پلس ۲اعشاریہ ۰پروگرام کے تحت  مزید جنگلات کا اضافہ ہوگا اورجنگلات پر منحصر طبقات کی مدد سے جنگلات کا انتظام مزید بہتر ہو سکے گا۔

پارومیتا پین رینو میں واقع یونیورسٹی آف نیواڈامیں گلوبل میڈیا اسٹڈیز کی اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔



تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے