امریکی یونیورسٹیوں میں صحت عامہ کی ڈگری میں بڑھتی دلچسپی دیکھنے کو مل رہی ہے جو طلبہ کو متنوع پیشہ اور تحقیقی کریئر کے لیے تیار کرتی ہیں۔
July 2020
کولوراڈو اسکول آف پبلک ہیلتھ کے طلبہ اور اساتذہ نے ۲۰۱۸ء میں بھارت کا دورہ کیا تاکہ عوامی طبّی احتیاج کا فوری اندازہ لگا سکیں۔ تصویر بشکریہ کولوراڈو اسکول آف پبلک ہیلتھ۔
جس طرح سے کورونا وائرس وبا کے پس منظر میں صحت عامہ میں عمومی دلچسپی بڑھی ہے، اسی طرح سے صحت عامہ کی تعلیم میں بھی دلچسپی میں اضافہ ہوا ہے۔یونیورسٹی آف کیلیفورنیا (یوسی)برکلے اسکول آف پبلک ہیلتھ میں داخلوں اور بھرتی کی ایسوسی ایٹ ڈائرکٹر مشیل ازورین کہتی ہیں’’کورونا کی وجہ سے صحت عامہ کے کئی اداروں ، جنہوں نے اپنی درخواست کی آخری تاریخ میں توسیع کر دی تھی،کے تمام زمروں میں گذشتہ سال کے مقابلے رواں سال میں درخواستوں میں سترہ فی صد کا اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔‘‘وہ امید کرتی ہیں کہ یہ رجحان آئندہ بھی جاری رہے گا۔
کولورَیڈو اسکول آف پبلک ہیلتھ (کولو رَیڈو ایس پی ایچ )کے طلبہ کے امور اور تعلیمی معاملات کی ڈائریکٹر چول بینین کہتی ہیں’’میں امید کرتی ہوں کہ آئندہ سالوں میں صحت عامہ کی ڈگریوں میں طلبہ کی دلچسپی بڑھے گی۔وبائیات یقینی طور پر ایک ایسا شعبہ ہے جس میں ترقی دیکھنے کو مل سکتی ہے۔ لیکن مجھے لگتا ہے کہ ہم صحت عامہ کے دیگر شعبوں مثلاً ماحولیاتی اور پیشہ ورانہ صحت، صحت پالیسی، حیاتیاتی امراض، ذہنی صحت، عالمی صحت، اور برادری اور طرز عمل پر مبنی صحت کے شعبوں میں بھی طلبہ کی اضافی دلچسپی کی امید کر سکتے ہیں۔‘‘
صحت عامہ ایک وسیع میدان ہے جہاں مضامین کے مجموعے دیکھنے کو ملتے ہیں۔مثال کے طور پر یو سی برکلے میں ان مضامین میں صحت پالیسی اور انتظامیہ، متعدی امراض، صحت عامہ کا تغذیہ، وبائی امراض اور حیاتیاتی امراض، صحت اور معاشرتی سلوک اور ماحولیاتی صحت سائنس شامل ہیں۔
انڈرگریجویٹ یا گریجویٹ سطح پر صحت عامہ کے پروگرام میں شمولیت کے تقاضے ایک یونیورسٹی سے دوسری یونیورسٹی تک مختلف ہوتے ہیں اوران کا انحصار ارتکاز کے شعبے پر ہوتا ہے۔جب کہ یوسی برکلے جیسی کچھ یونیورسٹیاں صحت عامہ میں انڈر گریجویٹ اور گریجویٹ دونوں ہی طرح کی ڈگریاں دیتی ہیں ۔ جب کہ یونیورسٹی آف کولو رَیڈو جیسے ادارے صرف گریجویٹ ڈگریوں پر ہی توجہ دیتے ہیں۔
یوسی برکلے میں صحت عامہ میں انڈر گریجویٹ میجر کرنے کے خواہشمند طلبہ سے لازمی طور پر امید کی جاتی ہے کہ انہوں نے حیاتیاتی سائنس، ریاضی اور سوشل سائنس میں لازمی کورسیز کیے ہوں گے۔ جہاں تک یہاں کے گریجویٹ کورسوں کا تعلق ہے تو ان کی ضروریات مختلف ہوتی ہیں۔ ازورین کہتی ہیں’’حالاں کہ صحت پالیسی اور مینجمنٹ ایم پی ایچ (ماسٹر آف پبلک ہیلتھ )کورس میں گریجویشن کے بعد دو برس کا کام کا تجربہ درکار ہوتا ہے۔ جب کہ وبائیات یا بایو اسٹیٹِکس ایم پی ایچ میں انڈر گریجویٹ طلبہ براہ راست بھی داخلہ پا سکتے ہیں۔‘‘
کولورَیڈو اسکول آف پبلک ہیلتھ کے ماسٹر آف پبلک ہیلتھ پروگرام کے درخواست دہندگان مختلف شعبوں سے آتے ہیں جن کے جداگانہ تجربے ہوتے ہیں۔بینین کہتی ہیں’’صحت عامہ کی ڈگری کی پیش روی کرنے والے بعض شعبے حیاتیاتی سائنس، سوشل سائنس، مواصلات، یا ریاضی اور شماریات بھی ہوسکتے ہیں۔ہمارے بہت سے طلبہ صحت کے پیشوں (جیسے نرس، ڈاکٹر اور معالج کے معاونین)سے صحت عامہ کے لیے آتے ہیں جو آبادی کی صحت کے بارے میں وسیع تر نظریہ رکھتے ہیں۔‘‘
بینین مزید بتاتی ہیں ’’داخلے کی ضروریات پروگرام کے لحاظ سے بدلتی رہتی ہیں۔ تاہم ہمارے تمام پروگراموں میں کم از کم بیچلرڈگری کی ضرورت ہوتی ہے اور بین الاقوامی طلبہ کو ضرورت ہوتی ہے کہ ان کی تحریر کی جانچ ڈبلیو ای ایس(ورلڈ ایجوکیشن سروسیز) کے ذریعہ کی جائے ۔ ایسے طلبہ کا انگریزی کا بطور ایک غیر ملکی زبان کا ٹیسٹ اسکور ۷۵یا اس سے زیادہ ہونا چاہیے۔‘‘
کولورَیڈو اسکول آف پبلک ہیلتھ حصول تعلیم کے لیے ایک منفرد جگہ ہے کیوں کہ یہاں تین تعلیمی ادارے ہیں جو آپس میں قریبی تعاون کرتے ہیں۔ یہ ادارے ہیں : اورورا میں واقع یونیورسٹی آف کولورَیڈو اینچوز میڈیکل کیمپس، فورٹ کولینس کی کولورَیڈو اسٹیٹ یونیورسٹی اور گریلے کی یونیورسٹی آف ناردرن کولو رَیڈو ۔
بینین کہتی ہیں’’یہ تعاون ہمارے طلبہ کو اساتذہ کی مہارت اور مواقع کے ایک وسیع سلسلے تک رسائی فراہم کرتا ہے اور انھیں اپنی تعلیمی ضروریات اور مفادات کے مطابق اپنے پروگرام بنانے کی اجازت دیتا ہے۔کولورَیڈو اسٹیٹ یونیورسٹی انتہائی کثیر مضامین والی یونیورسٹی ہے۔ اور کولورَیڈو ایس پی ایچ کورسیز کے علاوہ اس کیمپس میں طلبہ کو صحت عامہ سے وابستہ بہت سارے کورس تک رسائی حاصل ہے جنہیں سوشل ورک ، نفسیات ، ماحولیات ، بشری علوم، مویشیوں سے متعلق علوم اور زرعی سائنس وغیرہ کا پس منظر رکھنے والے معلمین پڑھاتے ہیں۔‘‘
مثال کے طور پر یونیورسٹی آف کولورَیڈو اینچوز میڈیکل کیمپ میں کولورَیڈو اسکول آف پبلک ہیلتھ کے طلبہ اور اساتذہ کی اکثریت ہے۔بینین کہتی ہیں’’چوں کہ یہ ایک طبی کیمپس ہے ، اس لیے کلاس کی پڑھائی کی تکمیل کے لیے اساتذہ کے ساتھ تحقیق کرنے کے متعدد مواقع موجود ہیں۔ یہ تحقیق تجربہ گاہ پر مبنی علم ِسموم تحقیق سے لے کر حقیقی صحت کے ڈیٹا بیس تجزیے اور ریاست میں پھیلے طبقات کے ساتھ برادری پر مبنی شراکت دار تحقیق تک ہے۔اس کے برعکس یونیورسٹی آف ناردرن کولورَیڈو میں ہونے والے پروگرام مقامی دیہی طبقات کی جانب بہت زیادہ مائل ہیں۔ لہٰذا یہ ان طلبہ کے لیے ایک بڑی جگہ ہے جو طبقات سے وابستہ چیزوں میں سرپرست تلاشتے ہیں۔‘‘
یوسی برکلے میں ماسٹر آف پبلک ہیلتھ پروگرام میں داخلہ لینے والے طلبہ تعلیم کے دوران عملی تجربہ بھی حاصل کرتے ہیں۔ازورین کہتی ہیں’’طلبہ کو اپنے پہلے اور دوسرے سال کے درمیان موسمِ گرما میں فل ٹائم انٹرن شپ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ طلبہ کو کلاس روم میں براہ راست تجربہ بھی ہوتا ہے۔‘‘ جب کہ بینین کہتی ہیں’’میں نے ایم پی ایچ پروگرام یو سی برکلے سے کیا۔میں نے پروجیکٹ پر مبنی کلاسزلیں جہاں مجھے بیرونی گاہکوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ہم نے کلاس روم میں سیکھی ہوئی معلومات کا استعمال کرتے ہوئے اور صحت عامہ کے حقیقی پروجیکٹوں پر اپنی نئی ہنرمندیوں اور جانکاری پر مشق کی۔‘‘
دونوں یونیورسٹیاں صحت عامہ کے پروگراموں میں تعلیمی امتیاز اور براہ راست تجربات کا مجموعہ پیش کرتی ہیں جس سے گریجویٹ افراد کو ملازمت کے متعدد مواقع فراہم ہوتے ہیں۔ازورین بتاتی ہیں’’ایسے طلبہ کو پوری دنیا میں صحت عامہ کے اداروں میں ملازمت مل جاتی ہے۔ کچھ لوگ صحت عامہ کے مقامی محکموں یا غیر منفعتی تنظیموں میں کام کرتے ہیں، جب کہ بعض دیگر تحقیق کے لیے بین الاقوامی سفر بھی کرتے ہیں۔‘‘
بینین کے مطابق کولو رَیڈو اسکول آف پبلک ہیلتھ کے بہت سے گریجویٹ افراد کو غیر منفعتی تنظیموں، این جی اوز اور سرکاری شعبے میں ملازمتیں ملی ہیں۔دیگر سابق طلبہ اسپتالوں اور حفظان صحت کی تنظیموں میں، فارمیسی، بایو ٹیک ، تعلیم اور فوج جیسے شعبوں میں کام کرتے ہیں اور مشیر کی حیثیت سے اپنی خدمات انجام دیتے ہیں۔
صحت عامہ کے پروگراموں کے گریجویٹ افراد میں ملازمت کی اونچی شرح اور موجودہ عالمی صحت بحران نے صحت عامہ کی ڈگریوں کے لیے درخواست دینے والوں کی ایک بڑی تعداد کو اس کورس کی جانب راغب کیا ہے۔ بینین کہتی ہیں’’ مجھے لگتا ہے کہ موجودہ بحران نے نہ صرف لوگوں کو صحت عامہ کی ایک مضبوط اور اچھی طرح سے تیار افرادی قوت کی اہمیت کے بارے میں زیادہ بیدار کیا ہے، بلکہ کچھ معاشروں پر اس کے غیر متناسب اثرات ہمارے ملک میں اور دنیا بھر میں موجودہ اور طویل عرصے سے چلے آ رہے صحت سے متعلق عدم مساوات کی زبردستی یاد دہانی بھی کرا رہے ہیں۔وہ نجی شعبے میں صحت عامہ کے پیشہ ور افراد کی زبردست مانگ کی بھی پیش گوئی کرتی ہیں کیوں کہ بہت سی کمپنیوں کو اپنے صارفین اور اپنے ملازمین دونوں کے لئے صحت کے معیارات اور صحت کو فروغ دینے کی حکمت عملی کے بارے میں پہلی بار پھر سے سوچنا یااز سر نو غور کرنے کو مجبور ہونا پڑا ہے۔‘‘
نتاشا مِلاس نیویارک سٹی میں مقیم ایک آزاد پیشہ قلمکار ہیں۔
تبصرہ