ممبئی کے امریکی قونصل خانہ کا نیٹ ورکنگ پروگرام ’ڈیجیٹل ورلڈ‘ بن چکی کرہ ارض کی صنفی تقسیم سے نمٹنے کا کام انجام دے رہا ہے۔
July 2024
ممبئی قونصل خانہ کے قونصل جنرل مائیکل ہینکی(دائیں) ’ڈیجیٹل آل: اننوویشن اینڈ ٹیکنالوجی فار جنیڈر اکولیٹی‘ تقریب میں حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے۔ (تصویر بشکریہ نکولیٹ ڈسوزا)
گذشتہ ایک دہائی کے دوران ڈیجیٹل دنیا میں خواتین کی عدم شمولیت سے ترقی پذیر ممالک کو تقریباً ایک ٹریلین امریکی ڈالر کا معاشی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ یو این ویمن کی ایک حالیہ رپورٹ بعنوان ’جینڈر اسنیپ شاٹ ۲۰۲۲‘ میں خواتین پر ڈیجیٹل تقسیم کے اثرات کا ایک تشویش ناک جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ ماہرین نے متنبہ کیا ہے کہ اگر زیادہ سے زیادہ ڈیجیٹل شراکت داری کے ذریعے صنفی مساوات کی حوصلہ افزائی کے لیے کوئی ٹھوس اقدام نہیں اٹھایا گیا تو یہ معاشی نقصان کا یہ حجم ۲۰۲۵ء تک ایک اعشاریہ پانچ ٹریلین امریکی ڈالر تک پہنچ سکتا ہے۔
اس خلا کے عوامل بہت سارے ہیں۔ حالیہ مطالعات نے تقریباً ۳۸ فی صد خواتین کو متاثر کرنے والے آن لائن تشدد کو ان کی آن لائن موجودگی میں ایک بڑی رکاوٹ کے طور پر اجاگر کیا ہے۔ ان مسائل کو حل کرنے کے لیے ممبئی میں واقع امریکی قونصل خانہ کا پروگرام ’’ڈیجِٹ آل: صنفی مساوات کے لیے جدت طرازی اور ٹیکنالوجی‘‘ خواتین کو اقتصادی طور پر با اختیار بنانے اور کام کی جگہوں پر ان کی شمولیت کو فروغ دینے پر مرکوز ہے۔ نیٹ ورکنگ سے متعلق اس پروگرام کو کنفیڈریشن آف انڈین انڈسٹری (سی آئی آئی) کے تعاون سے منعقد کرایا جا رہا ہے۔
رسائی کی حوصلہ افزائی
اس پروگرام کی ایک کڑی کے طور پر سی آئی آئی ویسٹرن ریجن انڈین ویمن نیٹ ورک (آئی ڈبلیو این) نے اپنے تمام شراکت داروں کے درمیان رابطہ قائم کرنے اور کام کی جگہ پر ڈیجیٹل ٹولس تک رسائی کو بہتر بنانے کے لیے ممبئی میں ایک تقریب کا اہتمام کیا۔ مختلف شعبوں میں صنعت کی ہستیوں اور ماہرین تعلیم کے ساتھ مل کر کام کرنے والی تنظیم سی آئی آئی نے آئی ڈبلیو این کا قیام خواتین کی پیشہ ورانہ ترقی کے لیے ایک پلیٹ فارم کے طور پر کیا ہے۔ ان کی اہم توجہ کے شعبوں میں سے ایک ٹیکنالوجی میں تنوع ہے۔
تقریب میں کم و بیش ۳۰ پیشہ ور خواتین نے شرکت کی جن میں نمایاں مقررین میں شریک چیئر سی آئی آئی ایل ڈبلیو این ویسٹرن ریجن رنجنا میترا اور بزنس ڈیولپمنٹ کنسلٹنسی فیوچر فیکٹری کی شریک بانی گیتکا کامبلی شامل تھیں۔ ایک پینل مباحثے میں ٹاٹا کنسلٹنسی سروسیز کی سینئر نائب صدر اور چیف لیڈرشپ اینڈ ڈائیورسٹی آفیسر ریتو آنند اور فرٹاڈوس اسکول آف میوزک کی شریک بانی اور سی ای او تنوجا گومز نے شرکت کی۔ اس بات چیت میں کام کی جگہ پر کریئر کی ترقی کے لیے ضروری معلومات اور مہارت کے حصول کی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی۔
مساوات کے لیے ٹیکنالوجی
جدت طرازی اور ٹیکنالوجی صنفی مساوات کو فروغ دینے کے اہم ذرائع ہیں جو بااختیار بنانے، شمولیت، تنوع اور مواقع کی نئی راہیں کھولتے ہیں۔ میترا کہتی ہیں ’’ہندوستانی صنعت میں ڈیجیٹل جدت طرازی کو بروئے کار لاکر ہم خلا کو پاٹ سکتے ہیں، تمام تعصبات کو چیلنج کر سکتے ہیں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ تعلیم اور صنعت کے درمیان موجودہ فرق کو ختم کر سکتے ہیں۔‘‘
ممبئی قونصل خانہ کے قونصل جنرل مائیکل ہینکی اور صنعت کے سینئر نمائندوں نے بہتر کاروباری نتائج کے حصول کے لیے کام کی جگہ، خاص طور پر ایکزیکٹو عہدوں پر تنوع کی اہمیت پر زور دیا۔ اس پروگرام نے ایک معاون ماحولیاتی نظام تشکیل دے کر خواتین میں جدت طرازی کو فروغ دینے کی کوشش کی تاکہ وہ ٹیکنالوجی اور جدت طرازی کے شعبوں میں تکنیکی مہارتوں پر کام کر سکیں اور نظام سے متعلق رکاوٹوں کو دور کر سکیں۔ ان کوششوں کے ذریعے اس کا مقصد خواتین کو قائدانہ کردار ادا کرنے اور ڈیجیٹل معیشت میں تبدیلی لانے کے لیے بااختیار بنانا تھا۔
پارومیتا پین رینو میں واقع یونیورسیٹی آف نیواڈا میں گلوبل میڈیا اسٹڈیز کی اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔
اسپَین نیوزلیٹر کو میل پر مفت منگوانے کے لیے لنک میں دیے گئے فارم کو بھریں: https://bit.ly/SubscribeSPAN
تبصرہ