فلبرائٹ۔نہرو اسٹوڈنٹ ریسرچ اسکالر ہانا لائیڈر نے ہند میں وظیفہ یافتگی کا اپنا وقت موجودہ ہیمو گلوبین پیما آلات کو درپیش دشواریوں کی تشریح کرنے اورہند کے دیہی علاقوں میں حاملہ خواتین کی مؤثر دیکھ ریکھ کی خاطر اعداد وشمار یکجا کرنے والے ایک کڑے کو ڈیزائن کرنے پر توجہ مرکوزکرنے میں صرف کیا۔
March 2020
فانا لائیڈر نے ایک ویب پر مبنی پلیٹ فارم سواستھ سکھی اور ڈیٹا یکجا کرنے والے ہاتھ کے ایک کڑے پر کام کیا جو کہ ہر ایک مریض کی شناخت اور اس کے طبی ریکارڈوں کا طبعی لنک فراہم کرنے والےکیو آر کوڈ سے لیس ہے۔ ڈاکٹر مونا لیزاپاڈھی
انسانوں میں خون کی کمی انڈیا میں صحت عامہ کو درپیش ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔سنہ ۲۰۱۸ ء میں منظر عام پر آئی نیوٹریشن فاؤنڈیشن آف انڈیا کی ایک تحقیقی رپورٹ کے نتیجے بتاتے ہیں کہ ملک کے باشندوں کی اکثریت (اس میں ہر عمر سے تعلق رکھنے والے مرد اور عورت شامل ہیں) انیمیا یعنی خون کی کمی کا شکار ہے۔انیمیا کے شکار کسی شخص کے اندر ہیموگلوبِن کے سرخ خون کے خلیوں کی مقدار معمول سے کم ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے جسم کے تمام حصوں تک آکسیجن پہنچانے کی خون کی صلاحیت گھٹ جاتی ہے۔ اس سے صحت سے متعلق کئی مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ خون میں ہیموگلوبن کم ہونے سے پیداواریت میں کمی واقع ہوتی ہے، انسان بیماریوں کا شکار بنتا ہے اور بعض اوقات موت بھی واقع ہوجاتی ہے۔درست اور مؤثر تشخیص بروقت مداخلت کو یقینی بناتی ہے مگر ایسا اسی وقت کیا جاسکتا ہے جب صحت سے متعلق عملہ درست تشخیص کرنے پر قادر ہو۔
۱۹۔۲۰۱۸ء میں فل برائٹ۔ نہرو اسٹوڈنٹ ریسرچ پروگرام میں شرکت کرنے والی ہانا لائیڈر نے راجستھان کے تلونا میں واقع بیئر فوٹ کالج میں وِ مین ویلنیس انی شی ایٹو ٹیم میں شمولیت اختیار کی تاکہ موجودہ ہیمو گلوبین پیما آلات کو درپیش دشواریوں کی وضاحت کرسکیں،ہند کے دیہی علاقوں میں حاملہ خواتین کی مؤثر دیکھ ریکھ کی خاطر اوردیہی موبائل کلینکس میں استعمال کے لیے موزوں، مؤثر اور کم لاگت والا حل تیارکرسکیں۔ وہ بتاتی ہیں ”میں نے دور درازکے مطب میں استعمال کے لیے موزونیت کا تعین کرنے کی غرض سے ہیمو گلوبن کی پیمائش کے ۶ نکات کی دیکھ بھال کا تقابلی تجزیہ کیا۔میں نے۹ دیہی اسکولوں میں اعداد وشمار یکجا کرنے کے لیے صحت عامہ سے متعلق طبقاتی کارکنان کی ایک ٹیم کے لیے صلاحیت سازی کو بھی مربوط کیا۔امریکہ واپس آنے کے بعد میں نے ۱۲۰۰ شرکاء کے نتائج کے بارے میں اعداد وشمار کا تجزیہ کر رہی ہوں اور نتائج سے متعلق رپورٹ انگریزی اور ہندی زبانوں میں تیار کر رہی ہوں۔“
لائیڈر نے ریاست وِسکونسِن کی راجدھانی میڈیسن میں واقع یونیورسٹی آ ف وِسکونسِن سے بایو میڈیکل انجینئرنگ میں بیچلر ڈگری کے علاوہ جنوب ایشیائی مطالعات اور عالمی انجینئرنگ میں دو سرٹیفکٹ بھی حاصل کیے۔ ان کی دلچسپی انڈیا کے حفظان صحت کے امور میں اس وقت پیدا ہوگئی جب وہ کالج کے دوسرے سال میں تھیں اور وہ موسم خزاں کا تھا۔یہ شوق انہوں نے ایس این بوس اسکالرس پروگرام کی کفالت والی انٹرن شپ کی بدولت پورا کیا۔واضح رہے کہ ہند۔ امریکی اداروں کے مابین طلبہ کا تبادلہ پروگرام ہند۔ امریکہ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فورم،حکومت ِ ہند کے محکمہ برائے سائنس اور ٹیکنالوجی اور دیگر کے مابین ایک شراکت داری ہے۔ لائیڈر اپنے بارے میں بتاتے ہوئے کہتی ہیں ”میں ایک ایسی انجینئر ہوں جس نے چیزوں کی اختراع، ان کی تخلیق، ڈیزائن اور ترقی کے لیے تربیت حاصل کی ہے۔ اس سلسلے میں موجود ادب کا تفصیلی جائزہ لینے اور مہینوں تک ان کا مشاہدہ کرنے کے بعد میں نے ایک پروجیکٹ کے تحت ہیمو گلوبن پیمائش کے مقبول آلات(دیہی کلینک میں استعمال ہونے والے طبی آلات) کا تقابلی تجزیہ کرنا شروع کیا۔ بازار میں بہت ساری مصنوعات پہلے ہی سے دستیاب ہیں جن کی رسائی بیئر فوٹ کالج جیسی دیہی کلینک تک ہے۔ یہ آلات تشخیص کے مختلف اصولوں کا استعمال کرتے ہیں۔ ان میں بعض ڈیجیٹل ہیں اور بعض نہیں بھی ہیں۔ان میں سے بعض استعمال کے لحاظ سے دوسروں کے مقابلے زیادہ پیچیدہ ہیں۔ ان میں سے کچھ مہنگے ہیں تو کچھ سستے بھی ہیں۔ مگر ان میں سب سے زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ زیادہ تر معاملات میں ان آلات سے حاصل شدہ نتائج ایک دوسرے سے مطابقت نہیں رکھتے۔“
لائیڈر سواستھ سَکھی یا صحت دوست پروجیکٹ میں بھی شامل رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں ”یہ ایک ایسا پروجیکٹ تھا جس کے تصور میں میری شریک میری فل برائٹ اتالیق ڈاکٹر مونا لیسا پاڈھی تھیں۔ پاڈھی بیئر فوٹ کالج میں خواتین کے فلاح و بہبود پروگرام کی سربراہ ہیں۔سواستھ سَکھی کا خیال اصل میں کڑے سے متعلق ایک خیال تھا جسے خواتین پہن سکیں اور جس میں ان کی صحت سے متعلق معلومات اور طبی تاریخ محفوظ ہو۔ اس پروگرام کے تحت حمل سے پیشتر اور اس کے دوران خواتین کی صحت پر توجہ مرکوز کی جانی تھی۔لائیڈر بتاتی ہیں ”یہ خیال خوشی بے بی پلیٹ فارم سے بہت زیادہ ملتا جلتا ہے۔ خوشی بے بی پلیٹ فارم کے تحت ماں کے ذریعہ پہنے جانے والے ہار میں بچے کی ٹیکہ کاری سے متعلق ریکارڈ موجود رہتا ہے۔بیئر فوٹ کالج کے دو ساتھیوں کے ساتھ میں نے خوشی بے بی ٹیم سے راجستھان کے اُدے پور میں واقع ان کے صدر دفتر میں ملاقات کی تاکہ ہم تبادلہ ئ خیال کرکے یہ جاننے کی کوشش کریں کہ ہماری ٹیم باہم مل کر کیسے کام کرسکتی ہے۔“
لائیڈر کی ہندی زبان سے واقفیت (ہندی کی تعلیم انہوں نے میڈیسن میں واقع یونیورسٹی آف وِسکونسِن سے حاصل کی۔ اس کے علاوہ کریٹیکل لینگویج اسکالر شپ پروگرام میں شرکت نے بھی ہندی سے ان کی شُد بُد میں اضافہ کیا۔)کی وجہ سے انڈیا میں ان کا کام بہت آسان ہو گیا۔ مثال کے طور پربئیرفوٹ کالج میں مقامی عملہ کے بہت سارے اراکین مہارت کے ساتھ انگریزی میں بات چیت نہیں کر پاتے تھے۔محکمۂ طب کے ۲۰ نفوس پر مشتمل عملہ میں سے صرف دو افراد ہی انگریزی بولتے تھے۔ لائیڈر بتاتی ہیں ”ہندی بولنے کی صلاحیت میرے لیے اس لحاظ سے ضروری تھی تاکہ میں اپنے ساتھی کارکنوں کے ساتھ تعلقات اُستوار کر سکوں، ان کا اعتماد حاصل کر سکوں، شعبے کے مشاہدات کو پوری طرح سمجھ سکوں اور مریضوں سے بات چیت کر سکوں۔یہاں تک کہ میں دستاویز سازی کے لیے نوٹ بنانے اورحوالہ کے طور پر مقامی عملہ کے لیے رپورٹ تیار کرنے کے لیے ہندی زبان میں حاصل اپنی تحریری صلاحیت کو بہ روئے کار لائی۔ مجموعی طور پر، انڈیا میں فل برائٹ فیلوشپ کے دورانِ قیام میں نے اس وقت ہندی کو اپنے روزانہ کے۸۰ فی صد کام کی تکمیل کے لیے استعمال کیا۔“
نتاشا مِلاس نیویارک سٹی میں مقیم ایک آزاد پیشہ قلمکار ہیں۔
تبصرہ