خلا سے طبّی ٹیکنالوجی کا حصول

این آئی ایچ اور ناسا نے آئی ایس ایس پر حیاتیاتی ٹیکنالوجی تیار کرنے اور تجربہ کرنے کے لیے شراکت داری کی ہے جو زمین پر قابل استعمال ہو۔

کریتیکا شرما

August 2024

خلا سے طبّی ٹیکنالوجی کا حصول

ناسا کی خلا باز کرسٹینا کوچ انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن پر لائف سائنسز گلووباکس کے اندر گردے کے خلیات کے تجربے میں مصروف ہیں تاکہ یہ جانچ سکیں کہ مائیکرو گریویٹی اور خلا میں سفر کے دیگر عوامل گردوں کی صحت کو کیسے متاثر کرتے ہیں۔ (تصویر بشکریہ ناسا/نِک ہیگ)

صحت عامہ سے متعلق ادویات عام طور پر انسانوں میں ان کی تاثیر کا اندازہ لگانے کے لیے دہائیوں کی تحقیق اور طبّی جانچ سے گزرتی ہیں۔ ٹِشو چپس نامی بائیومیڈیکل آلات اس وقفے کو نمایاں طور پر کم کر کے برسوں کو مہینوں سے بدلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

ٹِشو چپس، جو آرگن آن چپ بھی کہلاتے ہیں، ایسا انجینئرڈ آلات ہیں جو انسانی خلیے کی موجودگی کے سبب جسمانی حالات کی نقل کرتے ہیں۔ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ کے نیشنل سینٹر فار ایڈوانسنگ ٹرانسلیشنل سائنسز (این سی اے ٹی ایس) کی تیار کردہ ان چپس کو انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن یو ایس نیشنل لیبارٹری (آئی ایس ایس نیشنل لیب) بھی بھیجا جا رہا ہے تاکہ انسانی جسم پر مائیکرو گریویٹی (تقریباً یا صفر کشش ثقل) ماحول کے اثرات کا مطالعہ کیا جا سکے۔

دسمبر ۲۰۰۵ میں امریکہ نے آئی ایس ایس کے اپنے حصے کو نیشنل لیبارٹری کے نام سے موسوم کیا، جس کا مقصد سائنسی تحقیق کے لیے اس کی اہمیت کو اجاگر کرنا تھا۔ اس فیصلے کا ایک اور اہم مقصد نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ (این آئی ایچ) جیسی ایجنسیوں کے تحقیقی مشنوں کو رفتار دینا تھا۔ نیشنل ایروناٹکس اینڈ اسپیس ایڈمنسٹریشن (ناسا) کے خلابازوں نے ایک دہائی سے زائد عرصے تک این آئی ایچ کے محققین کے ساتھ مل کر خلائی اسٹیشن پر تجربات کیے ہیں۔

ٹِشو چپس جیسی ٹیکنالوجیوں کا فروغ اور مطالعہ صحت اور خلا پر توجہ مرکوز کرنے والے دو امریکی سرکاری اداروں کے مابین تعاون کے ذریعے ممکن ہو پایا ہے۔

خلا میں ٹِشو چپس

امریکی کانگریس نے ۲۰۱۲ میں این سی اے ٹی ایس کا قیام عمل میں لایا تاکہ بنیادی سائنسی دریافتوں کو تشخیص اور علاج میں تبدیل کرنے میں آنے والی خامیوں کو دور کیا جا سکے۔ خصوصی اقدامات سے متعلق دفتر کے ڈائریکٹر ڈینیلو ٹیگل نے ٹِشو چپس پروگرام کا آغاز کیا تھا۔

جہاں کم و بیش دس ہزار بیماریوں کی نشاندہی کی گئی ہے وہیں ان میں سے محض پانچ فیصد کا مؤثر علاج پایا گیا ہے۔ ٹیگل وضاحت کرتے ہیں ’’بیماریوں کی شناخت جیسی بنیادی دریافتوں کو تشخیص اور علاج میں تبدیل کرنے کا عمل بہت غیر موثر رہا ہے۔‘‘ وہ کہتے ہیں کہ ٹِشو چپس کی ٹیکنالوجی کو انسانی جسم جیسا ردعمل کی نقل کر کے نتائج کی پیش گوئی کو بہتر بنانے کے لیے تیار کیا گیا ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں ’’چپس کو چھوٹے سائز میں تیار کیا گیا ہے اور ان میں انسانی خلیے اور اور ٹشوز شامل ہیں۔‘‘

اس پروگرام نے مختلف ٹِشوز اور اعضا جیسے گردہ، جگر، بلڈ برین بیریئر اور دل کے پٹھے کو ایک چپ پر کامیابی سے تیار کیا ہے۔ یہ ٹِشو چپس جانوروں کے روایتی جانچ نمونے کے مقابلے میں انسانی ردعمل کو زیادہ درست طریقے سے حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔

ٹیگل بتاتے ہیں کہ وقت گزرنے کے ساتھ ہی سائنس دانوں نے تحقیق کے ان شعبوں میں ٹِشو چپس کے استعمال کی تلاش شروع کی ہے جن کا نمونہ بنانا مشکل ہے جن میں عمرکا بڑھنا شامل ہے۔ وہ کہتے ہیں ’’اس کو عام طور پر چوہوں، کتوں اور بندروں جیسے جانوروں کے ماڈلز میں مطالعہ کیا جاتا ہے۔ تاہم جانوروں کی عمر بڑھنے کا انتظار کرنے میں اگر دہائیاں نہیں تو کئی سال لگ سکتے ہیں۔‘‘

ٹیگل کا کہنا ہے کہ ان کی تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ خلا باز مائیکرو گریویٹی میں طویل عرصے تک (مہینوں سے ایک سال تک) رہنے کے دوران تیزی سے بڑھاپے کا سامنا کرتے ہیں۔ اس دریافت کے نتیجے میں این آئی ایچ اور ناسا کے درمیان تعاون عمل میں آیا۔ اس کے بعد سے این سی اے ٹی ایس نے تقریباً ۱۵ پے لوڈز کے ساتھ نو مشن لانچ کیے ہیں جن میں مختلف حالات جیسے قلبی نظام، پٹھے، ہڈیوں کے جوڑ اور پھیپھڑوں کی نقل کرنے والے ٹِشو چپس بھی شامل ہیں۔

اس کے نتائج امید افزا رہے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ٹِشو چپس عمر بڑھنے کے عمل کے جلدی سے نمونہ تیار کر سکتے ہیں۔ ملٹی آرگن چپس کا استعمال کرتے ہوئے یہ پروگرام اب باہم مربوط اعضا کے نظام کا مطالعہ کرنے کے لیے فروغ پا رہا ہے جس سے پیچیدہ حیاتیاتی تعاملات کی تفہیم میں مدد ملتی ہے۔

ٹیگل بتاتے ہیں کہ ٹِشو چپس محققین کو یہ مطالعہ کرنے کی سہولت فراہم کرتے ہیں کہ انسانی خلیات اور ٹشوز حقیقی وقت میں خاص طور پر بیرونی خلا جیسے منفرد ماحول میں کس طرح رد عمل کرتے ہیں۔ روایتی طور پر سائنسدانوں کو خلابازوں سے نمونے جمع کرنے پڑتے تھے اور انہیں مطالعہ کے لیے زمین پر واپس بھیجنا پڑتا تھا۔ وہ بتاتے ہیں ’’ٹِشو چپس میں موجود سینسرز کی مدد سے ہم اب خلا میں وقوع پذیر ہونے والے ردعمل کا حقیقی وقت میں مطالعہ کر سکتے ہیں۔‘‘

این آئی ایچ اور ناسا

ستمبر ۲۰۰۷ میں ناسا نے این آئی ایچ کے ساتھ ایک مفاہمت نامے پر دستخط کیے جس کا مقصد ’’زمین اور خلا میں استعمال کے لیے حیاتیاتی تحقیق کے طریقوں اور طبّی ٹیکنالوجی کے فروغ نیز زمین اور خلا میں واقع تنصیبات پر تحقیق کرنا ہے جو زمین اور خلا میں انسانی صحت کو بہتر بنا سکتی ہیں۔‘‘ یہ ناسا اور کسی دوسرے ادارے کے درمیان آئی ایس ایس کو نیشنل لیبارٹری کے طور پر استعمال کرنے کا پہلا معاہدہ تھا۔

اس معاہدے نے این آئی ایچ بائیومیڈ آئی ایس ایس پروگرام کی تخلیق کی راہ ہموار کی۔ اس پروگرام سے سائنس دانوں کو حوصلہ ملا کہ وہ حیاتیاتی تحقیق کی ایسی تجاویز پیش کریں جو مائیکرو گریویٹی اور تابکاری کا استعمال کیے جانے والے آئی ایس ایس کے منفرد ماحول کو بروئے کار لاسکیں تاکہ ایسے نئے خیالات کو ذہن میں لایا جائے جو زمین پر انسانی صحت کو فائدہ پہنچا سکیں۔

این آئی ایچ کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف آرتھرائٹس اینڈ مسکولوسکیلیٹل اینڈ اسکن ڈیزیز (این آئی اے ایم ایس) میں سائنسی منصوبہ بندی، پالیسی اور تجزیہ شاخ کے ڈپٹی چیف ڈاکٹر جونیل ڈرگن کہتی ہیں ’’این آئی ایچ نے اس پروگرام کے تحت پہلی تین درخواستوں کو ۲۰۱۰ میں اور چوتھی درخواست کو ۲۰۱۱ میں مالی اعانت فراہم کی۔‘‘ آئی ایس ایس کے خلابازوں نے ان تین پروگراموں پر تجربات کیے جن پر مالی اعانت حاصل کی گئی تھی۔ ان میں گریوٹیشنل ریگولیشن آف اوسٹیوبلاسٹ جینومکس اینڈ میٹابولزم، اوسٹیوسائٹس اینڈ میکانو ٹرانسڈکشن اورسپریشن آف دی امیون رسپونس اِن اسپیس فلائٹ اینڈ ایجنگ شامل ہیں۔

میساچوسٹس جنرل ہاسپٹل کی ڈاکٹر پاولا دیویٹی پاجیوک کی اوسٹیوسائٹس اور میکانو ٹرانسڈکشن اسٹڈی میں سیلولر اور مالیکیولر میکانزم کا مطالعہ کیا گیا جو ہڈیوں کو کشش ثقل جیسے دباؤ پر ردعمل کی سہولت فراہم کرتے ہیں۔ اس کا مقصد ایسا طریقہ علاج تیار کرنا تھا جو بیماری یا چوٹ کی وجہ سے محدود جسمانی سرگرمی میں ہڈیوں کے نقصان کو کم کر سکیں۔

۲۰۲۱ میں ڈاکٹر پاجیوک نے اپنے نتائج شائع کیے جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ آئی ایس ایس پر موجود مائیکرو گریویٹی نے آسٹیوسائٹس، جو ہڈی کے اہم میکانی حساس خلیات ہیں، کے جینیاتی اظہار کو تبدیل کر دیا۔ نتائج سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ زمین پر مبنی عام طور پر استعمال ہونے والے مصنوعی مائیکرو گریویٹی آلات خلائی حالات سے پوری طرح مماثلت نہیں رکھتے۔ ان نتائج کے نہ صرف خلائی پرواز کے پروگرام پر اہم اثرات مرتب ہوتے ہیں بلکہ ان سے ہڈیوں کے نقصان سے متعلق ان بیماریوں کو سمجھنے اور ان کا علاج کرنے میں بھی دقت ہوتی ہے جو حرکت نہ دینے کے باعث ہڈیوں پر ہونے والے اثرات کے نتیجے میں پیدا ہوتے ہیں۔


اسپَین نیوزلیٹر کو اپنے میل پر مفت منگوانے کے لیے لنک میں دیے گئے فارم کو بھریں: https://bit.ly/SubscribeSPAN



تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے