صحت مواصلات میں ڈگری مختلف شعبوں میں کریئر کے لیے طلبہ کو تیار کرتی ہے، مثبت معاشرتی تبدیلی لانے اور غلط معلومات سے نمٹنے میں ان کی مدد کرتی ہے۔
July 2020
یونیورسٹی آف ایوانس وِل میں ہیلتھ کمیونی کیشن میں تخصص ایک بین مضامینی پروگرام ہے جس میں کمیونی کیشن، عوامی صحت اور صحت خدمات انتظامیہ کے کورس ورک شامل ہیں۔ تصویر یونیورسٹی آف ایوانس وِل۔
کورونا وائرس وبائی مرض کے تناظر میں صحت عامہ اور صحت مند خبررسانی کے ماہرین نے لوگوں کو اس کے بارے میں آگاہ کرنے اور وائرس کے مزید پھیلاؤ کو روکنے میں مدد کرنے کے لیے پیش قدمی کی ہے۔ ساتھ ساتھ انہوں نے غلط اطلاعات سے نمٹنے کی کوشش بھی کی ہے۔ معلوم ہو کہ واضح مواصلت صحت عامہ کا ایک لازمی عنصر بن چکی ہے جس کا مقصد بیماری کی روک تھام کے علاوہ ہر ایک کے لیے معیار زندگی کو بہتر بنانا بھی ہے۔
اس تناظر میں بیماری کی روک تھام اور علاج سے لے کر ڈاکٹروں، نرسوں، آفس عملہ اور انشورینس ایجنسیوں کے ذریعہ مریضوں کے ساتھ بات چیت کرنے تک درست خبر رسانی ہر چیز کے لیے ضروری ہے۔ حفاظتی ٹیکوں، حفظان صحت اور حفاظتی نگہداشت کے دیگر عناصر جیسے موضوعات کے بارے میں مؤثر بات چیت ایک پھیلنے والی وبا اور اس کے پھیلاؤ میں کمی یاوبا کے سنگین حد تک پھیلاؤکے درمیان فرق پیدا کر سکتی ہے۔
صحت سے متعلق مواصلت میں کریئر بنانے کا انتخاب کرنے والے افراد کو سرکاری اداروں میں کام کرنے سے لے کر نجی یا غیر منافع بخش کمپنیوں، تعلیم کے شعبے اور صحت عامہ کی صحافت میں بہت سے مواقع ملیں گے۔ اس طرح، ریاستہائے متحدہ امریکہ میں بہت سی یونیورسٹیوں میں اس شعبے میں انڈر گریجویٹ اور گریجویٹ کورس موجود ہیں۔اس میں ایلی نوائے میں واقع نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی اورریاست انڈیانا کی ایوانس وِل یونیورسٹی شامل ہیں۔
نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی میں صحت مراسلت پروگرام میں سائنس کے ایک سالہ پیشہ ورانہ ماسٹرکورس کو ۲۰۱۳ء میں پروفیسر بروس ایل لیمبرٹ نے دو دہائیوں سے زیادہ کی تدریس، کام کرنے اور میڈیکل پریکٹیشنرز کے ساتھ حقیقی دنیا کے مسائل کا مطالعہ کرنے کے بعد قائم کیا تھا۔وہ یونیورسٹی کے سینٹر برائے مواصلات اور صحت کے ڈائریکٹر بھی ہیں۔ان کے تجربے کے نتیجے میں ایک اختراعی اور عملی کورس شروع ہوا جو معیار کی بہتری اور تفاعلی ڈیزائن پر مرکوز ہے۔
وہ کہتے ہیں’’اگر آپ صحت مواصلت کے روایتی انداز کے بارے میں سوچتے ہیں تو یہ زیادہ تر صحت کے تناظر میں مواصلاتی امور کو دیکھنا ہے۔ میں اس معاملے میں الگ طرح کی سوچ رکھتا ہوں ۔ میں زیادہ تر صحت، مریض کی حفاظت، حفظان صحت کے معیار اور اس طرح کی چیزوں کے بارے میں فکرمندہوتا ہوں۔ لہٰذا، میں پہلے ان مسائل کو دیکھتا ہوں اور پھر ان کے حل کے لیے مواصلات کا نظریہ استعمال کرتا ہوں۔‘‘
وہ حفظان صحت کو کورس کے بنیادی معاشرتی مقصد اور مراسلت کا نظریہ ، مواصلاتی سائنس اور مواصلاتی فنون کو ایسے آلات کے طور پر دیکھتے ہیں جنہیں ہم ان بڑے معاشرتی مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے استعمال کرسکتے ہیں۔‘‘’’
نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی کے پروگرام کی نظریاتی واقفیت تفاعلی ڈیزائن کے ارد گرد مرکوز ہے جو ڈاکٹروں، مریضوں اور دیگرمتعلقین کے مابین مواصلت کو بہتر بناتی ہے۔اس کورس میں طلبہ مواصلاتی نظریہ،انسان اور کمپیوٹر کے درمیان تفاعل ، مشکل گفتگو کا اہتمام ، ترغیب اور مریض کی مشغولیت کے ساتھ ساتھ باہمی بات چیت ، صحت اور غلط معلومات جیسے موضوعات پر غور کرنے سے پہلے مجموعی طور پر حفظان صحت کے نظام کے بارے میں جانتے ہیں۔
لیمبرٹ کہتے ہیں’’ہم طلبہ کو ایسی ہنرمندیاں دے رہے ہیں جن کی انہیں ان واقعی مسائل کو حل کرنے میں ضرورت ہے جن کا سامنا حفظان صحت کے نظاموں کو کرنا پڑتا ہے۔‘‘
ان کے طلبہ میں حال میں انڈر گریجویٹ ڈگری مکمل کرنے سے لے کر دہائیوں تک کاتجربہ رکھنے والے کمپنیوں کے وائس پریزیڈنٹ تک ہر طرح کے لوگ شامل ہیں۔
لیمبرٹ مزید کہتے ہیں کہ نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی پروگرام بین الاقوامی درخواستوں کا خیرمقدم کرتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگرطلبہ کے پاس لیاقت پر مبنی عرضی ہے تو وہ ایسے طلبہ کوامکانی طور پرداخلہ کی پیشکش کرنے جا رہے ہیں ۔ ایسے طلبہ کو لیاقت اور ضرورت کی بنیاد پر مدد کی پیشکش بھی کی جاسکتی ہے۔
جب کہ ایوانس وِل یونیورسٹی کا صحت مراسلت میں میجر کا کورس اصل میں ایک بین مضامینی پروگرام ہے جس میں مواصلات ، صحت عامہ اور صحت خدمات سے متعلق انتظامیہ کا کورس ورک شامل ہے۔ اس سے طلبہ کو صحت عامہ اور صحت خدمات کے بارے میں تفہیم پیدا کرنے کے علاوہ اشتہار، تعلقات عامہ، صحافت اور ملٹی میڈیا پروڈکشن میں مہارت پیدا کرنے میں مدد ملتی ہے۔
اس کورس میں طلبہ کا سابقہ مختلف اقسام کی مواصلت سے پڑتا ہے جن میں مریض و معالج کے مابین مواصلات،صحت عامہ تنظیم کا مواصلات، جوکھم اور بحران سے متعلق مواصلات ، حکمت عملی سے متعلق صحت مواصلات کی مہمات اور نئی ٹیکنالوجیز کے ساتھ ساتھ صحت عامہ اور سائنس کورسوں کا ایک وسیع سلسلہ شامل ہے۔
صحت عامہ کی ایسوسی ایٹ پروفیسر اورصحت عامہ میں یونیورسٹی کے انڈرگریجویٹ اور گریجویٹ پروگراموں کی ڈائریکٹر پائل پٹیل دولت آبادی کا کہنا ہے کہ صحت عامہ کی کلاسیزطلبہ کو متعلقہ مسائل اور ان مسائل سے متعلق پالیسیوں دونوں کا مطالعہ کرنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔
یونیورسٹی کے دونوں نمائندے اس بات پر متفق ہیں کہ وبائی مرض صحت عامہ کے بارے میں تعلیمی اورترغیبی مواصلات کی ایک بہت بڑی ضرورت کو بتاتا ہے۔ لیمبرٹ کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں احتجاجی مظاہروں کے سبب نسلی انصاف کے امور کو بھی داخلِ نصاب کیا گیا ہے۔
لیمبرٹ کہتے ہیں’’ظاہر ہے، ہمارے طلبہ کی گہری دلچسپی کورونا میں ہے مگر اس کے دو رخ ہیں۔ ایک تو یہ کہ پہلے کبھی بھی دنیا یہ ظاہر کرنے میں مدد گار نہیں رہی ہے کہ صحتمند مراسلت کی اہمیت کیا ہے۔ لیکن دوسری جانب ہمارے بہت سارے مسائل کی جڑ غیر صحتمند مراسلت بھی ہے۔‘‘
پٹیل دولت آبادی اس موقع پر اپنی بات رکھتے ہوئے کہتی ہیں’’وبائی مرض نے صحت عامہ کی روک تھام اور تخفیف کی ضرورت اور اہمیت اور اس کے آبادی کی صحت پر اثرات کو واضح کیاہے۔وبائی مرض نے بہت ساری خامیوں اور بہتری کے شعبوں کی بھی نشاندہی کی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ مستقبل میں دنیا کو صحت عامہ کے بہت سے پیشہ ور افراد درکار ہوں گے تاکہ ممالک کسی بھی قسم کی وبا کا جواب دینے کے لیے تیار ہو سکیں۔‘‘
کینڈس یاکونو جنوبی کیلیفورنیا میں مقیم قلمکار ہیں جو جرائد اور روزناموں کے لیے لکھتی ہیں۔
تبصرہ