’ایسپائر فار ہر‘ ممبئی میں واقع امریکی قونصل خانہ کے اشتراک سے خواتین کو اپنے خوابوں کو حقیقت میں تبدیل کرنے میں مدد کر رہی ہے تاکہ وہ افرادی قوت کا حصہ بن سکیں۔
March 2024
مدھورا داس گپتا(بائیں سے دوسری)’ویمن آن بورڈس ٹو پوائنٹ زیرو‘ کے افتتاح کے موقع پر ممبئی میں واقع امریکی قونصل خانہ میں تجارت اور صنعت کے قائدین کے ساتھ۔ (تصویر بشکریہ اَیسپائر فار ہر)
مدھورا داس گپتا سنہا نے ممبئی میں دو دہائیوں سے زیادہ عرصہ بینک کاری کے شعبے میں گزارا ہے۔ اس دوران انہوں نے ہندوستانی خواتین کے متعلق معاشی اعداد و شمار کا مطالعہ کیا۔ انہوں نے دریافت کیا کہ ہندوستانی معیشت میں خواتین کی حصہ داری بہت کم ہے جس میں بتدریج کمی واقع ہوتی جا رہی ہے۔ وہ بتاتی ہیں’’مجھے احساس ہوا کہ ہندوستان اور ہندوستانی خواتین مزید بہتر کر سکتے ہیں اور کسی نہ کسی کو آگے آکر اس مسئلہ کو حل کرنا ہو گا۔ کسی کو خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے کام کرنا ہوگا تاکہ وہ افرادی قوت میں داخل ہو نے کے ساتھ ساتھ پھل پھول سکیں۔ مجھے لگا کہ وہ ’کوئی‘ میں بھی تو ہوسکتی ہوں۔ ’ایسپائر فار ہر‘ کے وجود میں آنے کے پس پردہ یہی کہانی ہے۔‘‘
۲۰۲۰ء میں خواتین کے عالمی دن کے موقع پر وجود میں آنے والی ’ایسپائر فار ہر‘ ایک ایسی تنظیم ہے جو ممبئی میں خواتین کو مشاورتی اور دیگر خدمات فراہم کرتی ہے۔ یہ تنظیم خواتین کو مالی طور پر آزاد ہونے، خوابوں کو حقیقت میں بدلنے اور کامیابی کے لیے درکار تربیت فراہم کرتی ہے۔ سنہ ۲۳۔۲۰۲۲ میں اس تنظیم نے ممبئی میں واقع امریکی قونصل خانہ کے اشتراک سے’ ویمن آن بورڈس ‘کے پہلے کوہورٹ کا آغاز کیا جس کا مقصد قائدانہ کرداروں میں خواتین کی نمائندگی کو فروغ دینا تھا۔ آٹھ ہفتوں پر محیط اس پروگرام کے دوران خواتین کو مختلف النوع موضوعات جیسے بورڈروم کی توقعات، رابطہ کاری اورسوشل میڈیا کے استعمال کی تربیت دی گئی۔ اس پروگرام میں۴۰ سے زائد خواتین نے شرکت کی جن میں سے دو خواتین مختلف تنظیموں میں بورڈ آف ڈائریکٹرس کا حصہ بننے کے لیے منتخب ہوئی ہیں۔
بزرگوں کے لیے کام کرنے والی تنظیم ویاہ وکاس کی سی ای او اور ’ویمن آن بورڈس پروگرام‘ کی فیض یافتہ جامونا روی کہتی ہیں ’’ویمن آن بورڈس کا مطمح نظر خواتین کو آزاد ڈائریکٹرس بننے کے ان کے سفر میں مدد فراہم کرنا ہے۔‘‘ انہوں نے پروگرام کے آن لائن اجلاس، تجربہ کار قائدین تک رسائی، کیس اسٹڈی اسائنمنٹس اور رابطہ کاری کے مواقع کو کافی فائدہ مند پایا ہے۔ جامونا مزید کہتی ہیں ’’مدھورا اور ان کی ایسپائر فار ہر ٹیم کی ایک خاص بات یہ ہے کہ اس پروگرام کے ختم ہونے کے ایک سال بعد بھی آج تک ہم لوگ ایک دوسرے کے رابطہ میں ہیں۔‘‘
دسمبر ۲۰۲۳ ءمیں ’ایسپائر فار ہر‘ نے امریکی قونصل خانہ ممبئی کے اشتراک سے ویمن آن بورڈ مرحلہ دوم کا آغاز کیا تاکہ مغربی ہندوستان میں ۵۰ خواتین کو درمیانی سے سینئرمنتظم کے کرداروں میں قیادت اور بورڈ کی سطح کے عہدوں میں شامل ہونے کی تربیت دی جا سکے۔ نو ماہ کے دوران ورچوئل اور بالمشافہ اجلاس کی بدولت شرکاء خواتین رول ماڈلنگ، عملی طور پر سیکھنے کی مشقوں، کریئر انتخاب اور اپنے ہم منصبوں سے رابطہ کاری کے ذریعے قائد بننے کے لیے درکار تربیت حاصل کریں گی۔
خواب کی تعبیر پانے کی میعاد مقرر کرنا
’ایسپائر فار ہر‘۲۰۲۵ء تک ہندوستان کی افرادی قوت میں ایک ملین خواتین کا اضافہ کرنے کے مشن پر گامزن ہے جس کے لیے وہ مقامی برادریوں سے مدد کی خواہاں ہے۔ مدھورا کہتی ہیں ’’یہ ایک خواب ہے مگر اس کا اپنا حدِ آخر ہے۔‘‘ ان کے بقول اصل کام تو لوگوں کی ذہنیت کو تبدیل کرنا ہے اور ’ایسپائر فار ہر‘ نے خواتین کے متعلق بعض اہم اور مختلف النوع پروگرام وضع کیے ہیں جن کو نافذ کیا جا رہا ہے۔
مثال کے طور پر یہ تنظیم ۳۰۰ قائدین کے ساتھ کام کرتی ہے جو کہ دیگر خواتین کو تربیت دیتے ہیں۔ مدھورا کہتی ہیں ’’یہ اتالیق سی ای او، چیف ایکسپرینس افسران اور دیگر ایکزیکٹو ہیں جو آپ کی ترقی میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ یہ آپ کے لیے کریئر کے دروازے کھول سکتے ہیں نیز آپ کے دماغ کے دریچے بھی کھولنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔‘‘ ’ایسپائر فار ہر‘ مائیکرو سافٹ، گوگل، ڈوئچ بینک، ایڈوبی، ایئر فرانس، انڈین موٹر اسپورٹس فیڈریشن وغیرہ جیسی بڑی بڑی کمپنیوں سے اتالیق کو بلاتی ہے۔
سماجی بندشوں کو توڑ کر کامیابیاں شیئر کرنا
’ایسپائر فار ہر‘ میں خواتین کو صرف متعلقہ برادری اور سرپرستی حاصل کرنے میں مدد نہیں دی جاتی بلکہ ہر رکن کی کامیابی کا جشن بھی ساتھ منایا جاتا ہے۔ مدھورا انکشاف کرتی ہیں ’’ہر روز ہم ان خواتین کی کہانی کا اشتراک کرتے ہیں جنہوں نے کامیابی حاصل کی ہے تاکہ دوسری خواتین بھی ان سے ترغیب پا کر اپنے اپنے سفر پر ثابت قدم رہیں۔ اس کا آسان فلسفہ ہے: جب یہ خواتین کامیاب خواتین کو دیکھیں گی تو ان کے اندر بھی کچھ کر گزرنے کا جذبہ پیدا ہوگا۔‘‘
’ایسپائر فار ہر‘ کے لیے راستہ آسان نہیں ہے۔ مدھورا کے بقول ’’لوگوں کی ذہنیت تبدیل کرنا اور مخالفین کو اتحادی بنانا اتنا آسان نہیں ہے۔ مگر ہمیں ہر کس و ناکس کو یہ باور کرانا ہے کہ خواتین کا بااختیار ہونا سب کے لیے سود مند ہے۔‘‘
مدھورا بتاتی ہیں کہ ان کی تنظیم ان مرداتالیق کے ساتھ کام کر کے رکاوٹوں کو دور کرنے کی کوشش کرتی ہے جو کام کی جگہ پر صنفی مساوات کے بارے میں باقاعدگی سے بات کرتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں ’’کئی مرد اس وقت یہ تجربہ حاصل کرتے ہیں جب وہ بیٹی کے باپ بنتے ہیں تو انہیں اپنی بیٹیوں کی نگاہوں سے احساس ہوتا ہے کہ معاشرہ میں لڑکیوں کے خلاف ایک غیر شعوری تعصب موجود ہے۔ ہمارا مقصد مردوں کی ایسی برادری تیار کرنا ہے جو خواتین کو مالی استحکام حاصل کرنے اور اپنی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کرنے میں مدد کرے۔‘‘
اب تک ’ایسپائر فار ہر‘ کی کاوشوں سے کم و بیش چار لاکھ خواتین افرادی قوت میں شامل ہو چکی ہیں اور مدھورا کافی پُر امید ہیں کہ ۲۰۲۵ءتک ایک ملین خواتین کا ہدف آسانی سے حاصل ہو جائے گا۔
مائیکل گیلنٹ نیویارک سٹی میں مقیم قلمکار، موسیقار اور کاروباری پیشہ ور ہیں۔
اسپَین نیوز لیٹر کو مفت میل پر منگوانے کے لیے لنک میں دیے گئے فارم کو بھریں: https://bit.ly/SubscribeSPAN
تبصرہ