اعلیٰ معیار کی تعلیم، کم بھیڑ بھاڑ والی کلاسوں اور متنوع پروگراموں کے ساتھ کم معروف امریکی کالج زیادہ معروف اداروں سے بھی کہیں زیادہ مواقع فراہم کرتے ہیں۔
October 2022
اب مزید طلبہ اعلیٰ معیار کی تعلیم مہیا کرانے والے غیر معروف اداروں کے متلاشی ہیں۔ وہ تکنیکی اور پیشہ ورانہ تربیت کے لیے کمیونٹی کالج کے متبادل پر بھی غور کر رہے ہیں تاکہ وہاں سے چار سال والے اداروں میں ان کی منتقلی آسان ہوسکے۔(تصویر بشکریہ ہِلس بورو کمیونٹی کالج)
امریکہ میں تعلیم حاصل کرنے کا عمل زندگی تبدیل کرنے والا ہو سکتا ہے۔ لیکن ایک ایسا کالج تلاش کرنا جو طالب علم کی تعلیمی دلچسپیوں کے مطابق ہو نے کے علاوہ سستا بھی ہو، کوئی آسان کام نہیں ہے۔خوش قسمتی سے امریکہ میں مختلف قسم کے کالج اور یونیورسٹیاں موجود ہیں جو زندگی کے ہر شعبے کے طلبہ کے لیے جذباتی، امکاناتی یا مالیاتی اعتبار سے موزوں ہو سکتی ہیں۔
تعلیمی میلوں ، ایجوکیشن یو ایس اے مشیروں کے ساتھ تعامل والے جلسوں ،یہاں تک کہ انٹرنیٹ طلبہ کو ایسے اداروں کو تلاش کرنے میں مدد کر سکتے ہیں جو ان کی ضروریات کے مطابق ہوں اور جو زیادہ معروف اداروں سے بھی کہیں زیادہ مواقع کے دروازے کھول سکتے ہوں۔
امریکہ۔ ہند تعلیمی فاؤنڈیشن کے کولکاتہ دفتر میں ایجوکیشن یو ایس اے مشیر اُننتی سنگھانیہ کا کہنا ہے کہ طلبہ اپنی مطلوبہ یونیورسٹیوں کی فہرست مرتب کرکے(جن میں داخلہ اور اسکالرشپ کے امکانات زیادہ ہوں ) اپنی تحقیق کا آغاز کر سکتے ہیں ۔وہ کہتی ہیں ’’ہم لوگ طلبہ سے کہتے ہیں کہ وہ کھلا ذہن رکھیں۔ امریکہ میں ۴۷۰۰ سے زیادہ تسلیم شدہ اعلیٰ تعلیمی ادارے ہیں جہاں بعض بہترین اور سستے کورس دستیاب ہیں ۔‘‘ سنگھانیہ اپنے ’’خواب‘‘ والے بعض تعلیمی اداروں کی فہرست بنانے کا مشورہ دیتی ہیں جہاں طالب علم کا پروفائل اس کالج کے اوسط طلبہ سے ذرا کم ہوتا ہے۔ اس کے بعد وہ کچھ ’’مماثل‘‘ درجے کے کالج کی فہرست سازی کا مشورہ دیتی ہیں جہاں ان کا پروفائل اوسط طلبہ سے ملتا جلتا ہے اور پھر وہ بعض ’’قابل ِ رسا‘‘کالج کی فہرست کی بات کرتی ہیں جہاں ان کا پروفائل اوسط طلبہ سے بہتر ہوتا ہے۔
درجہ بندی سے پرے
جب آپ درست تعلیمی اداروں کی تلاش میں ہوں (جہاں آپ کی تمام ضرویات کی تکمیل ہو سکتی ہو) تو درجہ بندی سے آگے دیکھنا اوراس پر غور کرنا بھی مددگار ثابت ہوسکتا ہے کہ کسی تعلیمی ادارے میں کیا دستیاب ہے اور وہ انفرادی ضروریات سے کس طرح میل کھاتا ہے۔سنگھانیہ وضاحت کرتی ہیں ’’میں درجہ بندی سے آگے دیکھنے میں طلبہ کی حوصلہ افزائی کرتی ہوں۔ تعلیمی اداروں کی درجہ بندی امریکی حکومت کی جانب سے نہیں کی جاتی بلکہ نجی کمپنیوں کی طرف سے کی جاتی ہے جو اس کے لیے بہت سے متغیرات کا استعمال کرتی ہیں جن میں شاید طالب علم کی کامیابی کو اوّلیت نہ دی جاتی ہو۔‘‘
وہ ریاست اوہائیو کے ایک نجی لبرل آرٹس کالج، کالج آف ووسٹر کے انتخاب کی اپنی کہانی مشترک کرتی ہیں جہاں انہیں ۴۵ فی صدصلاحیت پر مبنی بین الاقوامی طالب علم وظیفے سے نوازا گیا۔ انہوں نے یہیں سے بزنس اکانامکس اور سائیکولوجی میں ڈبل میجر کیا۔ وہ کہتی ہیں’’پھر میں نے سابق طلبہ کے تعلقات اور کریئر خدمات کا بہتر طور پر استعمال کرتے ہوئے شکاگو میں ڈگری حاصل کرنے کے بعد کے کام کا تجربہ حاصل کیا۔ ‘‘
اعلیٰ معیار والے ادارے
آج زیادہ سے زیادہ طلبہ اس راستے پر چل رہے ہیں اور اعلیٰ معیار کی تعلیم فراہم کرنے والے کم معروف اداروں پر غور کر رہے ہیں۔ تکنیکی یا پیشہ ورانہ تربیت کے لیے طلبہ کمیونٹی کالجوں کو بھی تلاش کر رہے ہیں جو اکثر چار سال کے کورس والے اداروں میں منتقل ہونے کا بہت اچھا ذریعہ ہوتے ہیں۔
سوہنی مکھرجی نے حال ہی میں پین سلوانیا کے ایک لبرل آرٹس کالج، لائکو منگ کالج سے بایو لوجی (سیل اینڈمالیکولر بایولوجی ٹریک )میں امتیازی نمبروں کے ساتھ بیچلر آف سائنس کی ڈگری حاصل کی ہے۔ انہیں اس کالج کا علم ایجوکیشن یوایس اے یونیورسٹی میلے سے معلوم ہوا تھا۔ علم حیاتیات کی اپنی تحقیق کےساتھ مکھرجی نے اپنے انگریزی پروفیسروں کے ساتھ اپنی شاعری کی مہارت کو پروان چڑھا نے کے علاوہ مذہبی مطالعات کے شعبہ میں موسم گرما کے تحقیقی تجربے میں بھی حصہ لیا۔ وہ بتاتی ہیں’’کالج کے تمام پروفیسر محنتی اور رحم دل تھے۔‘‘ مکھرجی اب گریجویٹ تعلیم کے لیےپین سلوانیا اسٹیٹ یونیورسٹی میں داخلہ لے چکی ہیں۔
بین الاقوامی اقدامات کے لیے صدر کی معاونِ خصوصی اور لائکومنگ میں بین الاقوامی طلبہ مشیر مارلینی فین اسٹین کہتی ہیں’’ہمارے طلبہ لیکچر ہال میں ۳۰۰ طلبہ کے ہجوم میں بھی گمنام چہرے نہیں ہوتے بلکہ ان کے تمام پروفیسروں کو ان کی انفرادی طاقت اور ضروریات کا علم ہوتا ہے۔‘‘
لائکومنگ جیسے کالج جہاں طلبہ اور اساتذہ چھوٹی کلاسوں میں بامعنی تعلقات قائم کر سکتے ہیں ، ان بین الاقوامی طلبہ کے لیے بہتر مواقع ہیں جو امریکہ میں اپنے تعلیمی مواقع سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ بہار کے ایک گاؤں سے تعلق رکھنے والا روہت راج امریکی ریاست پین سلوانیا کے جونیاٹا کالج میں طبیعیات کی تعلیم حاصل کرنے والا دوسرے سال کا ایک طالب علم ہے۔ وہ کالج کے نیکسٹ جینیئس اسکالرشپ کا فاتح بھی ہے۔
بہت سے طلبہ کی طرح اس نے بھی پہلے سال کے بعد کیلیفورنیا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی اور اسٹینفورڈ یونیورسٹی جیسے ’’بہتر طور پر معروف‘‘ کالجوں میں منتقل ہونے پر غور کیا لیکن مختلف وجوہات کی بنا پراس نے جونیاٹا میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا جس میں کالج کی طرف سے پیش کردہ مالی امداد اور راج کو وہ وسائل فراہم کرنے کی خواہش شامل تھی جن کی اسے بہترین کارکردگی کے لیے ضرورت تھی۔ بقول روہت ’’جب میں نے کالج کو بتایا کہ میں منتقلی کا ارادہ کر رہا ہوں تو اس نے میری مدد کے لیے ہر ممکن کوشش کی۔کالج نے مجھ سے پوچھا کہ میں کیا چاہتا ہوں اور میں کالج چھوڑنے کے بارے میں کیوں غور کر رہا ہوں؟ کالج نے کوشش کی کہ مجھے میری ضرورت کی تمام چیزیں مہیا کروائے‘‘ وہ کہتے ہیں’’کالج کے ارادے کو دیکھتے ہوئے کہ وہ مجھے سب کچھ فراہم کرنا چاہتا تھا (جس کی مجھے ضرورت تھی)، میں نے فیصلہ کیا کہ میرے لیے یہ بہترین جگہ ہے اور پھر میں نےکالج کو خیر باد کہنے پر غور کرنا چھوڑ دیا۔‘‘
روہت کا ارادہ اب گریجویٹ اسکول جانے اور مثالی طور پرانٹر سیکشن آف پارٹیکل فزکس اینڈ کوسمولوجی میں پی ایچ ڈی کرنے کا ہے۔
کمیونٹی کالج
کم بھیڑ بھاڑ والی کلاسوں اور ذاتی تعامل کے فائدے کی پیش کش کے علاوہ کمیونٹی کالجوں میں ایسے پروگرام ہوتے ہیں جو طلبہ کو زیادہ آسانی کے ساتھ جدید ڈگریوں کے لیے مدد فراہم کرتے ہیں۔ فلوریڈا میں ہِلزبورو کمیونٹی کالج میں بہت سارے ایسوسی ایٹ ڈگری پروگرام ہیں۔ اس کے سینٹر فار انٹرنیشنل ایجوکیشن میں طلبہ کے لیے وقف سپورٹ سروسیز کا اہتمام ہے ۔ اس کے علاوہ چار سال کے کورس والی یونیورسٹیوں میں بغیر کسی رکاوٹ کے منتقلی کی سہولت بھی فراہم کی جاتی ہے۔
اسی طرح ٹیکساس میں لون اسٹار کالج معیاری اعلیٰ تعلیم میں مہارت رکھتا ہے جو اپنے گریجویٹس کو ڈیوک، رائس اور کارنیل یونیورسٹیوں جیسے اداروں میں منتقل ہونے کے قابل بناتا ہے۔ لون اسٹار کالج میں بین الاقوامی پروگراموں کی ڈائریکٹر پرزین اکولاوالا کہتی ہیں ’’ ہم طلبہ کی منتقلی اور کامیابی کو مستحکم کرنے کے لیے کلاس روم کے علاوہ وسیع پروگرام بھی پیش کرتے ہیں ۔ناسا/ٹیکساس اسپیس گرانٹ کنزورٹیم کے ساتھ شراکت میں انجینئرنگ کے سیمینار، کانگریشنل انٹرن شپس، ماڈل یونائیٹیڈ نیشنز، پِری پروفیشنل لیڈر شپ ٹریننگ اور انٹرنیشنل کیپ اسٹون ٹریول وسیع نصابی مواقع میں سے چند ہیں جو ایک مضبوط نصاب کی تکمیل کرتے ہیں۔‘‘
بین الاقوامی طلبہ کا خیر مقدم
چھوٹے ادارے بین الاقوامی طلبہ کا پرتپاک خیرمقدم کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر وِسکونسن میں نجی لبرل آرٹس ادارہ، بلوئٹ کالج متنوع بین الاقوامی برادری کا مسکن ہے جس میں ۴۰سے زائد ممالک کے طلبہ شامل ہیں۔ بلوئٹ کالج میں بین الاقوامی داخلوں کے اسسٹنٹ ڈائریکٹرحرنان سانتا کروز۱۹ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ بھارتی طلبہ اور بین الاقوامی طلبہ کالج میں ترقی کی منازل طے کرتے ہیں اور اہم طریقوں سے معاشرے میں تعاون کرتے ہیں۔ بلوئٹ میں جونیئر سومیا گپتا سیاسیات اور نفسیات میں میجر کر رہی ہیں جبکہ فلسفے میں مائنر کر رہی ہیں۔ وہ بین الاقوامی سفارت کاری، امن اور تنازعات کے مطالعے اور انسانی حقوق سے متعلق قانون کے شعبے میں تحقیق کرنا پسند کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں ’’شروع میں میری توجہ بڑے سرکاری اسکولوں پر مرکوز تھی۔ تاہم، جب میرے ہائی اسکول کے استاد نے مجھے بلوئٹ کے بارے میں بتایا تو میں نے پایا کہ بلوئٹ اس عام کالج کی طرح نہیں تھا جو میں نے یوٹیوب یا نیٹ فلکس پر شوز میں دیکھا تھا۔درخواست دینے سے پہلے ہی بلوئٹ نے مجھے ایک شخص کے طور پر جاننے کی کوشش کی اور مجھے ایسا محسوس کرایا جیسے میرا بلوئٹ سے کوئی تعلق ہو۔‘‘
درست انتخاب کی تلاش
سنگھانیہ کے مطابق یونیورسٹی کی قیادت میں ایجوکیشن یو ایس اے کے ویبینارز میں شرکت، ذاتی طور پر بات چیت اور ورچوئل میلوں میں شرکت مزید یونیورسٹیوں کی تلاش اور درخواستوں کے لیے اسکولوں کی شارٹ لسٹ کو وسعت دینے کے چند طریقے ہیں۔ وہ دلچسپی کے کالجوں پر بنیادی تحقیق کا بھی مشورہ دیتی ہیں تاکہ یہ معلوم کیا جاسکے کہ آیا ان کے پاس مہارتیں اور وسائل ہیں جو طلبہ کو اپنے کریئر کے اہداف تک پہنچنے کے قابل بنا سکیں۔ وہ کہتی ہیں ’’تکنیک کے شوقین طلبہ اب پہلے سے کہیں زیادہ اپنے انتخاب سے واقف ہیں۔ اگر پروگرام ان کی دلچسپیوں اور موضوعات کے انتخاب سے میل نہیں کھاتے ہیں تو انہیں برینڈ ناموں سے بے وقوف بنانا مشکل ہے۔‘‘
منتقلی کے منصوبے کی صورت میں مالی وسائل کے متبادل کی تلاش کے لیے وہ طلبہ کو فائن پرنٹ (دستاویز کا وہ حصہ جس میں پابندیوں اور حد بندیوں کی بات اس طور پر لکھی ہو کہ وہ آسانی سے پڑھی نہ جاسکے)کا مطالعہ کرنے کا مشورہ دیتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں ’’انہیں یہ معلوم کرنا چاہیے کہ آیا وہ اپنی بیچلر کی ڈگریاں مکمل کرنے کے لیے چار سالہ امریکی انسٹی ٹیوٹ میں منتقل ہوتے وقت اپنے آخری دو برسوں میں اسکالرشپ کے لیے اہل ہوں گے یا نہیں۔ وہ منتقلی کے عمل کے بعد حاضری کی لاگت کا موازنہ کسی غیر معروف، سستے چار سالہ ادارے میں جانے سے کر سکتے ہیں اور پھر باخبرفیصلہ کر سکتے ہیں۔‘‘
پارومیتا پین رینو میں واقع یونیورسٹی آف نیواڈا میں گلوبل میڈیا اسٹڈیز کی معاون پروفیسرہیں۔
تبصرہ