ایچ آئی وی متاثرین کی دیکھ بھال کو آسان بنانا

تال پلس یو ایس ایڈ امداد یافتہ صحت کی دیکھ بھال کا ایک متحدہ مرکز ہے جہاں ایچ آئی وی کے شکار مریضوں کی مجموعی طور پر نگہداشت کی جاتی ہے۔

پارومیتا پین

August 2023

ایچ آئی وی متاثرین کی دیکھ بھال کو آسان بنانا

تال پلس میں ایک مشیر ایک مریض سے بات کرتے ہوئے۔ تال پلس ایک مربوط صحت مرکز ہے جہاں ایچ آئی وی مریضوں کو اعلیٰ معیار کی سستی طبّی نگہداشت مہیا کروائی جاتی ہے۔ (تصویر از انیتا کھیمکا، مشیر فوٹوگرافر، ایپِک انڈیا)

مہاراشٹر کے اورنگ آباد میں  ۴۸ برس کی نمرتا واڈکر(بدلا ہوا نام ) کا ۲۰۱۲ء سے ہی (اے آر ٹی )ایڈس کا علاج چل رہا تھا۔مگر ۲۰۲۰ء سے ان کے جوڑوں میں شدید درد شروع ہوا جس میں مستقل اضافہ ہوتارہا۔  اپنی حالت سے پریشان ہوکر انہوں نے امریکی ایجنسی برائے عالمی ترقی(یو ایس ایڈ ) کے امداد یافتہ کلینک تال پلس کا رخ کیا جہاں انہیں ہڈیوں کی کثافت کو اسکَین کرنے کا مشورہ دیا گیا۔اس سے معلوم ہوا کہ  اے آر ٹی کی وجہ سے انہیں  تصلب العظام کا عارضہ لاحق ہو گیا ہے۔  جب تجربہ گاہ میں اس کیفیت کی جانچ کی گئی تو معلوم ہوا کہ یہ چیز بالکل ہڈی کے سرطان کے مشابہ ہے۔ ان کی دواؤں میں معمولی تبدیلی کی گئی ۔ اس کے علاوہ انہیں ہڈیوں کو مضبوط کرنے کے لیے ۶ ماہ  تک سوئی لینی پڑی تاکہ ان کی ہڈیاں مضبوط ہو سکیں۔ اس علاج سے وہ اپنے پیر پر دوبارہ کھڑے ہونے کے قابل ہو گئیں۔ نمرتا بتاتی ہیں ’’ اب میں بغیر کسی مدد کے اپنا روز مرہ کا کام کر سکتی ہوں ۔ تال پلس کلینک میں مرض کی درست شناخت اور مشاورت نے میری زندگی کے معیار کو بہتر بنایا۔ ‘‘

ساتھیوں کی قیادت میں مداخلت

تال (ٹریٹمنٹ، ایڈہرنس، ایڈووکیسی اور لٹریسی) کا آغاز ۲۰۰۶ء میں ہوا تھا۔ابتداء ہی سے  یہ ساتھیوں کے ذریعہ چلائی جانے کمیونٹی فارمیسی تھی جس میں اعلیٰ معیار کی مگر سستے داموں میں ایچ آئی وی کی تشخیص ، علاج اور مشاورتی خدمات فراہم کی جاتی تھیں۔۲۰۲۰ءمیں یو ایس ایڈ کی مالی امداد سے تال ترقی کر کے تال پلس مجموعی صحت مرکز میں تبدیل ہوگیا۔ فروری ۲۰۲۳ ءمیں تال پلس ای فارمیسی کا آغازہوا۔

یو ایس ایڈ کے ایچ آئی وی ڈویژن کی بھارت میں سربراہ دیپیکا جوشی کہتی ہیں ’’ہم اپنی ذمہ داریوں کے دائرہ کار کو مسلسل و سعت دے رہے ہیں جس کے تحت تال پلس کے ساتھ تعاون کرکے مریض مرکوز، مجموعی اور پائیدار صحت پلیٹ فارم فراہم کیا جا رہا ہے۔ نیز ،ہم نفسیاتی صحت، غیر متعدی امراض، متشابہ انفیکشن جیسے ٹی بی،  ہیپٹائٹس بی اور سی ، ماقبل ایکسپوژر پروفائیلیکسز اور ما بعد ایکسپوژر پروفائلیکسز جیسی احتیاطی تدابیرتک رسائی کو نجی شعبہ کے صحت پر مبنی خدمات فراہم کرنے والوں کی شراکت سے ممکن بنانے کی لگاتار کوشش کر رہے ہیں۔‘‘

معتبر آن لائن موجودگی 

سب سے پہلی  تال کمیونٹی فارمیسی کا قیام جنوری ۲۰۰۶ء میں پونے میں نیٹ ورک آف مہاراشٹرا کے ذریعہ عمل میں آیا ۔ اس کا آغازایچ آئی وی؍ایڈس مریضوں کی تنظیم این ایم پی پلس  نے کیا تھا۔تال اور این ایم پی پلس کے بانی منوج پردیسی کہتے ہیں ’’ تال کا قیام ایک تحریک کے نتیجے میں ممکن ہو سکا جس کا آغاز ۱۹۹۷ء میں ہوا تھا جب  ایچ آئی وی پوزیٹو سات دوستوں نے ایک دوسرے کی مدد کے لیے اسے قائم کیا ۔ ‘‘  تب سے یہ نیٹ ورک پھلتا پھولتا رہا اور اب اس کے اراکین کی تعداد تقریباً ۵ لاکھ نفوس پر مشتمل ہے ۔ یہ  متاثرین کو ایک محفوظ پناہ گاہ فراہم کرتا ہے جہاں ان کی شناخت کی رازداری اور اخفاء کو یقینی بنایا جاتا ہے۔ تال اور این ایم پی پلس کے بانی منوج پردیسی بتاتے ہیں ’’۲۰۲۱ء میں ایف ایچ آئی ۳۶۰ اور یو ایس ایڈ کے  ساتھ مذاکرات شروع ہوئے تاکہ  ہیپٹائٹس اور دماغی صحت خدمات  تک رسائی ، اس کی دستیابی اور اس کے معیار کو بڑھایا جا سکے  اور زیادہ سے زیادہ مریضوں کو علاج کی سہولت مہیا کروائی جا سکے ۔ ‘‘واضح رہے کہ تال پلس کے پاس تھوک، خوردہ اور درآمد اور برآمد کے لائسنس بھی موجود ہیں ، نیز اس کے پاس حکومت سے منظور شدہ ایک ٹیکہ کاری مرکز بھی ہے۔

اپنی بے تحاشہ کامیابی کے مد نظر تال پلس نے پیپفار یعنی امریکی صدر ہنگامی منصوبہ برائے ایڈس راحت کی امداد سے ای فارمیسی کی شروعات کی۔ تال پلس  ای فارمیسی کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ممبئی میں مقیم امریکی کونسل جنرل مائیکل ہَینکی نے کہا’’مجھے لگتا ہے کہ یہ ہمارے ملک کے اقدار کا بہترین نمونہ ہے۔ بھارت کے قوی، تکثیری اور برادریوں سے امداد یافتہ حل اور امریکہ کی خود انحصاری  اور اختراع پردازی کاوشوں کا انعکاس ہے۔‘‘

تال پلس  کا ارادہ اپنے آن لائن پلیٹ فارم کو مزید وسیع کرنے کا ہے تاکہ ’’خدمات کے معیار کو بلند کیا جاسکے، آن لائن فروخت پلیٹ فارم کو مزید بہتر بنایا جا سکے اور اپنے صارفین کی تعداد میں اضافہ کیا جاسکے تاکہ تال پلس  ایک خود پر منحصر سماجی تنظیم بن سکے اور اپنے دائرہ کار کو مزید وسیع کرسکے۔‘‘

تال ای فارمیسی کی شروعات پیپفار کی مدد سے فروری ۲۰۲۳ء میں ہوئی۔ (تصویر از انیتا کھیمکا، مشیر فوٹوگرافر، ایپِک انڈیا)

نگہداشت کے ساتھ امداد

دوا کی عام  دکانوں پر ایک ماہ کے اے آر ٹی علاج  کا خرچ بارہ سو روپے سے لے کر پانچ ہزار روپے تک ہو سکتا ہے مگر ایمکیور فارما سیوٹیکللس (تال پلس کے فارما پارٹنر) پر یہ چیز ۳۶۰ روپے میں دستیاب ہے۔ منوج بتاتے ہیں ’’  ملک کی کئی  بڑی دوا ساز کمپنیوں کے ساتھ ہمارا مضبوط اشتراک ہے جس سے ہمیں کم قیمت پر ادویات دستیاب ہو جاتی ہیں جس کا فائدہ ہمارے صارفین کو ملتا ہے۔‘‘

یو ایس ایڈ امداد یافتہ پرو جیکٹس جیسے ایپک اور ایکسیلریٹ نے تال پلس کی ترقی کے لیے اس طور پر سرمایہ فراہم کیا ہے جسے واپس کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔اس کے علاوہ تال پلس کو ناکو (این اے سی او )، صوبائی سوسائٹی برائے ایڈس کنٹرول ، کمیونٹی پر مبنی تنظیموں، جنہیں ایچ آئی وی؍ایڈس کے مریض اور ڈاکٹرس چلاتے ہیں، سے بھی مالی امداد حاصل ہوئی ہے۔

تال پلس  ماڈل کا  مقصد صرف دوائیں فروخت کرنا ہی نہیں ہے۔ منوج بتاتے ہیں ’’ اصل میں تال پلس کی حیثیت ایک ایسے دوست اور راہنما کی ہے جس نے یہ سفر پہلے کیا ہو۔ جب ایک لا علاج مرض ہو توصرف دوا دارو ہی کافی نہیں ہوتی۔ ہمارا طریقہ کار منفرد ہے کیونکہ یہ ایک مجموعی طریقہ کار ہے جس میں ہم مریض کی مجموعی دیکھ بھال پر  اصرار کرتے ہیں جس میں تفریق اور بدنامی جیسے امور پر عبور حاصل کرنا شامل ہے جس کی وجہ سے مریضوں کا نہ تو ڈھنگ سے علاج ہو پاتا ہے  اور نہ ہی وہ دیگر سہولتوں کا فائدہ اٹھا پاتے ہیں۔‘‘

اسی قسم کی امداد کی ضرورت ۳۲ سالہ ٹرانس وومن شیتل باجوا (تبدیل شدہ نام)کو درکار ہے۔ اسے تال پلس میں ہم عمروں سے مشاورت اور علاج میسر آیا ۔ وہ اپنا تجربہ بتاتی ہوئی کہتی ہے’’ طبّی عملہ کے زیر غور میری ہارمون تھیراپی اور میرے جلد کی رنگت بھی رہی جو ہمارے پیشے میں تو اہمیت کی حامل ہے ہی ، علاج کے نقطہ نظر سے بھی اہم ہے۔ ‘‘

وہ تال پلس سے نو ماہ سے وابستہ ہے اور اس کی صحت بہتر ہو رہی ہے۔ وہ اس بارے میں بتاتے ہوئے کہتی ہے’’ اب میرا وزن بھی بڑھ رہا ہے جو پہلے کم ہوگیا تھا ۔ میرے جلد کی رنگت بھی اب نکھر گئی ہے۔‘‘

پارومیتا پین رینو میں واقع یونیورسٹی آف نیواڈا میں عالمی ذرائع ابلاغ مطالعات کی معاون پروفیسر ہیں۔


اسپَین نیوز لیٹر مفت حاصل کرنے کے لیے لنک میں دیے گئے فارم کو بھریں: https://bit.ly/SubscribeSPAN


ٹَیگس

تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے