تاریخ کے اوراق کا تحفظ

بینگالورو میں واقع یونائیٹیڈ تھیو لوجیکل کالج بھارت کے ماضی کی ہزاروں قابل قدر یادگاروں کو محفوظ کرنے میں مصروف ہے۔

کیری لو وینتھل میسی

May 2017

تاریخ کے اوراق کا تحفظ

بینگالورو میں واقع یونائیٹیڈ تھیو لو جیکل کالج لائبریری میں نایاب کتابوں اور تاڑ کے پتوں پر لکھے ہوئے مخطوطات کا ایک قابل قدر ذخیرہ موجود ہے۔

بینگالورو میں واقع یونائیٹیڈ تھیو لوجیکل کالج کے تہہ خا نے میں تاڑ کے پتوں پر لکھے ہوئے ۵ ہزار سے زیادہ مخطوطات کا ایک پُر امارت کتب خانہ ہے جس میں ۱۸ ویں اور ۱۹ ویں صدی عیسوی کے بھارتی ثقافتی ورثہ کی تاریخ درج ہے۔ اس کالج کے ذمہ داروں نے ان مخطوطات کو محفوظ رکھنے کی جو کوششیں کی ہیں ان کے نتیجے میں آپ کو کتب خانہ کی گہرائیوں میں اترنے کی ضرورت نہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر کسی تک ان مخطوطات کی رسائی کے لیے انہیں ڈیجیٹل صورت میں مہیا کرائے جانے کا کام جاری ہے۔ یہ کتب خانہ ایشیا کے سب بڑے دینیاتی کتب خانوں میں سے ایک ہے۔

کمیاب ذخیرہ

تاڑ کے پتوں پر محفوظ مخطوطات میں سے بعض تحریریں ایسی ہیں جو ۲۰۰ سال سے زیادہ پرانی ہیں ۔ یہ تحریریں لوک ادب، دیسی دواؤں ، علم ِ نجوم ، علم فلکیات ، ثقافتی طور طریقے، جانوروں کے علاج کی دوائیں ، کھیتی باڑی کے علوم ، دستکاری اور ہنر مندی سب کا احاطہ کرتی ہیں۔

یونائیٹیڈ تھیو لوجیکل کالج کے لائبریرین سیموئل راج کہتے ہیں ”یہ مخطوطات تاریخی تحقیق کے لیے اہم مواد کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ یہی نہیں ،نسلی اور تاریخی اطلاع کے لیے ان کی اہمیت کسی خزانے کی سی ہے۔‘‘

یہ مخطوطات کئی بھارتی زبانوں میں ہیں جن کی ہیئت اور اسلوب بھی الگ الگ ہے۔ را ج کی نگا ہ میں ایک اہم مخطوطہ ”سنہا لی زبا ن میں ہے جس میں مزاحیہ کہا نی کی ہیئت میں شبیہات کندہ کی گئی ہیں ۔‘‘

لیکن بقول راج ان مخطوطات کے بارے میں شاید سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ بھارتی تاریخ کا دیانت دارانہ بیان ہیں ۔ راج بتاتے ہیں ”ہما رے ملک میں مصنفین نے تا ریخ کو دو انتہا ﺅں پر لکھا ہے ۔ ایک تاریخ وہ ہے جو محبّان ِ وطن نے لکھی اور دوسری تاریخ وہ ہے جسے ایسٹ انڈیا کمپنی والوں نے لکھا۔ ہمارے کتب خانہ میں جو تاریخ محفوظ ہے وہ غیر متعصب ہے جسے مبلغوں نے لکھا ، مونو گراف کی طرح نہیں بلکہ جریدے کی طرح۔‘‘

راج نے مزید بتایا ” اس طرح مخطوطات کا یہ مجموعہ مورخین کو ”انہیں وارداتوں کا ایک اور تناظر “حاصل کر نے میں مدد کر تا ہے جن کامطالعہ کرنے کے وہ خواہاں ہیں۔

راج تاڑ کے پتوں پر محفوظ مخطوطات کے علاوہ کالج میں موجود نادر کتابوں کے مجموعہ کو بھی ڈیجیٹائز کرنے کے لیے سر گرم ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ابھی تک انہوں نے ۶۰ سے زیادہ نادر کتابوں کی نشاندہی کی ہے جو دنیا میں کہیں بھی آن لائن دستیاب نہیں ہیں۔

ان نا در کتابوں کی چھا ن بین کرنے اور اس بات کا تعین کرنے کے بعد کہ ان کی نقل کہیں آن لائن نہیں ملتی ، راج انہیں پی ڈی ایف فارمیٹ میں تبدیل کرکے ہر جگہ دستیاب کروا رہے ہیں۔

راج نے بتایا کہ تاڑ کے پتوں اور نادر کتابوں کے کتب خانہ کے ذریعہ ” اس کالج کا عظیم الشان سرمایہ نہ صرف طلبہ تک پہنچتا ہے بلکہ ملک کے بہت سے حصوں میں اور بیرون ملک واقع دیگر سیکولر کالجوں کے محققین تک بھی اس کی رسائی ہے۔‘‘

اگررا ج ، ان کے پیش رو افسروں اور موجودہ رفیقوں نے تحفظ کایہ کام نہیں کیا ہوتا تو یہ ممکن نہیں تھا ۔ان لوگوں نے اس بات کو یقینی بنا یا ہے کہ لا ئبریری میں یہ تاریخی دستاویزات بہت توجہ کے ساتھ لپیٹ کر اس کے ایئر کنڈیشنڈ تہہ خانے میں رکھی جائیں۔ یہاں کسی بھی کتاب یا مخطوطہ کو تہہ خانوں میں رکھنے سے پہلے اس پر کیڑے مار دوا چھڑکی جاتی ہے تاکہ دیمک یا دوسرے کیڑے ان تک پہنچ نہ سکیں۔ اس کا لج میں ”مخطوطات رکھنے کے لیے مو می کا غذ اور چو بی صندوق “ کااستعمال کیا جاتا ہے ۔ تاڑ کے پتوں کو” وقفے وقفے سے نیم اور سنبل ہندی تیل “چھڑک کر محفوظ کیا جا تا ہے اور ”روایتی ڈھنگ سے لال کپڑے میں “باندھ دیا جا تا ہے ۔

ان مخطوطات کو محفوظ رکھنے کے لیے جزوی مالی اعانت ۲۰۰۶ ءمیں یو ایس ایمبسڈرس فنڈ فار کلچرل پریزرویشن سے ۳۵ ہزار ڈالر (قریب قریب ۲۳ لاکھ روپے) کی صورت میں آئی ۔ اس فنڈ کویونائیٹیڈ تھیو لوجیکل کالج کی آ ر کا ئیو میں تاڑ کے پتوں کے مخطوطات اور نا در کتابوں کی حفاظت اورمائیکرو فلمنگ کے لیے استعمال کیا گیا۔

لا ئبریری

گرچہ یونائیٹیڈ تھیو لوجیکل کالج ۱۹۱۰ ءمیں قا ئم کیا گیا مگر اس کی لا ئبریری ۱۹۶۸ءمیں ایک معیاری لا ئبریری میں صورت گر ہو نا شروع ہو ئی کیوں کہ راج کے مطابق اس وقت مبلغ سوسائٹیز اور انفرادی خیر خواہوں نے فیاضی کے ساتھ اپنی کتابوں کو لائبریری میں دینے کا کام شروع کیا جس کے نتیجے میں کتابوں کا ذخیرہ تیزی کے ساتھ بڑھا ۔ انہوں نے بتایا کہ آج لائبریری کے کتابوں کے مجموعہ میں ۹۵ ہزار کتابیں ، جریدوں کے ۲۷۲ ٹائٹل ، تاریخی ریکارڈ کی ۴۲۰ مائیکرو فلمس اور ۲۳ ہزار ۲۳ مائیکرو فیچیز موجود ہیں ۔

یہ کتب خانہ جن تاریخی یادگاروں پر فخر کرتا ہے ان میں مذہبی یادگار اور سیکولر یادگار دونوں شامل ہیں۔ مارٹِن لوتھر کمنٹری آن گلاٹینس (۱۵۲۳ء)، برتھو لوماؤس زی جین بالگس گرامیٹیکا ڈیمولیسا(۱۷۱۶ ء)، زی جین بالگس، جو ہانن ارنسٹ گرنڈلرس اینڈ بینجامین شُلزیز بِبلیا ڈیمولیسا (۱۷۲۸۔۱۷۱۴)،مہاتما گاندھی کے خطوط، تمل زبان میں بھارت میں چھپی پہلی نیو ٹیسٹا مینٹ، ۱۸ویں صدی کے تمل شا عر اور گلو کار ویدا نیا گم سستریار کی تحریریں اور بے حساب ادب ، تاریخ ، علم الانسان ، علم سما جیات اورسا ئنس کے متون موجود ہیں ۔

اس طرح کے علمی کا م کا ذخیرہ ہونے کی وجہ سے یہ لا ئبریری ، جو ۱۹۹۲ ءمیں موجودہ عما رت میں منتقل ہو ئی ، بقول راج ”اصل ریکارڈ اور جرا ئد محفوظ کئے ہو ئے ہے“اور ”گذشتہ دو صدیوں کے دوران زندگی اور حالات کے بارے میں اطلا عات کا گراں قدر ذریعہ ہے ۔‘‘

اور جیسا کہ را ج نے وضاحت کی ”تاڑ کے پتوں پر محفوظ مخطوطات ،نا در کتابیں اور دیگر ڈیٹیجا ئزڈ وسائل اصل تحریروں کا آ ئندہ نسلوں میں اعتبار یقینی بناتے ہیں ، اسکالروں تک ان کی دستیابی بڑھاتے ہیں اوربھارت کے ماضی کو زندہ رکھنے میں مدد کرتے ہیں۔‘‘

کیری لو وینتھل میسی نیو یارک سٹی میں مقیم ایک آزاد پیشہ قلمکار ہیں ۔



تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے