صحت کی دیکھ بھال کا موبائل سینٹر

فلبرائٹ ۔نہرو فیلو محمد حسین اختر نے دیہی علاقوں کے لیے ایک کم لاگت اور آسانی سے نصب کیا جانے والا موبائل ہیلتھ سینٹر تیار کیا ہے۔

برٹن بولاگ 

August 2024

صحت کی دیکھ بھال کا موبائل سینٹر

اپنے موبائل ہیلتھ سینٹر کے ابتدائی چھوٹے سے نمونے کے ساتھ محمد حسین اختر۔(تصویر بشکریہ محمد حسین اختر)

ہندوستان میں دیہی علاقوں میں صحت کی سہولیات اکثر صحت کے بنیادی ڈھانچے کے لحاظ سے کم ترقی یافتہ ہیں لہذا لوگوں کو صحت کے مراکز تک پہنچنے کے لیے طویل فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے۔ اس کی وجہ سے اکثر علاج میں تاخیر ہوتی ہے اور  متعدی بیماریوں کے پھیلنے کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے۔

محمد حسین اختر نے ایک ایسا ڈھانچہ تیار کیا ہے جو اس کے حل کا حصہ ہوسکتا ہے۔ آئی آئی ٹی  کانپور کے ڈپارٹمنٹ آف ڈیزائن میں پی ایچ ڈی کے امیدوار محمد حسین اختر نے موبائل پرائمری ہیلتھ سینٹر کے لیے ایک ہلکا فولڈنگ ڈھانچہ تیار کیا ہے۔ مضبوط اور آسانی سے نصب کیا جانے والا، خیمے جیسا یہ ڈھانچہ دور دراز کے گاؤں کا دورہ کرنے والی چھوٹی پرائمری ہیلتھ ٹیموں کے استعمال کے لیے تیار کیا گیا ہے جس سے دیہی باشندوں کو بنیادی دیکھ بھال فراہم کرنا آسان ہوجاتا ہے۔

اس ڈھانچے کو کم وسائل والے ماحول کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے جہاں چھوٹی موٹی سلائی کا کام ہوتا ہے وہاں اسے تیار کرنا آسان ہے اور اس میں لاگت بھی کم آتی ہے۔ اختر نے  برکلے میں واقع یونیورسٹی آف کیلیفورنیا میں تعلیمی سال ۲۰۲۴۔۲۰۲۳کے  دوران فلبرائٹ ۔نہرو ڈوکٹورل ریسرچ فیلوشپ کے دوران  ا پنی اس ایجاد کا ایک چھوٹا نمونہ تیار کیا۔

کثیرالمقاصد ڈھانچہ

اختر کہتے ہیں کہ یہ ڈھانچہ دیہی آباد یوں تک بنیادی صحت کی خدمات کی توسیع میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ یہ ایک صاف ستھری  اور بند جگہ ہوگی جہاں صحت کارکن موڑ کر رکھا جانے والا ٹیبل اور اسی قسم کی کرسیاں لگاتے ہیں۔ ان کے پاس عام طور پر کچھ دوائیاں اور اسٹیتھواسکوپ اور  چھوٹی ایکس رے مشین جیسے کچھ بنیادی سامان ہوتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں ’’دیہات کے لوگوں کو شہروں میں موجود بنیادی صحت کی دیکھ بھال کی سہولیات تک پہنچنے کے لیے اپنے گھروں سے بہت دور سفر کرنا پڑتا ہے۔میرا مقصد یہ ہے کہ لوگوں کی دیکھ بھال کا پہلا پڑاؤ دیہی علاقوں میں ہو۔‘‘ جن لوگوں کو سخت یا خصوصی دیکھ بھال کی ضرورت ہے انہیں صحت کے بڑے مراکز میں بھیجا جا سکتا ہے۔

اسے اس طرح بنایا گیا ہے کہ اسے چار طبّی پیشے ور  ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جا سکتے ہیں  جن میں ایک ڈاکٹر، ایک نرس، ایک تکنیکی ماہر اور ایک استقبالیہ خاتون یا معاون شامل ہوتے ہیں ۔ یہ لوگ پیدل یا سائیکل پر سفر کرتے ہوئے مشکل علاقوں تک پہنچتے ہیں۔

اختر بتاتے ہیں ’’یہ لوگ ہر روز کسی گاؤں کا سفر کرتے ہیں، اس سہولت کی تنصیب میں ۱۵ منٹ صرف کرتے ہیں، چار سے چھ گھنٹے تک بیرونی مریضوں کا شعبہ چلاتے ہیں اور پھر بوریا بسترا لپیٹ کر اپنی جگہ واپس آ جاتے ہیں۔‘‘

اس ڈھانچے کا موبائل کلینکس کے علاوہ بھی وسیع پیمانے پر استعمال ہوسکتا ہے جن میں آفات سے نمٹنے کے دوران طبی ٹیموں کو پناہ دینا اور ثقافتی یا مذہبی تہواروں جیسے عوامی اجتماعات کے دوران عوامی صحت کی خدمات فراہم کرنا شامل ہیں۔

جدت طرازی کوراہ دینا

یوسی برکلے میں قیام کے دوران  اختر نے اپنے فلبرائٹ سُپروائزر اور کالج آف انوائرونمنٹل ڈیزائن کے  مارک اینڈرسن  کے ساتھ جیکبز انسٹی ٹیوٹ میں وقت گزارا جہاں انہوں نے

امریکی ہائیکنگ ٹینٹ مینوفیکچررس کی ویب سائٹس کا جائزہ لیا تاکہ وہ دیکھ سکیں کہ انہوں نے ا پنی ہلکی پھلکی پناہ گاہوں کو کس طرح ڈیزائن کیا ہے۔ وہ پہلے ہی پیپر فولڈنگ کے روایتی جاپانی فن، اوریگامی سے ترغیب حاصل کر چکے تھے اور کاغذ کو مختلف شکلوں میں ڈھالنے میں خاطر خواہ وقت گزارچکے تھے۔ اس کے بعد انہوں نے مزید جانچ پرکھ اور ترمیم کے لیے ان شکلوں کوکمپیوٹر میں ڈالا اورسب سے ہلکے، مضبوط اور استعمال میں آسان ڈیزائن کی تلاش کی ۔

اختر اس آسان اصول سے متاثر تھے ۔ اسے نصب کرنا چھاتا کھولنے کی طرح سہل تھا اور اس کے لیے رہنما خطوط کی ضرورت بھی نہیں تھی۔

یو سی برکلے میں اپنے  اتالیق اینڈرسن ، ساتھیوں کِرک مینڈوزا اور ماہرین کوڈی گلین ، کرس پارسیل اور کرس میئرس کے ساتھ گھنٹوں غور و فکر کے دوران اختر نے انسٹی ٹیوٹ کی صنعت میں استعمال ہونےوالی سلائی مشینوں کا استعمال کرنا سیکھا اور مختلف ڈیزائنوں کے متعدد چھوٹے پیمانے کے ماڈل تیار کیے۔ انہوں نے مختلف شکلوں اور یہاں تک کہ مختلف قسم کی سلائی کا بھی تجربہ کیا۔ جب اختر آخر کار مطمئن ہوگئے کہ ان کے پاس بہترین ڈیزائن ہے تو انہوں نے مذکورہ ماڈل تیار کیا اور اس کی مضبوطی کو جانچنے کے لیے ہوا اور طوفان کے دنوں میں اسے باہر نصب کیا۔

یہ ڈھانچہ ایک آٹھ رخی اہرام کی شکل میں ہے۔ پورے پیمانے پر یہ بنیاد میں تقریبا ً ٍ۱۰ مربع فٹ اور اپنے بلند ترین مقام پر زمین سے ۱۱ فٹ دور ہوگا۔ اس میں ویلکرو پٹیوں کے ساتھ چار دروازے ہیں۔  ان میں سے ہر دروازہ ۷ فٹ اونچا اور اسے زیپرس کی مدد سے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس ڈھانچے کو چار ہلکی پھلکی، ٹیلی اسکوپنگ ایلومینیم ٹیوب پکڑے رہتے ہیں اور زمین میں دھنسی ہوئی بلیوں سے منسلک تاروں کے ذریعہ چار کونوں کے ذریعہ اسے محفوظ رکھا جاتا ہے۔ یہ نائلون جیسے چیز سے ڈھکا رہتا  ہے۔ پورے ڈھانچے کا وزن صرف ۳ کلوگرام ہوگا۔

اختر کہتے ہیں ’’اگر میں یو سی برکلے میں فلبرائٹ فیلو نہ ہوتا تو میں ایسا کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ اس نے مجھے ماہرین سے ملنے اور ان مشینوں پر کام کرنے  کا موقع فراہم کیا جن کی مجھے ضرورت تھی۔ ‘‘

کیلیفورنیا روانگی سے قبل انہیں ۵۰ لاکھ روپےپر مشتمل ایک بیراک بایو ٹیکنا لوجی اگنیشن گرانٹ ملی جسے وہ مکمل پیمانے پر نمونے بنانے اور ڈھانچے کو ’’بازار کے لیے تیار‘‘ کرنے کی خاطر استعمال کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ وہ ایوارڈ کی رقم کو اپنے اسی مقصد کی خاطر  حسین ڈیزائن کے نام سے ایک نجی کمپنی بنانے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔  جلد ہی دیہی علاقوں میں نمونوں  کی جانچ شروع کی جانے والی ہے۔

اختر کہتے ہیں کہ ان کا یہ ڈھانچہ ایک عام امریکی ہائیکنگ خیمے سے زیادہ مضبوط ہے۔ اس کے باوجود وہ کہتے ہیں’’ جیکبز میں میرے کام سے پتہ چلتا ہے کہ جب بڑے پیمانے پر کوئی چیز تیار کی جاتی ہے تو اسے بہت سستا بنایا جا سکتا ہے، شاید تقریبا صرف ۲۵ ڈالر میں۔‘‘ دروازوں پر ویلکرو پٹیوں کا استعمال کرتے ہوئے متعدد ڈھانچوں کو ایک ساتھ جوڑ کر ماڈیولر طریقے سے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔

اختر کہتے ہیں’’میرا آخری مقصد کچھ ایسا تیار کرنا ہے جسے ہندوستان اور دیگر ممالک میں بڑے پیمانے پر استعمال کیا جا سکے۔‘‘

برٹن بولاگ واشنگٹن ڈی سی میں مقیم ایک آزاد پیشہ صحافی ہیں۔



تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے