سوہیرا، ایک قدرتی طریقہ علاج کی سماجی کمپنی ہے جوسیکس ٹریفکنگ کی شکارخواتین کو ملازمت فراہم کررہی ہے۔
December 2021
ونیسا باؤچ، سوہیرا کی شریک بانی
’’میں آپ کو اپنی کہانی کیوں سناؤں؟ آپ میں اور ان لوگوں میں کیا فرق ہے جو یہاں آتے ہیں اور میرے جسم سے کھیلتے ہیں؛ آپ میری کہانی سے کھیلیں گی۔ اور غالباً گھر واپس جا کر میری کہانی پر ایک کتاب لکھیں گی اور ڈھیر سارا پیسہ بنائیں گی۔ تو آپ میں اورانسانوں کے ایک غیر قانونی تاجر میں کیا فرق ہوا۔‘‘ دہلی کے ایک قحبہ خانے میں مقیم ایک خاتون کے ان چبھتے ہوئے جملوں نے ونیسا بوچ کو اس پر آمادہ کیا کہ وہ اس جیسی دیگر خواتین کے لیے با وقار ملازمت کی راہ تلاش کریں۔ انہوں نے سوہیرا نامی ایک تنظیم کی شراکت میں بنیاد ڈالی جو جنسی استحصال کے لیے انسانوں کی غیر قانونی تجارت کی شکار خواتین کو ملازمت فراہم کرتی ہے۔ سوہیرااپنے ملازمین کے طبی اور دانتوں کی صحت کا خرچ برداشت کرتی ہے، رہنے کے لیے محفوظ ماحول فراہم کرتی ہے، دانشورانہ نشو ونما کی ضمانت دیتی ہے اورخواتین کو ذاتی طور پر طاقتور بناتی ہے۔
ونیسا ٹیکساس کرسچین یونیورسٹی میں سیاسیات کی ایسو سی ایٹ پروفیسر ہیں۔ وہ ایک انعام یافتہ اسکالر ہیں جنہیں امریکی حکومت کے جانب سے انسانوں کی غیر قانونی تجارت پرتحقیق کرنے کے لیے ایک ملین امریکی ڈالر کی رقم ملی ہے۔
ونیسا کو ممبئی اور کولکاتا میں واقع امریکی قونصل خانوں میں بحیثیت مقرر مدعو کیا گیا۔ علاوہ ازیں جن متعدد بین الاقوامی اداروں نے انہیں اپنے یہاں بحیثیت مقرر دعوت دی ہے ان میں اقوام متحدہ آفس برائے منشیات اورجرائم، امریکی ایجنسی برائے بین الاقوامی ترقی، انسانوں کی غیر قانونی تجارت کے انسداد کے میدان کا ڈیٹا سینٹر پولارس ، تھنک ٹینک مَیک کین انسٹی ٹیوٹ اور بچوں کو جنسی استحصال سے محفوظ رکھنے کے لیے تکنیک تیار کرنے والی تنظیم تھارن شامل ہیں۔ پیش خدمت ہیں ان سے انٹرویو کے چند اقتباسات جن میں وہ اپنے کام پر روشنی ڈال رہی ہیں۔ جن مسائل کا انہوں نے سامنا کیا ان کی بھی تفصیل اس انٹرویو میں بیان کررہی ہیں اور یہ بھی وضاحت کررہی ہیں کہ ان کی سماجی تنظٰیم سوہیرا سیکس ٹریفکنگ کی شکارخواتین کو ایک نئی شروعات کے لیے کیسے مدد فراہم کرتی ہے۔
۱۔ آ پ کی درسیات میں امریکی اور عالم گیر سطح پر سیکس ٹریفکنگ کا موضوع سرِ فہرست ہے۔ کیا آپ ہمیں اس میدان میں اپنے کام کے متعلق بتا سکتی ہیں؟
میں سیکس ٹریفکنگ( جنسی استحصال کی غرض سے انسانوں کا ایک ملک سے دوسرے ملک غیر قانونی طور پر لے جائے جانا) کے مسئلہ پرگذشتہ ۱۵ برسوں سے تحقیق میں مصروف ہوں۔ میں نے اس کی شکارسینکڑوں خواتین کا سروے کیا ۔ انسانوں کی غیر قانونی تجارت کے جرم میں جیل میں سزا کاٹ رہے مجرموں کا انٹرویو کیا۔ انسانوں کی غیر قانونی تجارت کے قوانین اور قانونی کارروائیوں کا تجزیہ کیا۔ ڈھکے چھپے طور پر چل رہے اس قبیح دھندے کے معاشی اثرات کا جائزہ لیا ۔ اور انسانوں کی غیر قانونی تجارت میں ملوث منظم جرائم پیشہ تنظیموں کی اقسام کا مطالعہ کیا ہے۔ان کے علاوہ ، میں نے اپنی تحقیق کے دوران کئی دیگر امور پربھی نگاہ ڈالی۔ اس کام کو کرنےکے دوران میں نے متعدد غیر سرکاری تنظیموں، سرکاری ایجنسیوں اوردرس و تدریس سے وابستہ افراد کے ساتھ شراکت بھی کی۔ اپنے اس سفر کے دوران میری ملاقات شاندار قائدین اور ایسی پرعزم خواتین سے ہوئی جو اس دلدل سے کامیابی کے ساتھ نکل آئی ہیں۔ یہ خواتین آزادی کی جنگ میں کلیدی کردار ادا کررہی ہیں۔
۲۔ بھارت میں اس شعبے میں کام کرنے کا آپ کا تجربہ کیسا رہا؟
میں نے ۲۰۱۴ ءمیں بھارت میں کام کرنا شروع کیا۔ میرا سابقہ شکتی واہنی نام کی ایک شاندار تنظیم سے پڑا جوبھارت میں ۱۹۹۷ ءسے ہی انسانوں کی غیر قانونی تجارت کےانسداد کے میدان میں صف اوّل ہے۔ میں نے جو کچھ سیکھا یا تجربہ حاصل کیا وہ اس سے وابستگی کاہی نتیجہ ہے۔ باالخصوص ڈاکٹر پی۔ایم۔ نائر اور دوسروں کی زبردست تحقیق سے میں نے بہت زیادہ استفادہ کیا۔ جوکچھ میں نے بھارت میں تجربہ کیا ،وہ دنیا کے دیگر حصوں بشمول امریکہ،بنیادی طور پر مختلف نہیں ہے۔ بنیادی طور پر اس کی جڑیں بین طبقاتی ظلم وستم میں پیوست ہیں۔ اس کی طویل تاریخ ہے جو نسل، قومیت، مذہب، طبقہ، ذات، جنس اور جنسیات پر مبنی امتیازی سلوک سے منسلک ہے۔ جنسی استحصال کی شکارجن خواتین سے میں ملی ان سب نے مذکورہ میں سے کسی نہ کسی ایک یا پھر سب کا تجربہ ضرور کیا تھا: تعلیم کی کمی، صحت کی دیکھ بھال کا فقدان، مالی آزادی کا فقدان، خانگی تشدد، کم سنی میں شادی،جنسی تشدد، اور جغرافیائی اور سماجی نقل و حرکت۔
۳۔ سوہیرا کیا ہے اور اس کا تصور آپ کے ذہن میں کیسے آیا؟
سوہیرا ویلنیس کی ایک ایسی کمپنی ہے جو دہلی میں سیکس ٹریفکنگ سے بچ نکلنے والی خواتین کو روز مرہ کے اخراجات کے لیے بھتہ دیتی ہے۔ ہماری کمپنی ان کو پائیدار اور با وقار ملازمت بھی فراہم کرتی ہے۔ یہ ۲۰۱۷ء کی بات ہے جب میں دہلی میں بیرون ملک مطالعات کے پروگرام کی سربراہی کر رہی تھی۔ ہم دہلی کے قحبہ خانے کے علاقہ کی ایک طبی کلینک کے فرش پر بیٹھے تھے اور وہاں آرام کررہی کچھ خواتین سے گفتگو کر رہے تھے۔ تبھی ایک عورت نے ہم سے کہا’’میں آپ کو اپنی کہانی کیوں سناؤں؟ آپ میں اور ان لوگوں میں کیا فرق ہے جو یہاں آتے ہیں اور میرے جسم سے کھیلتے ہیں؛ آپ میری کہانی سے کھیلیں گی۔ اور غالباً گھر واپس جا کر میری کہانی پر ایک کتاب لکھیں گی اور ڈھیر سارا پیسہ بنائیں گی۔ تو آپ میں اورانسانوں کے ایک غیر قانونی تاجر میں کیا فرق ہوا۔‘‘ جب میں نے اس سے دریافت کیا کہ اسے کیا چاہیئے تو اس نے جواب دیا’’مجھے ایک با عزت ملازمت چاہیے تاکہ میں اس دلدل سے باہر آسکوں ۔‘‘ میں نے اس سے وعدہ کیا کہ میں ضرور اس کی مدد کروں گی۔میرا ارادہ تھا کہ میں اسے ایک ایسی سماجی تنظیم میں لے کر جاؤں گی جو دہلی کے قحبہ خانوں میں پھنسی خواتین کوملازمت اور پیشہ ورانہ تربیت فراہم کررہی ہو۔ مگر مجھے تعجب ہوا کہ مجھےایسی ایک بھی تنظیم نظر نہیں آئی۔ تب میں نے سوہیرا کی شروعات کی تاکہ میں اس عورت سےکیے گئے اپنے وعدہ کو پورا کرسکوں اور اس کی مدد کر سکوں۔
۴۔ جو خواتین سوہیرا میں ملازمت کررہی ہیں ان کاحال اب کیسا ہے؟
ہماری خاتون ملازمین نہایت ہی زبردست کام کر رہی ہیں۔ انہوں نے قحبہ خانوں کو خیرباد کہہ دیا ہےاور اپنی اپنی جگہوں پر رہ رہی ہیں۔ ان سب کے ذاتی بینک کھاتے ہیں۔ ان سب کو لکھنا پڑھنا بھی آتا ہے۔ ان کو عوامی نقل و حمل کے ذرائع کا اچھے طریقے سے استعمال کرنا آتا ہے۔ اور وہ عوامی ٹرانسپورٹ میں، اس شہرکا جسے وہ اپنا گھر کہتی ہیں، گھومتی اور سیر کرتی ہیں۔
۵۔ سوہیرا کے بڑے چیلنجز اور کامیابیاں کیا رہیں؟
کسی عام اسٹارٹ اپ کی طرح سوہیرا کو بھی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا جس میں سرمایہ کی فراہمی ، نظام اور طریقہ کار کی تشکیل اور عمدہ مصنوعات کی یقین دہانی شامل ہے۔ ان سب میں سب سے اوپر جو چیز ہے وہ ہے ہمارا بزنس ماڈل جولوگوں کو ملازمت دینے پر منحصر ہے ۔ ان میں عام لوگ نہیں بلکہ وہ لوگ شامل ہیں جو صدمے اور استحصال سے کنارہ کش ہوکر آئے ہیں اور جن کے پاس قابل تبادلہ ہنر کا بھی فقدان ہے۔چیلنج میں ملازمین کی بنیادی ضرورتوں کا نظم کرنا (اس بات کو یقینی بنانا کہ وہ محفوظ مقامات پر رہیں، بینک میں ان کے کھاتے کھلیں، ان کو عوامی نقل و حمل کے ذرائع استعمال کرنے کی تربیت ملے اور انہیں پڑھنا لکھنا سکھایا جائے) جو ملازمت کی تربیت سے پرے ہے، شامل ہے جو بہت زیادہ وقت لیتا ہے۔ عالمی وبا اور معاشی کساد بازاری کے زمانے میں کسی اسٹارٹ اپ کمپنی کا ان چیزوں کو کرنا زیادہ مشکل کام تھا۔ مگر بہرحال ہم نے بہت ساری کامیابی حاصل کیں۔ سوہیرا میں ملازمت کی بدولت ہمارے متعدد ملازمین کو ایک نئی امید ملی ہے اور اب وہ ایک روشن مستقبل کی جانب گامزن ہیں۔
۶۔ کیا سیکس ٹریفکنگ کی شکار لڑکیوں کی مدد کرنے کے منصوبوں میں توسیع کا کوئی ارادہ ہے؟
فی الحال ہماری تمام تر توجہ اپنی مصنوعات اور عملیات کو مزید بہتر بنانے کی جانب مرکوز ہے کیوں کہ عالمی بازار میں ہماری مصنوعات کی فروخت میں اضافہ ہوا ہے۔ جب ہم توسیع کریں گے تو ہم دہلی میں مزید خواتین کی بھرتی کریں گے۔ دہلی کے مختلف قحبہ خانوں میں اندازاً ۴۰۰۰ سے ۶۰۰۰ خواتین پھنسی ہوئی ہیں۔ مجھے اب تک کوئی عورت ایسی نہیں ملی جو وہاں بہ رضا و رغبت رہنا چاہتی ہو۔ ہم سوہیرا کومزید ترقی دینا چاہتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ خواتین اس آزادی کا لطف اٹھا سکیں جو ہماری موجودہ ملازمین روزانہ محسوس کر رہی ہیں۔
نتاشا مِلاس میں نیویارک سٹی میں مقیم ایک آزاد پیشہ قلمکار ہیں۔
تبصرہ