امریکی یونیورسٹیاں اسٹیم شعبہ جات کے طلبہ کو ہمہ جہت تعلیم کے ساتھ دوسرے شعبوں میں بھی حصول ِ علم کا موقع فراہم کرتی ہیں جوپُرکشش عملی زندگی کے آغازکا باعث ہو سکتی ہیں۔
October 2022
ارون وشوناتھن ایس کے ’ڈی این ڈی فوڈس‘ کے ایوارڈ یافتہ چاکلیٹوں کی نمائش کرتے ہوئے۔ انہیں کورنیل یونیورسٹی کے اسٹیم نصاب کی بدولت ’فوڈ سائنس‘ میں اپنے شوق کا عرفان ہوا۔ (تصویر بشکریہ ارون وشوناتھ ایس کے)
اسٹیم شعبہ جات سے متعلق اعلیٰ تعلیم میں امریکہ ایک عالمی رہنما ہے جہاں اعلیٰ درجے کے ادارے ہیں جوعملی زندگی کے آغاز کے بہت اچھے مواقع پیش کرتے ہیں۔ انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل ایجوکیشن کی ۲۰۲۱ء اوپن ڈورس رپورٹ کے مطابق امریکہ نے ۹۱۴۰۰۰ بین الاقوامی طلبہ کا خیرمقدم کیا۔ تعلیمی سال ۲۱۔۲۰۲۰میں ۱۶۷۵۸۲ طلبہ کے ساتھ بھارتی طلبہ کا طلبہ کی مجموعی تعداد میں قریب قریب ۲۰ فی صد حصہ رہا۔ رپورٹ سے یہ انکشاف بھی ہوا کہ ۲۱۔۲۰۲۰ کے دوران اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکہ جانے والے ۷۸اعشاریہ ۳ فی صد بھارتی طلبہ نے اسٹیم شعبوں میں داخلہ لیا یا ان شعبوں کے لیے کام کیا تھا۔
ایس ٹی ای ایم یعنی اسٹیم سےمراد سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور ریاضی کے شعبے ہیں ۔ اسٹیم کے ذریعہ چاروں مضامین کے نصاب کو لچکدار اور بین مضامینی نقطہ نظر سے سیکھنے کے لیے طلبہ کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ چاروں مضامین کو(الگ الگ پڑھائے جانے کے بجائے )ایک لچکداراسٹیم نصاب میں ضم کر دیا جاتا ہے تاکہ طلبہ مسائل کو حل کرنے والے بنیں اور حقیقی دنیا میں اس کا استعمال کرنے کے لیے بہتر طور پر تیار ہو سکیں۔ یہ امریکہ کی زیادہ تر یونیورسٹیوں میں ایک معمول کی بات ہے۔
لچکدار نصاب
کوئمبٹور کے ارون وشوناتھن ایس کے نے کارنیل یونیورسٹی میں لچکداراسٹیم نصاب کے تجربے کے ذریعے ہی فوڈ سائنس میں اپنے شوق کو دریافت کیا۔گرچہ وشوناتھن نے تمل ناڈو زرعی یونیورسٹی (ٹی این اے یو) میں اپنے انڈرگریجویٹ میجر کے طور پر بایو ٹیکنالوجی کی تعلیم حاصل کی لیکن وہ کچھ مختلف کرنا چاہتے تھے۔ وہ بتاتے ہیں ’’اپنے تعلیمی مقاصد کو واضح طور پر بیان کرنا میرے لیے مشکل تھا۔ مجھے سائنس پڑھنے کا شوق تو تھا مگر میں ریاضی سے لطف اندوز نہیں ہوتا تھا۔ امریکہ میں یونہی بس تجربے کے لیے میں ایک ایسی کلاس میں چلا گیا جس میں میرے مطالعہ سے براہ راست تعلق رکھنے والا کوئی مضمون پڑھایا نہیں جارہا تھا۔ اس پیش قدمی نے میرا تعارف تعلیم کے ایک لچکدار ڈھانچے سے کرایا جس نے مجھے ایک روایتی راستے کو چھوڑ نے اور ایسی چیز کو دریافت کرنے کی اجازت دی جو حوصلہ افزا تھا۔‘‘
وشوناتھن کا انتخاب کارنیل یونیورسٹی / ٹی این اے یو میں دوہرے ڈگری پروگرام میں مکمل اسکالر شپ کے لیے ہوگیا۔ اس کے تحت وشوناتھن کو کارنیل میں فوڈ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اور ٹی این اے یو میں فوڈ پروسیسنگ اینڈ مینجمنٹ کی پڑھائی کا موقع ملا۔ وہ بتاتے ہیں ’’فوڈ انڈسٹری نے مجھے اس وجہ سے اپنی طرف متوجہ کیا کیونکہ سائنس پر مبنی ہونے کے ساتھ اس میں تفریح کا عنصر زیادہ پایا جاتا ہے۔میں کبھی بھی ایسا کام کرنا پسند نہیں کرتا جوعام سے ہوں۔ کارنیل میں جب بھی میرے ذہن میں غیرروایتی تحقیق کا خیال آیا جسے میں انجام دینا چاہتا تھاتو اس وقت مجھے اپنے پروفیسروں کی حمایت حاصل رہی ۔‘‘فوڈ سائنس کے لیے وشواناتھن کے جذبے نے انہیں ’ڈی این ڈی فوڈس ‘قائم کرنے کا حوصلہ بخشا جو ایوارڈ یافتہ چاکلیٹ تیار کرنے والی کمپنی ہے۔اس کے چاکلیٹ پورے بھارت میں بھیجے جاتے ہیں اور اب اس کی شاخیں خوردہ فروشی کے لیے بھی قائم کی جا رہی ہیں۔
متنوع مواقع کی دستیابی
بینگالورو سے تعلق رکھنے والے اَسمرن ملیش نے اوہائیو اسٹیٹ یونیورسٹی کے آسٹِن ای نولٹن اسکول آف آرکیٹیکچرمیں داخلہ لیا تاکہ وہاں نئے نقطہ نظر کے ذریعہ ڈیزائن کے اپنے تصور کو وسعت دے سکیں۔ ملیش باخبر کرتے ہیں ’’ میری خواہش ہمیشہ سے امریکہ میں تعلیم حاصل کرنے کی تھی ۔ میں ایک ایسی یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنا چاہتا تھا جو مجھے مختلف پس منظر اورمختلف طبقے سے تعلق رکھنے والے طلبہ کے ساتھ تعامل کا موقع فراہم کر سکے۔جب میں نے نولٹن اسکول آف آرکیٹیکچر میں اسٹیم کورس کے موادپر نظر ڈالی تو یہ میرے لیے بالکل واضح ہوگیا کہ اس میں وہ پہلو ہیں جن سے میں انڈر گریجویٹ تعلیم کے دوران بے خبر تھا۔ مجھے فن تعمیر کے علاوہ دیگر مضامین میں کلاس کرنے میں دلچسپی تھی اور اوہائیو اسٹیٹ یونیورسٹی کے اسٹیم نصاب نے مجھے اس کا موقع دیا ۔‘‘
بینگالورو کے ’کلوکڈ ریزیڈینس‘ جو اَسمرن ملیش کے ’کیڈینس آرکیٹیکٹ‘ میں کیے گئے ان کے کام کا حصہ ہیں۔ اوہائیو اسٹیٹ یونیورسٹی کے لچکدار نصاب میں غیر آرکیٹیکچر کورس کرنے کی وجہ سے ہی یہ ہنر پروان چڑھا۔ (تصویر بشکریہ اَسمرن ملیش)
مختلف اسٹیم مضامین سے تدریسی رابطے کا ایک آرکیٹیکٹ کی حیثیت سے ملیش کی ترقی پر گہرا اثرپڑا۔ وہ بتاتے ہیں ’’او ایس یو کے لچکدار نصاب نے مجھے ایک بہت اچھا نقطہ نظر دیا ۔اس نے مجھے یہ جاننے کا موقع دیا کہ میں اپنے پیشے میں میری حیثیت کیا ہے۔ کورس کے اختتام پر مجھے اپنے شعبے کی جامع تفصیل سے آگاہی ہوئی۔ اسٹیم کورسیز نے مجھے پیشہ ورانہ دنیا میں قدم رکھنے اور اپنی شناخت قائم کرکے اپنے لیے دعویٰ کرنے کا اعتماد دیا۔‘‘
ملیش کے آرکیٹیکچر اسٹوڈیو، کیڈنس آرکیٹیکٹس نے اپنے جدید ڈیزائنوں کے لیے ۳۰ سے زیادہ ایوارڈجیتے ہیں۔ فرم کے کام کو حال ہی میں’ لندن ڈیزائن بی اَنیل ‘ کے انڈیا پویلین میں پیش کیا گیا تھا۔
جنوری ۲۰۲۲ء میں امر یکہ کے گھریلو سلامتی کے محکمے نے اعلان کیا کہ اسٹیم اختیاری عملی تربیت (او پی ٹی) پروگرام میں مطالعہ کے ۲۲ نئے شعبوں کو شامل کیا جائے گا تاکہ اسٹیم پڑھنے والے بین الاقوامی طلبہ کے لیے مواقع میں اضافہ کیا جاسکے اور اس سے امریکی معیشت اور جدت طرازی کی ترقی میں مدد ملے۔ مطالعہ کے نئے شعبوں میں عام جنگلات، انسان پر مرکوز ٹیکنالوجی ڈیزائن، کلاؤڈ کمپیوٹنگ، انتھروزولوجی، موسمیاتی سائنس، معاشیات اور کمپیوٹر سائنس، کاروباری تجزیات، اعداد و شمار کے تصورات، صنعتی اور تنظیمی نفسیات اور سماجی سائنس، تحقیق کے طریقہ کار اور مقدارپر مبنی طریقے شامل ہیں۔
اسٹیم او پی ٹی پروگرام ایف ون ویزا والے طلبہ کو اسٹیم سے متعلق متنوع شعبوں میں بیچلر، ماسٹر یا ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے کی سہولت فراہم کرتا ہے تاکہ وہ اپنے مطالعے کے شعبے میں کام کرنے کے لیے ۳۶ ماہ تک امریکہ میں قیام کرسکیں۔
جیسون چیانگ لاس اینجلس کے سِلور لیک میں مقیم ایک آزاد پیشہ قلمکار ہیں۔
تبصرہ