امریکی کمیونٹی کالج مسابقتی معیار، اعانتی خدمات اور یونیورسٹیوں میں آسان منتقلی جیسی خوبیوں کی وجہ سے بین الاقوامی طلبہ کو راغب کرتے ہیں۔
April 2023
فُٹ ہِل اور ڈی اینزا کالج کو ملا کر دونوں میں ۱۰۰ بھارتی طلبہ زیر تعلیم ہیں۔ مجموعی طور پر ان کالجوں میں بین الاقوامی طلبہ کی تعداد ۸ سے ۱۰ فی صد کے درمیان ہے۔(تصویر بشکریہ دیپالی شاہ)
طلبہ کو فراہم کیے جانے والے مختلف قسم کے مواقع اور تعاون کی بدولت کمیونٹی کالج اکثر بین الاقوامی طلبہ کے لیے قابل عمل متبادل ہوتے ہیں۔
گرین ریور کالج (جی آر سی) کے سابق طالب علم رُشیل شرما جن کا کالج ایک پبلک کمیونٹی کالج ہے اورجس کا مرکزی کیمپس واشنگٹن کے اوبرن میں واقع ہے، ہمارے سامنے ایک مثال ہیں۔ وہ بتاتے ہیں’’آثار قدیمہ واحد ایسا میجر مضمون تھا جس میں مجھے دلچسپی تھی۔تاہم، جی آر سی میں، مجھے احساس ہوا کہ مجھے تھیٹر آرٹس سے بھی لگاؤ ہے۔‘‘ لہٰذا انہوں نے متعدد رضاکارانہ سرگرمیوں میں حصہ لیا اور پھر کیمپس میں تنخواہ والی ملازمت بھی تلاش کرلی ۔ وہ مزید کہتے ہیں’’ساتھی طلبہ کی رضاکار انجمن کے نائب صدر کی حیثیت سے میں نے قائدانہ صلاحیتوں کو فروغ دیا اور مقامی امریکیوں کے لیے محفوظ علاقوں کا سفر کرناشروع کیا جس سے مجھے بشریات کو جاننے اور اس کی قدر کرنے میں بہت مدد ملی۔‘‘
کمیونٹی کالج ایسے ادارے ہیں جہاں دو سالہ کورس ہوتے ہیں۔ یہاں مختلف قسم کے سرٹیفکیٹس، تکنیکی ڈگریاں اور سرٹیفکیٹس اور محدود تعداد میں چار سالہ ڈگری کورس بھی دستیاب ہوتے ہیں۔ یہ کالج سستے ہوتے ہیں اور کلاسوں میں طلبہ کی تعداد کم ہونے کی وجہ سے اساتذہ کے ساتھ ذاتی طور پر بات چیت کرنا بھی آسان ہوتا ہے۔
لیک ٹاہو کمیونٹی کالج (ایل ٹی سی سی) کے طالب علم عدنان کے مطابق ان کے تعلیمی مشیر کی جانب سے ان کے لیے تیار کردہ تعلیمی کریئر کا ایک واضح خاکہ انہیں کمپیوٹر سائنس اور سائبر سیکیورٹی جیسے میجر کے مطالعے اور انفارمیشن ٹیکنالوجی میں چار سالہ بیچلر ڈگری حاصل کرنے کےلیے یونیورسٹی منتقلی میں مدد کرے گا۔
وہ پڑھائی کے دوران کیمپس میں کام کا تجربہ حاصل کرنے میں بھی کامیاب رہے۔ وہ بتاتے ہیں’’میں کیمپس میں اسٹوڈنٹ لائف پروگرام میں اسٹوڈنٹ ایمبیسڈر کے طور پر کام کرتا ہوں اور دوسرے طلبہ کی مدد کرتا ہوں۔ میں نے اس دوران کالج اور کیمپس کے بارے میں بہت کچھ سیکھا۔ میں نے یہ بھی سیکھا کہ رجسٹریشن کے عمل میں نئے اور موجودہ طلبہ کی مدد کیسے کی جائے تاکہ ان کے مجموعی تجربے کو ہموار اور بہتر بنایا جاسکے۔‘‘
مالی امداد
لیک ٹاہو کمیونٹی کالج سالانہ قریب قریب دو لاکھ پندرہ ہزار ڈالر وظیفے کے طور پر تقسیم کرتا ہےجس کی درخواست کے لیے وہ بین الاقوامی طلبہ اہل ہوتے ہیں جنہوں نے اپنی پہلی سہ ماہی مکمل کرلی ہو۔ کالج میں انٹرنیشنل پروگرام کے رابطہ کاراور ایف ون طلبہ کے لیے اسکول کی پرنسپل نامزد عہدیدار مارٹا اسٹرنل کہتی ہیں’’اس کے علاوہ یہاں ٹیوشن فیس دیگر امریکی کالجوں اور یونیورسٹیوں کے مقابلے میں بہت کم ہے۔مثال کے طور پر، ایل ٹی سی سی میں ایک مکمل تعلیمی سال کے لیے ٹیوشن کی فیس بین الاقوامی طلبہ کے لیے ساڑھے گیارہ ہزارڈالر کے قریب ہے جبکہ کیلیفورنیا یونیورسٹی میں ایک مکمل تعلیمی سال کے لیے ٹیوشن فیس ۴۰ ہزار ڈالر سے زیادہ لی جاتی ہے۔‘‘
لیک ٹاہو کمیونٹی کالج(ایل ٹی سی سی) کیلیفورنیا کے جنوبی لیک ٹاہو میں واقع ہے جو سیئرا نیواڈا پہاڑوں میں رہنے والی ایک چھوٹی ریزورٹ اسٹائل کمیونٹی ہے۔ (تصویر بشکریہ ایل ٹی سی سی)
لیک ٹاہو کمیونٹی کالج میں بین الاقوامی طلبہ دیگر اور بالواسطہ طریقوں سے بھی مالی امداد حاصل کرتے ہیں جن میں کیمپس کی فوڈ پینٹری، مفت شٹل ٹرانسپورٹ سروس اور مفت کتابوں کے علاوہ لائبریریوں کے ذریعے لیپ ٹاپ کے لیے قرض کی سہولت وغیرہ شامل ہیں۔ اسٹرنل بتاتی ہیں ’’ایل ٹی سی سی کمیونٹی کالجوں میں اس لیے بھی خاص ہے کیونکہ یہاں طلبہ کو بازار کے مقابلے بہت کم کرایوں پر رہائش کی سہولت حاصل ہے۔‘‘
فٹ ہل اور ڈی اینزا کالج میں بین الاقوامی طلبہ کے داخلے کی اسسٹنٹ ڈائریکٹر دیپالی شاہ بتاتی ہیں کہ ڈی اینزا کالج کیلیفورنیا کے کپرٹینو میں واقع ایک پبلک کمیونٹی کالج ہے۔ یہ نئے طلبہ کو پہلے سال اسکالرشپ نہیں دیتا لیکن کالج میں ٹیوشن فیس زیادہ تر امریکی یونیورسٹیوں کے مقابلے میں آدھی سے بھی کم ہے۔ وہ کہتی ہیں ’’ہم لوگ دوسرے سال میں اسکالرشپ دیتے ہیں جس کے تحت ۵۰۰ ڈالر سے لے کے ۵ ہزار ڈالر تک دیے جاتے ہیں۔ اس کا فیصلہ کئی عوامل کی بنیاد پر کیا جاتا ہے جن میں طالب علم کی قائدانہ صلاحیت سے لےکر میجر مضامین میں ان کی کارکردگی تک شامل ہیں۔ ‘‘
بہت سی یونیورسٹیاں تیسرے سال میں طلبہ کو ان کی منتقلی کے وقت اسکالرشپ دیتی ہیں۔ شاہ باخبرکرتی ہیں ’’یہ اسکالرشپس مختلف طرح کی ہوتی ہیں اور ان کا انحصار تعلیمی لیاقت، ضرورت، قائدانہ صلاحیت یا کھیلوں میں مظاہرہ، آرٹ یا تھیٹر یا موسیقی جیسے شعبوں میں خصوصی کارکردگی پرمنحصر ہے۔‘‘وہ مزید کہتی ہیں کہ ڈی اینزا کے منتقلی مراکز ان طلبہ کی مدد کرتے ہیں جو اس طرح کی اسکالرشپس پیش کرنے والی یونیورسٹیوں کی تلاش میں ہوتے ہیں۔
آسان منتقلی
کمیونٹی کالج میں بین الاقوامی طلبہ کو مسابقتی مواقع اور کارکردگی کے مواقع فراہم کیے جاتے ہیں جو انہیں چار سالہ ڈگری کورس والے کالجوں میں داخلے میں دوسروں کے مقابلے میں بہترثابت کرتے ہیں۔
آروشی شرما کو جب اپنے پسندیدہ تعلیمی ادارے برکلے میں واقع یونیورسٹی آف کیلیفورنیا میں داخلہ نہیں مل پایا تب بھی انہوں نے امید نہیں چھوڑی۔ انہوں نے ڈی اینزا کالج میں داخلہ لینے کا فیصلہ اس امید میں کیا کہ وہاں سے یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کالج سسٹم میں منتقل ہونے کی اجازت ہوتی ہے۔ آروشی کی طرح بہت سارے بین الاقوامی طلبہ کمیونٹی کالجوں کے ذریعے چار سالہ انڈر گریجویٹ ڈگری والے بڑے اداروں میں منتقل ہونے کی راہ کا انتخاب کرتے ہیں۔
چار سال والے کالج میں منتقلی کے خواہاں طلبہ کو شرائط مکمل کرنے کے لیے کچھ ضروری کلاسیں کرنی پڑتی ہیں۔ آروشی نے کمپیوٹر سائنس میں منتقلی کے لیے ایسوسی ایٹ ڈگری کی پڑھائی کی اورڈی اینزا جو فٹ ہل ۔ ڈی اینزا کمیونٹی کالج ڈسٹرکٹ کا حصہ ہے، میں قیام کے دوران کیلیفورنیا کے کالجوں کے لیے ضروری عام تعلیم کی کلاسیں مکمل کیں۔ وہ بتاتی ہیں ’’اس بات کا جائزہ لینے کے لیے میں اسسٹ ڈاٹ او آرجی کااستعمال کیا کرتی تھی کہ کون سی کلاسوں سے میں اپنے پسندیدہ ادارے میں داخلہ لے پاؤں گی اور آخر کار مجھے اس میں کامیابی مل گئی۔‘‘ وہ بتاتی ہیں ’’صرف ڈی اینزا میں ہی منتقلی کے عمل کو آسان بنانے کے لیے وقف وسائل کا انتظام نہیں ہے بلکہ کیلیفورنیا یونیورسٹی کے زیادہ تر کالج منتقلی کے معاملے میں طالب علم دوست ادارے ہیں۔‘‘
اسی طرح رُشیل کو گرین ریور کالج کی مدد سے سیئٹل کے دو عجائب گھروں میں کام کرنے کا موقع ملا۔ وہ بتاتے ہیں ’’اس تجربے نے مجھے اعلیٰ درجے کی یونیورسٹی میں منتقلی کے لیے کہیں زیادہ مسابقتی امیدوار بنا دیا اور اس کے ساتھ ہی جی آر سی میں خرچ کی گئی زیادہ تر رقم کا ایک بڑا حصہ واپس حاصل کرنے کے قابل بھی بناد یا۔ ‘‘
گرین ریور کالج کا کینٹ کیمپس۔ (تصویر بشکریہ ساؤنڈر بروس/وکی پیڈیا)
مشاورتی خدمات
آروشی، رُشیل اور عدنان، تینوں کا کہنا ہے کہ ان کے مطالعے کے دوران بین الاقوامی طلبہ کی رہنمائی کے لیے کیمپس میں اساتذہ اور مشیروں کا کردار نصاب کے تعین اور نئے تعلیمی انداز کو اپنانے کے عمل میں بہت اہم تھا۔ آروشی کا کہنا ہے ’’میرے پاس اپنے تعلیمی تجربات کی منصوبہ بندی کرنے میں مدد کے لیے بہت سارے وسائل تھے۔ بین الاقوامی طلبہ کے لیے وہاں ایسے مشیر موجود ہوتے ہیں جو طالب علم کے آبائی ملک کے تعلیمی نظام سے واقف ہوتے ہیں۔ اس سے منتقلی کا کام مزید آسان ہوجاتا ہے۔‘‘ اس کے ساتھ ہی ڈی اینزا میں پروفیسروں کے علاوہ متوازی اساتذہ کی ایک وقف ٹیم ہے جو اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ طلبہ اپنے میجر مضامین میں کامیاب ہوں۔
شاہ کہتی ہیں ’’ہمارے پاس فُٹ ہِل اور ڈی اینزا کالجوں میں مجموعی طور سے ۱۰۰ سے زیادہ بھارتی طلبہ ہیں۔ ہمارے یہاں جنوب مشرقی ایشیائی ممالک سے تعلق رکھنے والے طلبہ کی ایک تنظیم، ساؤتھ ایسٹ ایشین اسٹوڈنٹ ایسوسی ایشن ہے جس میں بہت سارے بھارتی طلبہ بھی شامل ہیں۔‘‘
ادارے کا انتخاب
امریکہ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے خواہشمند طلبہ کو رُشیل کا مشورہ ہے کہ انہیں کمیونٹی کالج سمیت تمام متبادل دیکھنے چاہئیں جو یقینی طور پر مختلف یونیورسٹیوں میں چار سالہ انڈر گریجویٹ ڈگری کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’’جی آر سی دوہری ڈگری پروگرام کی پیش کش کرتا ہے جس کی وجہ سے میں ہائی اسکول ڈپلومہ کے ساتھ یونیورسٹی کی منتقلی سے متعلق ایسوسی ایٹ ڈگری کو ایک ساتھ حاصل کر سکا۔یہ صرف ریاست واشنگٹن میں ہی ممکن تھا۔ میں اپنے دو سال کے ساتھ ہی اچھی رقم بھی بچا سکا۔‘‘ آروشی طلبہ کو کیمپس میں مختلف تقریبات میں حصہ لینے اور کلب کی سرگرمیوں میں مشغول ہونے اور اپنی نیٹ ورکنگ کو وسعت دینے کا مشورہ دیتی ہیں جس سے منتقلی کی درخواست کو مضبوطی ملنے کے ساتھ میجر مضامین کا انتخاب کرنے کے لیے ضروری مہارتوں کو فروغ دینے میں مدد ملتی ہے۔ وہ کہتی ہیں ’’میں یہ بھی مشورہ دوں گی کہ کمیونٹی کالج میں اپنے دو برسوں کا استعمال طلبہ کو اپنےواضح تعلیمی منصوبے کو ذہن میں رکھتے ہوئے مختلف کلاسوں میں شرکت کرنے اور مختلف تجربات کو آزمانے میں کرنا چاہیے۔‘‘
پارومیتا پین رینو میں واقع یونیورسٹی آف نیواڈا میں گلوبل میڈیا اسٹڈیز کی معاون پروفیسر ہیں۔
تبصرہ