فطرت سے ہم آہنگ رہائش

ثقافتی تحفظ کے لیے یو ایس ایمبسڈرس فنڈ سے ملنے والا عطیہ اروناچل پردیش میں مقامی برادریوں کی روایات کو دستاویزی شکل دینے اور انہیں محفوظ رکھنے میں مدد کر رہا ہے۔

مائیکل گیلنٹ

December 2023

فطرت سے ہم آہنگ رہائش

اروناچل پردیش کے دیسی طبقات میں کرگھے کا استعمال کرکے اپنے لیے کپڑے خود بنانے کا رواج ہے۔(تصویر بشکریہ کانٹیکٹ بیس)

ہزاروں برسوں سے اروناچل پردیش میں مقامی طبقات قدرت کے ساتھ ہم آہنگ ہوکر زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اب ثقافتی تحفظ کے لیے یو ایس ایمبسڈرس فنڈ (اے ایف سی پی) سے ملنے والا عطیہ اس بات کو یقینی بنانے میں مدد کر رہا ہے کہ ان طبقات کا ورثہ اور روایات مزید ہزاروں برسوں کے لیے محفوظ رہیں۔ اے ایف سی پی تاریخی عمارتوں، آثار قدیمہ کے مقامات، مصوّری کے نمونے، مخطوطات، دیسی زبانوں اور روایتی ثقافتی اظہار کی دیگر شکلوں سمیت گوناگوں ثقافتی ورثے کو تحفظ فراہم کرنے کے منصوبوں کی حمایت کر رہا ہے۔

اروناچل پردیش میں یہ پروجیکٹ دسمبر ۲۰۲۱ ءمیں ریاستی محکمہ سیاحت کے قریبی تعاون سے شروع ہوا۔ کولکاتہ میں واقع غیر منافع بخش تنظیم ’کانٹیکٹ بیس ‘نے ۱۷ مقامی طبقات کی زندہ وراثت کی روایات کو دستاویزی شکل دینے اور برقرار رکھنے کے لیے امریکی اور بھارتی منتظمین کو اکٹھا کیا ہے کیوں کہ یہ طبقات نشاندہی کے چیلنجوں کا خود ہی حل پیش کر رہے ہیں۔ اس نے ۳۹ قصبوں اور دیہات میں منعقدہ ورکشاپوں کے ذریعے نقشہ سازی اور فعال خاکہ سازی و تحفظ کے عمل کے لیے ۴۵۰ سے زیادہ کمیونٹی نمائندوں کی خدمات حاصل کی ہیں۔ ان میں سے بعض ہندوستان اور چین کی سرحد سمیت بہت دور دراز مقامات پر واقع ہیں۔

فطری طرزِ زندگی

اننیہ بھٹاچاریہ’ کانٹیکٹ بیس‘ کی شریک بانی اور اروناچل پردیش میں تنظیم کی سرگرمیوں کی رہنما ہیں۔ وہ اس خطے کو ایک دلچسپ اور ثقافتی طور پر ایک اہم جگہ قرار دیتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں ’’اروناچل پردیش ایک بڑی ریاست ہے جس کی سرحدیں چین، بھوٹان اور میانمار سے ملتی ہیں اور ہزاروں برسوں میں مختلف طبقات پر مشتمل ایک بڑی آبادی وہاں ہجرت کر چکی ہے۔ یہ دنیا کے حیاتیاتی تنوع سے متعلق اہم مقامات میں سے ایک ہے اور یہ جاننا دلچسپ ہے کہ کس طرح وہاں کے طبقات نے اس علاقے کو پائیداری کی ایک زندہ مثال میں تبدیل کر دیا ہے۔‘‘

بھٹاچاریہ بتاتی ہیں کہ اس خطے کی ہر مقامی برادری نے اس کا اعتراف کیا ہے کہ ثقافت اور قدرت فطری طور پر ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں اور یہ کہ ’’عقبی حیاتیاتی تنوع‘‘ بقا کا ایک اہم وسیلہ ہے۔ گاؤں کے تمام طبقات ایک ساتھ مل کر صرف بانس اور پتوں کا استعمال کرتے ہوئے ایک ہفتے میں کمیونٹی کے ارکان کے لیے نئے مکانات کی تعمیر کو ممکن بناتے ہیں۔ سیلاب کی صورت میں مکانات کو منتشر کرکے فوری طور پر منتقل کیا جاسکتا ہے۔ بعض برادریوں نے رنگ بانگ نامی ایک غذا تیار کی ہے جو مقامی ساگو کھجور کے درختوں سے تیار کردہ آٹے کی ایک قسم ہے۔ یہ شدید بارش کے دوران ضروری خوراک سمجھی جاتی ہے۔

بھٹاچاریہ کہتی ہیں ’’ہر برادری کا کھانا منفرد ہوتا ہے اور یہ سب عقبی حیاتیاتی تنوع پر منحصر ہوتاہے۔‘‘ وہ مزید بتاتی ہیں ’’ان برادریوں میں جڑوں اور پتوں کو ابال کر یا بھون کر(اپنی مرضی کے مطابق)کھایا جاتا ہے۔ ان برادریوں نے اپنے کھانوں کے لیے بہت لچکدار اور پائیدار طریقے تیار کیے ہیں۔‘‘

کچھ عرصہ پہلے تک ان علاقوں میں پہنچنا آسان نہیں تھا اور صرف مہم جو سیاح ہی ان علاقوں کا دورہ کر سکتے تھے۔ ’’لیکن گذشتہ پانچ یا چھ برسوں میں زیادہ سڑکیں تیار کی گئی ہیں اور اس سال پہلی بار ہوائی اڈے تعمیر کیے گئے ہیں۔ اور اب یہاں بہت سارے لوگ آتے ہیں۔‘‘

ثقافتوں کا تحفظ

سیّاحوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے ساتھ مقامی ثقافتوں کو برقرار رکھنا پہلے سے کہیں زیادہ اہم ہو گیا ہے۔ اروناچل پردیش حکومت نے اس مقصد کی حمایت کرنے والے سیاحوں کے لیے’ ہوم اسٹے ماڈل‘ کو فروغ دینے میں مدد کی ہے۔ بھٹاچاریہ کہتی ہیں ’’اس کا مقصد کمیونٹی کی قیادت میں ذمہ دار ثقافتی سیاحت کو فروغ دینا ہے جہاں سیاح مقامی کنبوں کے ساتھ رہتے ہیں، مقامی کھانا کھاتے ہیں اور کمیونٹی کی تاریخ اور روایات کے بارے میں سیکھتے ہیں۔‘‘ وہ مزید بتاتی ہیں ’’ہم نے مقامی محکمہ سیاحت کے ساتھ شراکت داری کی ہے تاکہ سیاحوں کی اس بات کے لیے حوصلہ افزائی کی جا سکے کہ وہ ان برادریوں کے منفرد اور غیر مرئی ثقافتی ورثے کا اس طرح سے تجربہ کریں جو قابل احترام ہو اور جس سے مقامی برادریوں سے متعلق بیداری پیدا کرنے میں مدد ملے۔‘‘

پائیدار ثقافتی سیاحت کی حمایت کے لیے اپنی کوششوں کے ساتھ ساتھ’ کانٹیکٹ بیس ‘نے فلموں، ایک وقف شدہ ویب سائٹ اور کافی ٹیبل بک کے ذریعے علاقے کی روایات کو دستاویزی شکل دینے کی ایک جامع کوشش کی قیادت کی ہے۔ بھٹاچاریہ کو امید ہے کہ یہ کوششیں نہ صرف مقامی ہندوستانی برادریوں کی ثقافتی دانش مندی کو محفوظ رکھیں گی بلکہ ہر جگہ مقامی برادریوں کے بارے میں لوگوں کے سوچنے کے انداز کو بھی متاثر کریں گی۔

وہ بتاتی ہیں ’’ہمیں اب یہ سمجھنا شروع کر دینا چاہیے کہ مقامی لوگوں سے سیکھنا کتنا ضروری ہے کیونکہ ان کا طرز زندگی ماحول دوست اور موزوں ہے۔ ہمارا مقصد مقامی اور عالمی سطح پر روایات کی قدر اور حفاظت کے لیے نوجوانوں کے شعور میں اضافہ کرنا ہے۔‘‘

مائیکل گیلنٹ نیویارک سٹی میں مقیم قلمکار، موسیقار اور کاروباری پیشہ ور ہیں۔


اسپَین نیوزلیٹر کو میل پر مفت منگوانے کے لیے لنک میں دیے گئے فارم کو بھریں : https://bit.ly/SubscribeSPAN



تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے