فعال تعلیم کو فروغ دینا

امریکی یونیورسٹیاں تفاعلی ، دلچسپ اور چیلنج بھرے کلاس روم لرننگ کے تجربے کے ذریعہ طلبہ کو تعلیم کے میدان میں کامیابی کے طریقوں سے آراستہ کرتی ہیں۔

نتاشا مِلاس

May 2024

فعال تعلیم کو فروغ دینا

طلبہ کے مطابق امریکی یونیورسٹیوں میں مضامین کی گہرائی سے تعلیم دی جاتی ہے۔ کلاس میں گہرائی سے تعلیم اور اس جانکاری کا عملی اطلاق ان کی تعلیم کو ایک کُلّی شکل دیتا ہے۔(اسٹاک فوٹو ورلڈ/ شٹر اسٹاک ڈاٹ کام)

امریکی یونیورسٹیوں میں ہونے والی کلاس الگ طرح کی ہوتی ہے۔ طلبہ کو مختلف طرح کے کورس کے انتخاب کو موقع ملتا ہے۔ کلاس کی حیثیت منظم اجلاس کی ہوتی ہے جہاں طلبہ کی شرکت کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے ۔ یہاں زور عملی تجربے پر دیا جاتا ہے جس سے متعامل ماحول کو فروغ ملتا ہے۔ یہی نہیں طلبہ کو تعلیمی نظام الاوقات تیار کرنے کی سہولت بھی دی جاتی ہے۔ ان سب کے علاوہ  یونیورسٹیاں طلبہ کو امریکی ڈگری حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے وقت کا زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کا موقع بھی فراہم کرتی ہیں۔

انتخاب کی آزادی

مساچیوسٹس کی نارتھ ایسٹرن یونیورسٹی میں کمپیوٹر سائنس کے گریجویٹ طالب علم رِشبھ پاٹل اپنے تعلیمی سفر کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے کی آزادی  کو امریکہ میں تعلیم حاصل کرنے کے ’’ سب سے بڑے فوائد میں سے ایک‘‘ گردانتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں ’’ اس سے ایک ترتیب شدہ، سب کے لیے ایک ہی قسم کے مضامین کی فہرست‘‘پرعمل کرنےکی  بجائے ایسے مضامین کا انتخاب کرنے کی خاطر خواہ آزادی ملتی ہے جس میں ہماری دلچسپی ہوتی ہے۔

امریکی یونیورسٹیوں میں دستیاب نصاب کی تعداد  آپ کو تذبذب میں مبتلا کرسکتی ہے مگر یونیورسٹی کے  کریئر صلاح کار  اور اسکول سے وابستہ وقف پیشہ ور افراد ہمیشہ طلبہ کو فیصلہ سازی کے عمل میں مدد کرنے کے لیے تیار رہتے  ہیں۔

لاس اینجلس میں واقع یونیورسٹی آف کیلیفورنیا سے قانون میں ماسٹر ڈگری حاصل کرنے والی دیویا کوشک بتاتی ہیں ’’اپنی کلاسوں کا انتخاب کرنے اور اپنے نظام الاوقات کو اپنی مرضی کے مطابق تیار کرنے کی آزادی بلا شبہ ایک فائدہ ہے۔ ایک بار جب آپ اپنی ترجیحات کا تعین کرلیتے ہیں اور ابواب کی تقسیم اور مشکل صورتحال جیسے عوامل کی بنیاد پر منصوبہ تیار کرلیتے ہیں تو آپ کو بااختیار ہونے کا احساس ہوتا ہے۔‘‘

لاس اینجلس  ہی میں واقع  یونیورسٹی آف سدرن کیلیفورنیا میں کمیونکیشن مینیجمنٹ کی گریجویٹ طالبہ مانسی چندو خاص طور پر، پیپرس کیسے پیش کیے جائیں، امتحانات کیسے دیے جائیں اور موضوع کی تحقیق کیسے کی جائے جیسے موضوعات کے تعلق سے امریکی تعلیمی نظام کی لچک کی ستائش کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں ’’اپنے نتائج کو اپنے طریقے سے پیش کرنے کی  طلبہ کو مکمل آزادی ہوتی ہے۔ موضوع کے مقابلے میں پریزنٹیشن اور لوگوں کے درمیان بولنے کی مہارت پر زیادہ زور دیا جاتا ہے۔اس کی میں نے تعریف بھی کی ہے۔ یہاں تک کہ مہمان لیکچرر کے طریقے بھی بڑے دلچسپ تھے کیونکہ نظریہ  کے ساتھ ساتھ آپ کو اس شعبے میں کام کرنے والے ان لوگوں سے بھی براہ راست سیکھنے کا موقع ملتا ہے، لہذا آپ اس سے واقف ہو جاتے ہیں کہ مستقبل میں جب آپ ملازمت کے لیے باہر نکلتے ہیں تو آپ سے کیا توقع کی جاتی ہے۔‘‘

لچکدارنظام الاوقات

امریکی یونیورسٹیوں میں بین الاقوامی طلبہ کو بھی اپنی کلاس کے نظام الاوقات کو تیارکرنے کی آزادی ہوتی ہے۔ چندو بتاتی  ہیں’’ یہاں چیزیں بہت رسمی طور پر ترتیب نہیں دی جاتی ہیں ۔لہذا ،یہاں طالب علم کو یہ جاننے کا موقع مل جاتا  ہے کہ وہ اپنا نظام الاوقات کس طرح ترتیب دینا چاہتے ہیں۔ یہ بھی ایک وجہ ہے کہ کیوں  میں نے امریکہ میں تعلیم حاصل کرنے کا انتخاب کیا۔‘‘

موضوع کا انتخاب اور مواقع اساتذہ کو اپنے تدریسی طریقوں میں تخلیقیت لانے اور طلبہ کی حوصلہ افزائی کرنے کی بھی ترغیب دیتے ہیں۔ کوشک کہتی ہیں کہ بہت سے اساتذہ ایک مضمون ہی پڑھاتے ہیں جس سے طلبہ کو ’’پروفیسروں میں سے کسی ایک کا انتخاب‘‘کرنے کا موقع ملتا ہے۔ وہ کہتی ہیں ’’یہ نہ صرف اساتذہ کی ساکھ کو یقینی بناتا ہے بلکہ ان کے درمیان صحت مند مسابقت کو بھی فروغ دیتا ہے اور بالآخر معیاری تعلیم کی فراہمی میں تعاون کرتا ہے۔‘‘

کلاسیں عام طور پر دن کے دوران مختلف اوقات میں ہوتی ہیں جس سے طلبہ کو ایک تعلیمی نظام الاوقات بنانے میں آسانی ہوتی ہے اوریہ غیر نصابی سرگرمیوں کی تکمیل کی اجازت دیتا ہے۔

کوشک کہتی ہیں ’’امریکی یونیورسٹیوں میں دن سے لے کے شام تک کلاسیں ہوتی ہیں جس سے تعلیمی سرگرمیوں اور جزوقتی کام کے درمیان توازن پیدا ہوتا ہے۔ یہ لچک طلبہ کو اپنے نظام الاوقات کو منظم کرنے اور انفرادی ضروریات کو پورا کرنے میں بااختیار بناتی ہے۔‘‘

متوازن طریقہ

پاٹل اس بات کی تعریف کرتے ہیں کہ کس طرح امریکی یونیورسٹیاں منظم نصاب، عملی کلاسوں اور خود مطالعہ کے لیے فرصت کے اوقات کے درمیان توازن قائم کرتی ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’’امریکی یونیورسٹیوں میں کلاس روم اورتجربہ گاہیں  بہت منظم ہوتی ہیں اور نصاب کو بھی یہاں اچھی طرح ترتیب دیا جاتا ہے۔ یہاں کلاسوں اورتجربہ گاہوں  میں جانے کی بہت زیادہ ضرورت نہیں ہوتی  بلکہ ہفتے میں زیادہ سے زیادہ دو بارجانا کافی ہوتا ہے جس سے خود مطالعہ کے لیے خاطر خواہ وقت مل جاتا ہے۔‘‘

انڈیانا کی پرڈ یونیورسٹی میں کمپیوٹر سائنس کے انڈر گریجویٹ طالب علم رودرنیل سنہا کا کہنا ہے کہ امریکی کلاس روم فعال تعلیم پرمبنی ہوتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’’اسائنمنٹس اور لیبارٹری کے کام میں  لیکچرکے مواد کے استعمال سے کہیں زیادہ کچھ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔‘‘وہ کہتے ہیں’’مسئلے کے حل کرنے کا طریقہ تلاش کرکے لیکچرکے مواد کا استعمال کرنے پر زور دیا جاتا ہے جس سے اکثر آپ کو ان چیزوں کا احساس ہوتا ہے جو شروع میں غیر متوقع ہوسکتی ہیں۔‘‘

طلبہ کا کہنا ہے کہ مضامین پر بھی سنجیدگی سے غور و فکر کیا جاتا ہے۔ مضمون سے متعلق تفصیلی معلومات اورعملی طور پراس کا استعمال، امریکہ میں طلبہ کی تعلیم کو منفرد بناتا ہے۔ کوشک کہتی ہیں’’امریکہ میں تدریس کے عملی طریقہ کار کی تعریف کرنے والے بہت سے سابق طلبہ کی باتیں سننے کے بعد میں نے محسوس کیا کہ ان کی تعریفوں نے اس حقیقت کوبہت ہی کم واضح کیا جس کا میں نے تجربہ کیا تھا، خاص طور پر قانون کی تعلیم میں۔‘‘وہ مزید کہتی ہیں ’’امریکی تعلیمی نظام، عملی طور پر سیکھنے، حقیقی دنیا میں اس کے استعمال  اور مسائل کو حل کرنے کو فروغ دیتا ہے جس میں صرف رٹّا مار کر یاد کرنے کے بجائے تصورات اور ان کے عملی استعمال کی گہری تفہیم کی ضرورت ہوتی ہے۔‘‘

کلاس روم بحث میں حصہ لینا بھی نہایت ضروری ہے۔ کوشک کہتی ہیں ’’کلاس میں حاضری پر زور دیا جاتا ہے جس سے سبق کو بہتر طریقے سے یاد رکھنے، بات چیت کی مہارت میں اضافہ کرنے اور موضوع کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ یہ متعامل طریقہ مشترکہ طور پرسیکھنے کے ماحول کو فروغ دیتا ہے جو طلبہ کی مشغولیت اور حوصلہ افزائی کا باعث بنتا ہے۔‘‘

بعض اوقات، امریکی یونیورسٹیاں کتابیں دیکھ کر امتحان دینے کی سہولت کا  انتخاب کرتی ہیں۔ یہی نہیں بلکہ طلبہ کو انٹرنیٹ کے بھی استعمال کی اجازت دی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر لا اسکول کے امتحانات میں عام طورسے  حقیقی دنیا میں قانونی معلومات کے اطلاق میں طلبہ کی صلاحیت کو جانچنے کے لیے حقائق کے پیچیدہ نمونے اور منظرنامے استعمال کیے جاتے ہیں۔ وہ بتاتی ہیں ’’ایک ہی درست جواب تلاش کرنے کے بجائے ان امتحانات میں دیے گئے سیاق و سباق میں تمام متعلقہ قانونی مسائل کی شناخت کو ترجیح دی جاتی ہے اور فرضی موکلوں کو عملی مشورے فراہم کیے جاتے ہیں۔ یہ طریقہ حقیقی دنیا میں قانونی مشق میں پیش آنے والے چیلنجوں کی عکاسی کرتا ہے اوراپنے شعبے کی پیچیدگیوں کو شروع سے ہی جاننے میں قانون کےطلبہ کی  حوصلہ افزائی کرتا ہے۔‘‘

سنہا بتاتے ہیں کہ درجہ بندی کے نظام میں محض ایک حتمی پروجیکٹ یا ٹیسٹ کے بجائے طلبہ کی شرکت، حاضری، لیب، اسائنمنٹ وغیرہ سب شامل ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’’مختلف طریقوں سے سیکھنے اور مختلف طریقوں سے درجہ بندی کو ممکن بنانے والے کورس کے ڈھانچے یقینی طور پر ایسے عناصر ہیں جن پر امریکی تعلیمی نظام میں بہت اچھی طرح سے توجہ دی جاتی ہے۔‘‘ وہ کہتے ہیں ’’امریکی کالجوں کے کورسیز حتمی گریڈنگ اسکیم کو اس طرح تقسیم کرنے کی فعال کوشش کرتے ہیں جس سے امتحانات، اسائنمنٹس، حاضری، لیب وغیرہ کے درمیان بہتر توازن قائم رہتا ہے۔‘‘

یہ طریقہ طلبہ اور پروفیسروں کے مابین باہمی احترام کے گہرے تعلقات کی حوصلہ افزائی کرتا ہے جو کلاس روم کا مثبت تجربہ فراہم کرنے میں نہایت اہم ہوتا ہے۔  کوشک کہتی ہیں ’’طلبہ اور پروفیسروں کے درمیان مثبت تعلقات امریکی تعلیمی تجربے کی بنیاد ہیں۔‘‘

نتاشا ملاس نیو یارک سٹی میں مقیم ایک آزاد پیشہ قلمکار ہیں۔


اسپَین نیوزلیٹر کو میل پر منگوانے کے لیے لنک میں دیے گئے فارم کو بھریں: https://bit.ly/SubscribeSPAN



تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے