کولکاتہ کے امریکی قونصل خانہ کا ایک پروجیکٹ دریائے اِچھامتی میں پلاسٹک آلودگی سے نمٹنے کی خاطر اختراعی دریائی تحقیقی اقدامات کی حمایت کرنے کے ساتھ ماحولیاتی پہل کی خاطر مختلف طبقات کو بااختیار بناتا ہے۔
April 2024
مغربی بنگال کے بون گاؤں میں ماحولیاتی بیداری سے متعلق ایک چہل قدمی کا منظر۔ اس کا مقصد اہم آبی گزرگاہوں کے تحفظ سے متعلق بیداری پیدا کرنا ہے۔ (تصویر بشکریہ واٹر کرونکِلس)
دنیا بھر کے سائنسداں اس بات پہ متفق ہیں کہ پلاسٹک کی آلودگی انسانوں، جنگلاتی حیات اور مجموعی طور پر کرہ ارض کے لیے ایک بہت بڑا مسئلہ بنتی جا رہی ہے۔
پلاسٹک کی آلودگی نے ان لوگوں کے لیے بہت تکالیف پیدا کی ہیں جو بنگلہ دیش کے ساتھ ہندوستان کی سرحد پر واقع دریائے اِچھامتی کے ہمسایہ ہیں ۔ یہاں مسئلہ ان لوگوں کے لیے بھی ہے جو اپنی زندگی اور ذریعہ معاش کے لیے آبی گزرگاہوں پر منحصر ہیں۔
دی ٹیلی گراف نے ۲۰۲۳ء میں شائع ایک مضمون میں بتایا تھا کہ پلاسٹک اور دیگر مواد سے بڑے پیمانے پرہونے والی آلودگی کی وجہ سے دریائے اِچھامتی سکڑتی جا رہی ہے اور یہ کہ مچھلیاں بھی کم ہوتی جا رہی ہیں۔ مضمون میں مزید بتایا گیا تھا کہ ماہی گیر اپنی گزر بسر بھی نہیں کر پار رہے ہیں اور معاشی مواقع کی کمی غربت، انسانی اسمگلنگ اور دیگر پریشان کن مسائل کی بڑھتی ہوئی سطح کا باعث بن رہی ہے۔
کولکاتہ میں واقع امریکی قونصل خانہ نے مدد فراہم کرنے کے لیے ماہرین کی ایک ٹیم یکجا کی اور ’’ بین سرحدی دریاؤں میں پلاسٹک کی آلودگی سے نمٹنا ‘‘ کے نام سے ایک منصوبہ تیار کیا۔ گروپ نے اِچھامتی میں پلاسٹک کی آلودگی کے خطرات کے بارے میں بیداری پھیلانے اور مقامی برادریوں کو تبدیلی لانے کی خاطر بااختیار بنانے کے لیے مل کر کام کیا۔
دریاؤں کی تحقیق کے اقدامات
پرتھوی راج ناتھ، صنف، آب و ہوا اور معاشیات کے لیے کام کرنے والی غیر منافع بخش تنظیم برج(بی آرآئی ڈی جی ای) کے بانی اور ڈائریکٹر ہیں۔ وہ امریکی محکمہ خارجہ کے انٹرنیشنل وزیٹر لیڈرشپ پروگرام (آئی وی ایل پی) کے سابق طالب علم ہیں۔ ۲۰۲۳ء میں انہوں نے اِچھامتی ندی منصوبے کے لیے کام کرنا شروع کیا۔ ناتھ کہتے ہیں ’’اس پروجیکٹ کا مقصد بین سرحدی ندی اِچھامتی اور اس سے منسلک پانی کے نظام میں پلاسٹک اور آلودگی کی دیگر شکلوں کے خطرے کے بارے میں موجودہ شواہد، مکالمے، شراکت داری اور کارروائی کو مستحکم کرنا ہے۔‘‘
ناتھ اور ان کے ساتھیوں نے کسانوں، ماہی گیروں، تاجروں، خواتین گروپوں، اساتذہ سمیت سینکڑوں مقامی باشندوں سے بات کرکے معلومات جمع کرنا شروع کیں تاکہ ندی کے کنارے رہنے والے طبقات کو درپیش چیلنجوں کو سمجھنے میں مدد مل سکے۔
ٹیم نے اہم آبی گزرگاہوں کے تحفظ کی اہمیت کے بارے میں معلومات جمع کرنے اور شعور پیدا کرنے کے لیے دریائے اِچھامتی کے قریب پانچ مقامات پر ’کلائمیٹ واک‘ کا اہتمام کیا۔ ناتھ کہتے ہیں کہ تقریباً۷۰۰ لوگوں نے واک میں حصہ لیا اور ’’ بنیادی تحقیق سے سامنے آنے والے اہم پیغامات ، نتائج اور سفارشات پر روشنی ڈالی۔‘‘ وہ کہتے ہیں کہ اس واک نے ’’ تبادلہ خیال ، مباحثوں اور مقامی سطح پر تحفظ سے متعلق خاکوں کو آسان بنانے ‘‘ میں مزید مدد کی۔
ناتھ کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ عوامی وکالت مکالمہ ، کمیونٹی میٹنگوں کے ایک سلسلے کا بھی اہتمام کیا جس میں ’’عوامی نمائندے، مقامی حکومت کے عہدیدار، بہت سارے شہری، ندیوں پر کام کرنے والے محققین، کارکن، نوجوان گروپ، سول سوسائٹی اور میڈیا کے لوگ شامل تھے۔‘‘یہ منصوبہ کولکاتہ میں ایک اختتامی کانفرنس کے ساتھ انجام کو پہنچا۔
ناتھ بتاتے ہیں ’’اختتامی تقریب نے تمام شواہد، سفارشات، نتائج، خیالات اور نیٹ ورکس کو یکجا کیا تاکہ کارروائی کی وکالت کی جا سکے اور اس پہل کو آگے بڑھانے کے لیے مستقبل کا ایجنڈا بھی تیار کیا جا سکے۔‘‘
کارروائی
لوگوں کو تعلیم دے کر اور پلاسٹک کی آلودگی سے متعلق مسائل کے بارے میں آگاہی پھیلا کر، اِچھامتی ندی پروجیکٹ نے ندی اور اس کے کنارے رہنے والے طبقات کو صحت مند رہنے میں مدد کرنے میں اہم اقدامات کی حمایت کی۔ ایک مقامی پنچایت نے اِچھامتی میں کوڑے کو پھینکے جانے سے روکنے کے لیے ایک جگہ تیار کی۔ ناتھ کا کہنا ہے کہ یہ جگہ ’’چھوٹی تھی اور مقامی سطح پر بنی تھی لیکن اس پروجیکٹ کے کام کے لیے یہ ایک اہم جیت تھی کیونکہ اس کام میں یہ جگہ بھی اپنا کردار ادا کر رہی تھی۔‘‘
وہ آگے کہتے ہیں کہ اِچھامتی ندی پروجیکٹ کی بنیادی سطح کی شراکت دار تنظیم، شریما مہیلا سمیتی نے دریائے اِچھا متی کے قریب ایک بڑے تالاب کو تباہ ہونے سے بچانے کے لیے سخت محنت کی۔
ناتھ کہتے ہیں ’’یہ تمام چیزیں اس بات کے اشارے ہیں کہ اجتماعی کام اور صحیح شراکت دار کی حمایت سے حقیقی معنوں میں قابل قدر اوربہتراثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ یہ پیش رفت یہیں نہیں رکی۔ ناتھ کہتے ہیں کہ جب مقامی حکومتوں نے’ ماحولیاتی چہل قدمی‘ اور ’عوامی وکالت مکالمہ‘ کے انعقاد کے لیے تعاون کیا تو انہوں نے مسائل اور حل پر یکساں طور پر عبور حاصل کیا اور مستقبل کے اقدامات کی بنیاد رکھی۔ یہ منصوبہ سوشل میڈیا کے ذریعے ہزاروں لوگوں تک پہنچا اور آخری کانفرنس نے ماہرین اور کارکنوں کو اہم امور پر بھی رابطہ قائم کرنے میں مدد کی۔
پلاسٹک کی آلودگی کو روکنا
سہانا گھوش کولکاتا میں مقیم سائنس اور ماحولیاتی صحافی ہیں۔ اس کے علاوہ وہ نیچر انڈیا (اسپرنگر نیچر) کی ایسوسی ایٹ ایڈیٹرکی خدمات بھی انجام دے رہی ہیں۔ ۲۰۱۹ء میں انہیں فضائی آلودگی سے نمٹنے میں میڈیا کے کردار کا مطالعہ کرنے کی خاطر آئی وی ایل پی کے لیے منتخب کیا گیا تھا۔ اس پروگرام کی گریجویٹ ہونے کے ناطے انہوں نے اِچھامتی ندی کے اقدام کے ابتدائی مراحل میں بھی مدد کی۔
پلاسٹک کی آلودگی کے مسائل گرچہ بہت زیادہ معلوم ہو سکتے ہیں لیکن گھوش اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ ہر کوئی اس معاملے میں فرق پیدا کرسکتا ہے۔ ان کا مشورہ ہے کہ نوجوان ہندوستانی ’’سوشل میڈیا پر نظر رکھ سکتے ہیں۔‘‘ وہ کہتی ہیں’’بہت سے بین الاقوامی ادارے پلاسٹک کی آلودگی سے نمٹنے کے لیے مہمات یا منصوبوں سے متعلق عہدوں کے لیے اشتہار دیتے ہیں۔ آپ ان کے ساتھ سوشل میڈیا رضاکار بن سکتے ہیں – اس سے پلاسٹک آلودگی کے خلاف جنگ کو وسعت ملتی ہے۔ لیکن اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ ایسے حل کی وکالت نہ کریں جو نئے چیلنجوں کا باعث بن سکتے ہیں۔‘‘
گھوش کا یہ بھی کہنا ہے کہ دنیا بھر کے لوگوں کو پلاسٹک کے اپنے ذاتی استعمال کو کم کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔ وہ کہتی ہیں ’’کیا ہم مقامی دکاندار سے پلاسٹک کے تھیلے مانگنے سے اجتناب کر سکتے ہیں اور اس کے بجائے اپنے ساتھ تھیلا لانے کی عادت ڈال سکتے ہیں؟ اگر آپ بہت زیادہ سفر کرتے ہیں تو آپ ہر بار ٹریول سائز کے پیک خریدنے کے بجائے صابن اور منجن جیسی اشیا کے لیے ٹوائلٹری بوتلوں کو دوبارہ استعمال کر سکتے ہیں۔‘‘
گھوش اس بات پر زور دیتی ہیں کہ دنیا بھر کی صنعتوں میں پلاسٹک کے وسیع پیمانے پر استعمال کی وجہ سے پلاسٹک کی آلودگی کو کوئی بھی ختم نہیں کر سکتا لیکن وہ کہتی ہیں’’ ہم پلاسٹک سے ہونے والی آلودگی کو کم کرنے کے لیے اپنا کردار یقیناًادا کر سکتے ہیں۔‘‘
مائیکل گیلنٹ نیویارک سٹی میں مقیم قلمکار، موسیقار اور کاروباری پیشہ ور ہیں۔
اسپَین نیوز لیٹر کو اپنے میل پر منگوانے کے لیے لنک میں دیے گئے فارم کو بھریں : https://bit.ly/SubscribeSPAN
تبصرہ