ایک باغ کے مرکزی مقبرہ کی بحالی

یو ایس اَیمبسڈرس فنڈ فار کلچرل پریزرویشن نے حیدر آباد میں۱۸ ویں صدی کی شاعرہ اورطوائف ماہ لقا بائی چندا کے مقبرہ کو بحال کرنے میں مدد کی ہے۔

پارومیتا پین

January 2019

ایک باغ کے مرکزی مقبرہ کی بحالی

حیدرآباد کے یادگاری باغاتی مقبرے میں ماہ لقا بائی چندا اور ان کی ماں راج کنور بائی کے مقبروں کے گرد خوشنما سائبانہ عمارت۔(تصویر بشکریہ صبح دیال)

جارجیا میں ایموری کالج آف آرٹس اینڈ سائنس میں ساﺅتھ ایشین اینڈ اسلامک اسٹڈیز کے پروفیسراسکاٹ اَیلن کُوگلے کو ہمیشہ سے اردو شاعری کے رمز و کنایہ میں گہری دلچسپی رہی ہے۔وہ خیال آرائی کرتے ہیں ”اردو ادب اپنے شعراءاور قلمکارحضرات کی ہی مدح کرتا ہے مگر اردو کے اوّلین ناولوں میں سے ایک جان ادا میں قاری کو ایک طاقتور خاتون کاکردار بھی ملتا ہے۔‘‘

متجسس کُوگلے نے اس کے بعد اردو ادب میں دلچسپی لے کر شاعری میں خواتین کی موجودگی اور ان کے کرداروں کی تلاش شروع کی ، یہاں تک کہ دلفریب چندا بی بی یا ماہ لقا بائی چندا کو ڈھونڈ نکالا جو اس وقت کے حیدر آباد کے نظام میر نظام علی خان کے دربار کی معروف طوائف تھیں جنہیں نظام کے دربار کا اعلیٰ ترین رتبہ اعلیٰ امرا ءعطا کیا گیا تھا۔

کُو گلے جو ایک مصنف بھی ہیں کہتے ہیں ”ماہ لقا بائی چندا کا کردار ایک زبردست کردار ہے۔ماہ لقا خود ایک مصنفہ بھی تھیں۔ ۱۷۶۸ ءمیں پیدا ہوئیں ماہ لقاغزل کا مکمل دیوان رکھنے والی اردو کی پہلی خاتون شاعرات میں سے ایک ہیں۔ وہ ایک طوائف تھیں۔ ذرائع کے مطابق وہ ریاست میں امیر ترین خواتین میں سے ایک شمار ہوتی تھیں۔ان کی ہستی دربار کی ایک بااثر ہستی خیال کی جاتی تھی۔‘‘

اپنے ایک مضمون ماہ لقا بائی اینڈ جینڈر : دی لینگویج ، پوئٹری اینڈ پر فارمینس آف اے کورٹیزن اِن حیدر آباد میں کُوگلے رقم طراز ہیں کہ کس طرح وہ اپنے زمانے کی ایک عام خاتون نہیں تھیں۔

چندا بی بی کی مدح سرائی

عرصہ دراز تک ۱۸ ویں صدی کی اس بیسوا، شاعرہ اورروحانی محقق کو حیدرآبا د سے باہر کم لوگ ہی جانتے رہے۔ دنیا بھر میں ۱۰۰ سے بھی زیادہ ترقی پذیر ممالک میں ثقافتی مقامات،فن پاروں اورثقافتی اظہارات کی روایتی صنفوں کوتحفظ فراہم کرنے والے یو ایس ایمبسڈرس فنڈ فار کلچرل پریزرویشن نے حیدرآباد میں ان کے یادگارمقبرے کی بحالی کے لیے ۲۰۰۹ ءمیں ایک لاکھ ۶ ہزار ۲سو ڈالر(قریب ۷۸ لاکھ روپے) کا عطیہ دیا۔ اس پروجیکٹ میں مقبرہ کے احاطہ میں موجود ۵ عمارتوں سمیت ذخیرہ  کی بحالی شامل تھی۔ اس میں شیعہ فرقے کی ثقافت اور اس علاقے میں خواتین کے کردار سے متعلق نمائشوں کا ڈیزائن اورا ن کا اہتمام بھی شامل تھا۔

حیثیت طوائف سے بڑھ کر

نظام حیدر آباد نے انہیں ماہ لقا بائی چندا کا خطاب دیا تھا۔کُوگلے اس کا مطلب ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں ” چاند سے رخسار والی دوشیزہ۔‘‘

وہ مزید کہتے ہیں ”حال آں کہ ان کا حقیقی نام چندا بی بی تھا۔‘‘

چندا بی بی کو ان کی بڑی بہن نے پالا پوسا جو نظام حیدر آباد کے وزیر اعظم کی منکوحہ تھیں۔ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون تھیں۔ عربی زبان سے واقفیت رکھتی تھیں ۔ انہیں فارسی اور اردو زبان پر بھی کافی عبور تھا۔ ذرائع سے پتہ چلتا ہے کہ چندا بی بی نظام کے دوسرے وزیر اعظم میر علی کے ساتھ فارسی شاعری پر  تبادلہ خیال بھی کیا کرتی تھیں جو اس وقت کسی خاتون کے لیے بالکل ایک غیر معمولی بات تھی۔

کُوگلے کہتے ہیں ”آج لوگ انہیں طوائف کہنا پسند نہیں کرتے کیوں کہ لفظ طوائف کا مطلب آج کسی خاتون کا جسم فروشی کے پیشے سے منسلک ہونا خیال کیا جاتا ہے۔مگر چندا جب حیات سے تھیں اور لکھا کرتی تھیں تو اس وقت لفظ طوائف دوسرے معنوں میں مستعمل تھا۔‘‘

طوائف اس خاتون کو کہتے تھے جو عصری فنون لطیفہ پر طبع آزمائی کرتی اور انہیں تحفظ فراہم کیا کرتی تھی۔ اس کے علاوہ ایسی خواتین دلچسپ گفتگو اور حاضر جوابی میںبھی طاق ہوا کرتی تھیں۔ مرد(بالخصوص اہم عہدوں پر فائز مرد)طوائفوں کے پاس صرف تفریح کے لیے ہی نہیں بلکہ ان سے بات چیت اور مذاکرات کا فن سیکھنے کے لیے بھی جایا کرتے تھے۔ ایسی خواتین کی حیثیت اُس وقت ان تمام چیزوںکو سکھانے والے ادارے کی ہوتی تھی۔

حیدر آباد میں ماہ لقا بائی چندا کا نام خاص طور پر تعلیم کے شعبے سے منسلک ہے۔آج حیدر آباد کے نام پلّی میں نظام کے ذریعے ان کو تحفے میں دی گئی زمین پر لڑکیوں کے لیے ایک سرکاری کالج قائم ہے۔ کُوگلے بتاتے ہیں ” انہوں نے اپنی جائداد حکومت کو وقف نہیں کی تھی۔ ۱۸۲۴ ءمیں جب ان کا وصال ہوا تو چوں کہ ان کا کوئی وارث نہیں تھا ، اس لیے جائداد پھر سے نظام کے نام منتقل ہو گئی۔ملک کی آزادی کے بعد حکومت ہند نے نظام حیدر آباد کی جائداد کو اپنی تحویل میں لیا تو اس زمین پر ایک کالج تعمیر کیا گیا۔‘‘

حیدر آباد میں عثمانیہ یونیورسٹی اور دی انگلش اینڈ فارین لینگویجیز یونیورسٹی کی تعمیر بھی اسی زمین پر ہوئی جو کبھی ماہ لقا بائی چندا کی ملکیت تھی۔

ماہ لقا بائی فنون لطیفہ اور تاریخ کی ایک فیاض سرپرست تھیں۔انہوں نے حیدر آباد کی تاریخ مرتب کرنے کے لیے کرناٹک کے ایک چھوٹے شہر بیدر کے منکسر المزاج اور نا معلوم شاعر گوہر کو دعوت دی تھی۔اس پہل کا ثمرہ ضخیم کتاب کی ایک جامع جلد کی شکل میں سالار جنگ میوزیم میں آج بھی محفوظ ہے۔

ماہ لقا کو ان کی شاعری کے لیے تویاد کیاہی جاتا ہے ، یہ ریاست اب بھی ان کے فلاحی کاموں سے فیض حاصل کر رہی ہے۔انہوں نے مسافروں کے لیے بہت سارے کنویں اور آرام گاہیں تعمیر کروائی تھیں۔ کُوگلے کہتے ہیں ”وہ دل کھول کر غریبوں کی امداد کیا کرتی تھیں۔‘‘

کُو گلے کو امید ہے کہ ان کے مقبرہ کے احاطہ کی بحالی سے ان کے مزید کاموں اور ان کی شخصیت سے لوگوں کو زیادہ واقف ہونے کا موقع ملے گا۔ وہ کہتے ہیں ” اس بات سے باخبر ہونا ہمیشہ ایک یادگار تجربہ ہوگا کہ ان جیسی خواتین بھی سرزمینِ دکن پر کبھی موجودتھیں۔‘‘

پارومیتا پین ٹیکساس کے آسٹِن میں مقیم ایک صحافی ہیں۔



  • ڈاکٹر سلطان احمد M.Sc.,Ph.D

    بہت اہم معلوماتی مضمون. شکریہ. اگر کچھ اقتباسات ان کی تصصنیف سے یہاں نقل کر دیے جاتے تو زیادہ بہتر پات ہوتی.

    تبصرہ

    ایک تبصرہ برائے “ایک باغ کے مرکزی مقبرہ کی بحالی”

    1. ڈاکٹر سلطان احمد M.Sc.,Ph.D نے کہا:

      بہت اہم معلوماتی مضمون. شکریہ. اگر کچھ اقتباسات ان کی تصصنیف سے یہاں نقل کر دیے جاتے تو زیادہ بہتر پات ہوتی.

    جواب دیں

    آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے