ماہرِ ماحولیات سومیہ رنجن بسوال اڈیشہ میں مدارینی اور دلدلی علاقے کے حیاتیاتی تنوع کے تحفظ پر کام کرتے ہیں۔
July 2023
سومیہ رنجن بسوال نے مدارینی جنگلات اور زیتونی سمندری کچھوؤں کے مسکن کے تحفظ کے لیے کئی مہمات چلائی ہیں۔ (تصویر بشکریہ سومیہ رنجن بسوال)
۲۶ برس کے ماہرِ ماحولیات سومیہ رنجن بسوال اڈیشہ میں اپنے آبائی ضلع پوری کے ساحل پرزیتونی سمندری کچھوؤں ( اولیو رڈلی سی ٹرٹلز) کے گھونسلوں کو دیکھتے ہوئے بڑے ہوئے ہیں۔ ان برسوں میں انہوں نے گھونسلوں کو بھی شدید نقصان پہنچتے ہوئے دیکھا ہے۔ ان کے لیے ان سمندری کچھوؤں اور ان کے ٹھکانوں کی حفاظت محض ایک وجہ نہیں ہے بلکہ نہایت اہمیت کی حامل ہے۔ یہ ان کے لیے زندگی جینے کا ایک طریقہ ہے۔
بسوال امریکی محکمہ خارجہ کی مالی اعانت سے چلنے والے کلائمیٹ ایکشن چیمپیئنس نیٹ ورک پروگرام کے پہلے گروپ کے رکن ہیں اور چنئی میں واقع امریکی قونصل خانہ کے ٹیک کیمپ کوچی کے سابق طالب علم ہیں۔ اپریل ۲۰۲۳ء میں انہوں نے امریکہ میں آب و ہوا کی تبدیلی اور حیاتیاتی تنوع کے تحفظ سے متعلق ایک انٹرنیشنل وزیٹر لیڈرشپ پروگرام (آئی وی ایل پی) میں حصہ لیا۔ خیال رہے کہ آئی وی ایل پی امریکی محکمہ خارجہ کا اہم پیشہ ورانہ تبادلہ پروگرام ہے۔ بسوال دیہی اڈیشہ میں ساحلی حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کے لیے وقف رضاکارانہ تحریک، اڈیشہ پریاورن سنرکشن ابھیان ٹرسٹ کے منیجنگ ٹرسٹی بھی ہیں۔ ان کی سرگرمی کا بیشتر حصہ اڈیشہ ساحل کے ارد گرد آب و ہوا کی تبدیلی، ماحولیاتی انحطاط اور سمندری ماحولیاتی نظام کے بارے میں بیداری بڑھانے پر مرکوز ہے۔
ساحلوں پر گزرا بچپن
بسوال کا تعلق اڈیشہ کے دریائے دیوی کے دہانے کے قریب واقع ایک گاؤں استَرنگا سے ہے جو اپنی سمندری حیاتیاتی تنوع کے لیے جانا جاتا ہے۔ اپنے گاؤں کے آس پاس مدارینی جنگلات اور سمندری ماحولیات کی دیکھ بھال اور تحفظ ان کے بچپن کا ایک لازمی حصہ تھا۔ بسوال کہتے ہیں کہ ان کے گاؤں کی شاندار حیاتیاتی تنوع کی پہلی جھلک انہیں چھٹی جماعت کے دوران ساحل کے دورے سے ملی تھی۔
بسوال یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں’’ کناڈا سے تعلق رکھنے والے دانتوں کے ڈاکٹر، رابرٹ سٹکلِف باقاعدگی سے ہمارے اسکول کا دورہ کیا کرتے تھے اور بھارتی ساحل پر زیتونی سمندری کچھوؤں کی موت کے بارے میں بیداری پھیلا یا کرتے تھے۔ وہ ہمیں صفائی ستھرائی کے لیے ساحل سمندر پر لے جاتے اور مطالعاتی مواد فراہم کرتے، جس کی وجہ سے میرے اندر ساحل سمندر کے لیے محبت پیدا ہوئی اور دیکھ بھال کا جذبہ پیدا ہوا۔‘‘
اڈیشہ میں زیتونی سمندری کچھوؤں کو بڑے پیمانے پر گھونسلے بنانے کے لیے جانا جاتا ہے جو اسے دنیا میں سب سے زیادہ گھونسلے بنایا جانے والا مقام بناتا ہے۔ رشی کُلیا، گہیرماتھا اور دریائے دیوی کا دہانہ تین اہم گھونسلے والے علاقے ہیں۔ بسوال کا کہنا ہے کہ وہ بچپن سے ہی دیوی ندی کے دہانے کے ساحلوں پر گشت کرتے رہے ہیں اورکچھوؤں کے گھونسلوں کو سانپوں، کتوں، خنزیروں اورکیکڑوں جیسے شکاریوں سے بچاتے رہے ہیں۔
وہ کہتے ہیں ’’میں نے محسوس کیا کہ ساحلی حیاتیاتی تنوع کا تحفظ ماحولیاتی نظام کو محفوظ رکھنے اور اسے سمندری طوفانوں اور آب و ہوا کے بحران سے محفوظ رکھنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔۲۰۱۴ء میں مَیں نے اپنے کالج کے دوستوں کو متحرک کیا اور ہم نے مدارینی جنگلات اور زیتونی سمندری کچھوؤں کے تحفظ کے لیے کام کرنا شروع کیا۔‘‘
مدارینی جنگلات کا تحفظ
قدرتی آفات کے خلاف مزاحم کے طور پر کام کرنے کے لیے معروف مدارینی جنگل نیم حاری جنگل ہیں جو ساکت نمکین پانی میں پھلتے پھولتے ہیں اور مغربی بنگال، اڈیشہ، آندھر پردیش، مہاراشٹر، گجرات اور انڈمان اور نکوبار جزائر میں ساحل کے ساتھ ساتھ پائے جاتے ہیں۔ بسوال کا کہنا ہے’’ مدارینی جنگلات کی جڑوں اور شاخوں کا گھنا نیٹ ورک مٹی کو زور سے پکڑے رہتا ہے اور لہروں کے اثرات کو کم کرتا ہے جس سے ساحلی آبادیوں کو سیلاب اور کٹاؤ سے بچانے میں مدد مل سکتی ہے۔‘‘
بسوال کی مدارینی جنگلات کو تحفظ فراہم کرنے کی مہم بقا کی بھی کہانی ہے۔ وہ کہتے ہیں ’’حالیہ برسوں میں دریائے دیوی کے دہانے کو کئی قدرتی آفات کا سامنا کرنا پڑا ہے جن میں سمندری طوفان اور سیلاب بھی شامل ہیں۔ اس نے مقامی برادریوں اور ان کے ذریعہ معاش کو کافی نقصان پہنچایا ہے۔‘‘ وہ مزید بتاتے ہیں’’مدارینی جنگلات نے علاقے کے لوگوں کی جان و مال کے تحفظ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔‘‘
بسوال کہتے ہیں کہ استرنگا کے ساحل پر مدارینی جنگل کی موجودگی نے ۲۰۱۹ء میں سمندری طوفان فَنی کے ٹکرانے کے راستے کا رخ موڑ دیا، جس سے گاؤں کو تباہی سے بچایا گیا۔ وہ کہتے ہیں ’’طوفان فنی کے استرنگا علاقے سے ٹکرانے کا خدشہ تھا لیکن بعد میں اس نے اپنا رخ بدل لیا۔ ہمارا خیال ہے کہ یہ مدارینی جنگلا ت کی وجہ سے ہی ممکن ہو پایا۔‘‘
مدارینی جنگلات کو بچانے کے لیے بسوال نے ابتدائی زندگی میں ہی سرگرمی شروع کر دی تھی۔ وہ کہتے ہیں ’’میری ۱۰ ویں کلاس کی جغرافیہ کی کتاب میں اس سے متعلق صرف دوسطریں تھیں جن میں بتایا گیا تھا کہ کس طرح مدارینی جنگلات ساحلوں کی حفاظت کرتے ہیں۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں ’’میں نے محسوس کیا کہ آب و ہوا کی تبدیلی سے نمٹنے اور ماحولیات کے تحفظ میں مدارینی اور دلدلی علاقے کی اہمیت کے بارے میں عوام میں کوئی آگاہی نہیں ہے۔ لوگ اپنے اقدامات کے نتائج کا احساس کیے بغیر مدارینی جنگل کو کاٹ رہے تھے اور دلدلی علاقوں پر قبضہ کر رہے تھے۔‘‘
۲۰۱۴ء میں بسوال نے مدارینی اور دلدلی علاقوں کی اہمیت کے بارے میں بیداری مہم چلائی۔ وہ وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں ’’میں نے اپنے محدود وسائل کا استعمال سائیکل ریلیوں، اسٹریٹ ریلیوں، میورل پینٹنگ اور اسکول سے آگاہی کے پروگراموں کے انعقاد میں کیا۔‘‘
ایک سال بعد انھوں نے پوری ضلع میں دریائے دیوی اور کڈوا ندی کے دہانوں کے درمیان قریب قریب ۳۰گاؤں اور وارڈوں کا احاطہ کرتے ہوئے باقاعدگی سے سائیکل کے ذریعے مدارینی جنگل سے متصل ندی کے کناروں پر گشت کرنا شروع کر دیا۔
ان کی گشت نے مقامی انتظامیہ کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی، جس کی بدولت دلدلی علاقے کی تجاوزات میں نمایاں کمی آئی ہے۔ بسوال کہتے ہیں کہ اب تک اس علاقے کے قریب قریب۸ ہزار طلبہ نے ندی اور مدارینی جنگلات کی آلودگی پر قابو پانے، اپنے کنبوں کے ساتھ مدارینی علاقے کی حفاظت کرنے اور دلدلی علاقے سے متعلق بیداری کو فروغ دینے کا عہد کیا ہے۔
بسوال مزید کہتے ہیں کہ ان کا مقصد اڈیشہ کے ساحل پر مختلف برادریوں، نوجوانوں اور پالیسی سازوں کا ایک نیٹ ورک تیار کرکے آب و ہوا کی تبدیلی کے بارے میں بیداری پیدا کرنا ہے جو اس سے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ اس سے بڑی بات یہ ہے کہ وہ مدارینی جنگلات اور زیتونی سمندری کچھوؤں کے گھونسلوں کے علاقوں کی حفاظت کا اپنا کام جاری رکھنا چاہتے ہیں لیکن اب اس کے لیے انہیں زیادہ سے زیادہ حمایت اور وسائل کی ضرورت ہے۔
تبصرہ