امریکی جامعات تعلیم، تائیداورحمایت کے ذریعہ سے صنف مخصوص سے متعلق طلبہ کے لیے مشمولی کیمپس بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔
August 2021
یونیورسٹی آف یوٹاہ میں واقع معروف بلاک یو جسے پراگریس پرائڈ فلیگ کے رنگوں والے کپڑوں میں لپیٹا گیا ہے۔ ایسا یونیورسٹی کے سالانہ پرائڈ ہفتے کے اعزاز میں کیا گیا ہے۔ تصویر بشکریہ یونیورسٹی آف یوٹاہ ۔
امریکی جامعات میں کافی تعداد ایسے طلبہ کی بھی ہے جو کیمپس میں صنفِ مخصوص کے لیے قائم مراکز میں جاکریہ سمجھتے ہیں کہ وہ ایسی جگہ آگئے ہیں جہاں انہیں سمجھا جا سکے گا۔یہ جگہیں ان طلبہ کے لیے محفوظ مقامات کا درجہ رکھتی ہیں جہاں یہ جمع ہو سکتے ہیں اورجشن منا سکتے ہیں ۔ یہاں انہیں مشورہ، صحت کی دیکھ بھال اور اسکالر شپ جیسی امور کی خدمات فراہم کی جاتی ہیں۔ یہ مراکز ان طلبہ کے لیے ایک طرح سے نوید زندگی کا کام کرتے ہیں جنہیں اپنے طبقات میں مطلوبہ حمایت نصیب نہیں ہوتی۔
یونیورسٹی آف نیو میکسیکو میں واقع صنف مخصوص کے وسائل مرکز کی ڈائریکٹر فرینکی فلوریس(وہ سب)کہتی ہیں کہ طلبہ چاہتے ہیں کہ مرکز اپنے نعرہ پر پورا اترے یعنی جب سب سے زیادہ کمزور طبقات کا خیال رکھا جائے گا تب ہی سب کو فائدہ پہنچے گا۔صیغہ غائب کے ذاتی ضمائر کا استعمال روایتی طور پرتو صیغہ غائب کی جمع کے طور پر ہوتا آرہا تھا مگر جدید دور میں ایسے لوگ انفرادی طور پر بھی ان مخصوص ضمائر کا بکثرت استعمال کررہے ہیں جن کا مقصد صنفی تثنیث سے بچنا یا اپنی صنف کے متعلق معلومات فراہم نہیں کرنا ہے۔دیگر ضمائر میں تانیثی ضمائر جیسے وہ/اس کی/اس نے اور تذکیری ضمائر جیسے وہ/اس کا/اس نے/شامل ہیں۔
فلوریس جن کی کنیت ماما فرینکی پڑ گئی ہے کیونکہ وہ صنف مخصوص کے طلبہ کے ساتھ کافی گھل مل گئی ہیں ۔ وہ مرکز کے مشترکہ کمرہ میں ان طلبہ کے ساتھ اکثروبیشتر وقت بسر کرتی ہیں۔وہ ان کی بات سنتی ہیں اور اپنے مفید مشوروں سے نوازتی ہیں۔ان کے اس رویہ کی بدولت ہی فلوریس کو صنف مخصوص کے طلبہ کی ضروریات کو سمجھنے اور ان کا تدارک کرنے میں مدد ملی ہے۔مثال کے طور پر جب ان کو معلوم ہوا کہ بہت سارے طلبہ بے جنسی ہیں تو انہوں نے فیصلہ کی کہ مرکز ”بے جنسی ہفتہ“ منائے گا۔ اس سے بے جنسی طلبہ میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔
فلوریس کے مرکز میں روایتی خدمات کے علاوہ مزید بہت سی خدمات دستیاب ہیں۔مثال کے طور پر سادہ کھانا تاکہ ایک بھی طالب علم بھوکا نہ رہے۔اس مرکز میں ایچ آئی وی کی مستقل جانچ ہوتی رہتی ہے۔ فلوریس بتاتی ہیں کہ مرکز میں ایک ہمہ وقتی مشیر موجود رہتاہے۔یہ ان طلبہ کو پوشیدہ طور پر خدمات فراہم کرتا ہے کیونکہ صنف مخصوص سے تعلق رکھنے والے بہت سے طلبہ کیمپس میں موجود دیگر مشیروں کے پاس جانے سے گریز کرتے ہیں۔ اس مرکز کاجائے وقوع صنف مخصوص کے بہت سے طلبہ کے لیے محفوظ پناہ گاہ ثابت ہوا ہے۔
کیونکہ یہ لوگ کیمپس میں تو اپنے جنسی رجحانات کا برملا اظہار نہیں کرسکتے مگر ہاں اس مرکز کے سبب ان میں خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے۔ فلوریس ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ ایک بار ایک خاموش مرد طالب علم نے اس مرکز میں آکر زنانہ کپڑے پہنے ۔ پھر فلوریس نے اس طالب علم کو پہلی کلاس میں خود گھمایا جس میں صنف مخصوص سے تعلق رکھنے والے طلبہ اپنے تجربات بیان کر رہے تھے۔
فلوریس پر زور تائید کرتی ہیں کہ کیمپس میں پالیسیوں میں تبدیلی لائی جائے جس سے ہر کسی کو فائدہ پہنچے۔ان کے مرکز نے یونیورسٹی کے ساتھ مل کر کام کیا جس کے نتیجہ میں طلبہ کو اپنے اصل نام کے بجائے اپنا منتخب نام استعمال کرنے کی اجازت مل گئی۔اس کی ضرورت اس لیے پیش آئی کیوں کہ ایک طالب علم جوصنفی تبدیلی کے عمل سے گزر رہا تھااس نے اپنے میجر اسائنمنٹ پر اپنے اصلی نام کی جگہ اپنا منتخب نام لکھ دیا۔اس کی وجہ سے وہ اپنے اسائنمنٹ میں تقریباً ناکامیاب ہو گیا تھا۔
یونیورسٹی آف یوٹاہ میں صنف مخصوص کے لیے موجود وسائل مرکز نے بھی اپنی یونیورسٹی سے درخواست کی کہ وہ بھی کیمپس میں طلبہ کو اپنی مرضی کے نام، صنف اور جنسی شناخت منتخب کرنے کی اجازت دے۔اس میں مرکز کو کامیابی نصیب ہوئی۔اس مرکز کی شروعات ایک چھوٹے سے کمرہ سے ہوئی تھی مگر اب یہ اس سے واقعی طور پر باہر آگیا ہے اور ا س کااپنا خود کا بہت وسیع وعریض دفتر ہے۔مرکز کی ڈائریکٹرکلئیر لیمکے (وہ)کے مطابق آج یہ مرکز صنف مخصوص سے تعلق رکھنے والے طلبہ کی مدد کرتا ہے جس سے یہ کئی معنوں میں قائد بن گئے ہیں۔ صنف مخصوص سے تعلق رکھنے والے طلبہ یونیورسٹی کے ماحول سے روشناس ہوتے ہیں، اپنی شناخت دریافت کرتے ہیں اور قائد بن کر ابھر تے ہیں۔ یہ مرکز صنف مخصوص سے تعلق رکھنے والے طلبہ کی مالی امداد بھی کرتا ہے۔اس نے ابنائے قدیم کی مدد سے ۲۰۲۲-۲۰۲۱تعلیمی سال کے لیے ۳۳۰۰۰امریکی ڈالر کی اسکالر شپ مہیا کروائی۔
یونیورٹی آف نیو میکسیکوکے مرکز کے مانند ہی یونیورسٹی آف یوٹاہ کا ایسے طلبہ کے لیے مخصوص مرکز بھی عالمی وباکے باوجود طلبہ کی زندگیوں پر مثبت طور پر اثر انداز ہو رہا ہے۔اس نے اپنے پروگراموں کو ورچوئل کردیا ہے۔دفتر اب آن لائن طور پر کام کررہا ہے۔ ساتھ ہی طلبہ کے لیے ایک ورچوئل لاؤنج وجود میں آیا ہے۔ لیمکے کہتی ہیں، ”اس سے ہم ان طلبہ تک رسائی حاصل کر سکے جو ہمارے آفس لاؤنج میں آنے کے بعد بہتر محسوس نہیں کرتے“۔لہذا آن لائن خدمات رواں سال میں موسم خزاں والے سیشن میں بھی جاری رہیں گی۔ امسال مرکز کے صنف مخصوص سے تعلق رکھنے والے طلبہ کے لیونڈر گریجویشن میں ۶۰ سے زائد طلبہ نے شرکت کی جو کہ اب تک کی سب سے بڑی تعداد ہے۔‘‘
بعض جامعات تو طلبہ-ادارہ جاتی صنف خاص مراکز سے بھی مزید آگے بڑھ کر کام کرتےہیں۔ ان کے یہاں ایسی وقف شدہ تنظیمیں یا اہلیانِ دانش ہیں جو نہ صرف اپنے اپنے صوبہ جات بلکہ عالمی سطح پر بھی صنف مخصوص کے پالیسی مسائل حل کرنے میں پیش پیش ہیں۔ٹینیسی میں واقع وینڈربلٹ یونیورسٹی میں صنف مخصوص کے مرکز کے علاوہ صنف خاص پالیسی لیب بھی موجود ہے۔اس لیب کا مقصدیہ مطالعہ کرنا ہے کہ عوامی پالیسیاں کس طرح صنف خاص کی زندگیوں پر اثر انداز ہورہی ہیں اور پھر ان کا تدارک کرنا ہے۔ اس لیب کی ٹیم میں بین مضامینی اساتذہ، طلبہ، عملہ اور کمیونٹی اراکین شامل ہیں جو ایسی پالیسیوں کے اسباب و علل کا تجزیہ کرتے ہیں اور تبدیلی کی وکالت کرتے ہیں۔اب تک اس لیب نے باہر سے فنڈنگ کر کے دو ملین ڈالر سے بھی زائد کی رقم جمع کر لی ہے۔پالیسی لیب کے اسکالروں کی تحقیقات موقر جریدوں میں بھی شائع ہوئیں۔
لیمکے اداروں کو آسان مشورے دیتی ہیں جن کی مدد سے مشمولیت اور وکالت کے مسائل کو بآسانی حل کیا جا سکتا ہے۔وہ بتاتی ہیں”مرکز کی ایک قدر یہ ہے کہ صنف نازک کی تائید ہی ہمارا کام ہے۔ کیمپس میں صرف اکیلے ایک آفس سے تہذیبی تبدیلی واقع نہیں ہوتی۔ہر شخص……طالب علم، استاد یا عملہ ……کو چاہئے کہ وہ اپنی اپنی سطح پر تدبیلی لانے کی کوشش کرے، خواہ وہ تبدیلی کتنی ہی چھوٹی ہو، جس سے مزید مشمولی اور انصاف پر مبنی کیمپس وجود میں آئیں۔طلبہ کو آپ کے ادارے میں کیا کیا پریشانیاں ہو رہی ہیں اور ان کو کیا کیا رکاوٹیں حائل ہیں ان کا جائزہ لیجیے، خود سے سوال کیجیے کہ کوئی پالیسی یا عمل صنف مخصوص کے طلبہ اور اقلیتی شناخت رکھنے والے طلبہ پر کس طرح اثر انداز ہو رہی ہے اور پھر پیشہ وارانہ مشورہ حاصل کیجیے کہ جس سے آپ کے مخصوص رول میں مشمولی عمل پید اہو۔‘‘
کینڈِس یاکونو جنوبی کیلیفورنیا میں مقیم قلمکار ہیں جو جرائد اور روزناموں کے لیے لکھتی ہیں۔
امریکی شہری سوشل میڈیا پروفائلوں میں ضمائر کیوں استعمال کررہے ہیں؟
لینور ٹی اَیڈکِنس
امریکہ میں عام لوگ اپنے ضمائر(وہ الفاظ جو اسم کی جگہ استعمال کیے جائیں)کا بہت تیزی سے استعمال کرنے لگے ہیں۔
امریکی انگریزی کے قواعد میں صیغہ غائب کے ذاتی ضمائر کا استعمال ایک انسان یا کئی لوگوں کو فاعل، مفعول یا کلمہ ملکیت کے اظہار کے لیے ہورہا ہے۔
ان ضمائر میں صنف غیر جانب دار مثلاً ”وہ/ان کو/ان کا“شامل ہیں۔روایتی طور پر ان کا استعمال تو صیغہ غائب کی جمع کے طور پر ہوتا آرہا تھا مگر جدید دور میں ایسے لوگ انفرادی طور پر بھی ان مخصوص ضمائر کا بکثرت استعمال کررہے ہیں جن کا مقصد صنفی تثنیث سے بچنا یا اپنی صنف کے متعلق معلومات فراہم نہیں کرنا ہے۔دیگر ضمائر میں تانیثی ضمائر جیسے وہ/اس کی/اس نے اور تذکیری ضمائر جیسے وہ/اس کا/اس نے/شامل ہیں۔بعض افراد تو زی/زِر/زِرس جیسے صنف غیر جانب دار ضمائر بھی ایجاد کررہے ہیں۔
امریکی شہریوں کی کثیر تعداد ایسی بھی ہے جو اپنے سوشل میڈیا پروفائل پر ان مخصوص ضمائر کا استعمال ناموں کے ٹیگ یا ای میل میں دستخط کرنے کے لیے بھی کررہی ہے۔وہ ان مخصوص ضمائر کا آن لائن، آف لائن میٹنگوں اور دیگر مقامات پر برملا اظہار کر رہے ہیں۔
شیگے ساکورائی گذشتہ پانچ برسوں سے ایک ویب سائٹ www.mypronouns.org سے بطور مصنف وابستہ ہیں مگر اس میں وہ اپنے نام کی جگہ صرف”وہ/ان کو/ان کا“ جیسے ضمائر ہی کا استعمال کرتے ہیں۔ان کو لگتا ہے ضمیراستعمال کرنے سے کسی کو جاننے میں آسانی ہوتی ہے۔ضمائر کو جاننے اور استعمال کرنے سے یہ فائدہ ہوتا ہے کہ کسی شخص کے نام یا صورت سے اس کی صنف کے متعلق پیدا شدہ غلط فہمی کو دور کیا جا سکتا ہے۔
ساکورائی بین الاقوامی یومِ ضمائر کے بانی بھی ہیں۔وہ کہتے ہیں”اس سے لوگوں کے پاس اسی طرح سے پکارے جانے کا موقع ہوتا ہے جس سے وہ پکارے جانا پسند کرتے ہیں۔ نام جاننا بھی ضروری ہے، اور ان کا صحیح تلفظ جاننا بھی بہت اہم ہے۔میرے لیے (ضمائر) ……آپ کے نام اور آپ خود کو کیا کہلوانا پسند کریں گے ……اسی کی ایک توسیع ہیں۔‘‘
حالانکہ صرف ضمائر پر ہی اکتفا کرنا کوئی نیا فیشن نہیں ہے۔ساکورائی کے مطابق یہ معاملہ گذشتہ دوعشروں سے بھی زائد عرصے سے امریکہ میں صنف مخصوص میں رائج ہے۔(ایل جی بی ٹی کیو آئی پلس سے مرادہم جنس پرست خواتین، ہم جنس پرست مرد، دو جنسیا، مخنث، ہم جنس پرست، اور بین صنفی افراد ہیں جبکہ ”پلس“ سے مراد ہر وہ صنفی شناخت اور جنسی رجحان شامل ہے جس کو کسی بھی ابتدائی لفظ سے ظاہر نہیں کیا جاسکتا)۔
ضمیری مہارت
لنکڈاِن، ٹوئٹر، انسٹراگرام اور دیگر سوشل میڈیا نیٹ ورکوں میں صارفین کو اپنے ضمائر بتانے کی سہولت دستیاب ہے۔تھامسن رائٹرس فاؤنڈیشن کی خبر کے مطابق پنٹرسٹ میں بھی یہ سہولت بہت جلد فراہم ہو جائے گی۔ امریکی معاشرہ میں اس رجحان کو قبولیت مل رہی ہے۔پیو تحقیقی مرکز کے سروے کے مطابق ہر پانچ میں سے ایک امریکی شہری کسی ایک ایسے شہری سے ضرور واقف ہے جو کہ صنف غیر جانب دار ضمائر کا استعمال کرتا ہے۔
صدر بائیڈن نے عہدہ سنبھالنے کے چند روزکے اندر جنسی رجحان اور صنفی شناخت کی بنیاد پرتفریق پر قدغن لگانے کے لیے ایک سرکاری حکم نامے پر ستخط کیے۔ حکم نامے کے مطابق انتظامیہ عنوانِ ہفتم اور دیگر قوانین کا بھی نفاذ کرے گا تاکہ صنفی شناخت یا جنسی رجحان کی بنیاد پرتفریق کو ختم کیا جا سکے۔“
وہائٹ ہاؤس کی ویب سائٹ نے ایک ایسے رابطہ فارم کا بھی اجرا کیا ہے جس میں صنف غیر جانب دار ضمائر اور غیرثنائی سابقہ جیسے ’’ایم ایکس‘‘ کا استعمال کیا گیا ہے۔ اور وزارت داخلہ نے ۳۰جون کو اعلان کیا کہ امریکی پاسپورٹ پر درخواست کنندہ کو اجازت ہو گی کہ وہ اپنی صنف مذکر یا مؤنث منتخب کر سکتا ہے، خواہ اس کے دیگر کاغذات میں کچھ اور کیوں نہ درج ہو۔ اور بالآخر اس میں غیر ثنائی اختیارات مثلاً بین جنسی اور صنف نہ ظاہر کرنے والے افراد بھی شامل کردیے جائیں گے۔
متن بشکریہ شیئر امیریکہ
تبصرہ