سائنس،ٹیکنالوجی، ماحولیات اور خلا

ہماری مشترکہ قیادت کی اہمیت میں آنے والی دہائیوں میں اضافہ ہوگا کیوں کہ ہم مصنوعی ذہانت اور خلائی جستجو جیسے مواقع کو استعمال کرکے صاف ہوا کو یقینی بنانے، صاف پانی تک رسائی فراہم کرنے اور جنگلی حیاتیات کی حفاظت جیسے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیےمل کر کام کریں گے۔

January 2021

سائنس،ٹیکنالوجی، ماحولیات اور خلا

وزیر اعظم نریندر مودی نے گوگل کے سی ای او سُندر پچائی سے۲۰۱۵ٗء میں کیلفورنیا کے اپنے دورے کے دوران ملاقات کی۔ مارسیو جوز سانچیز© اے پی امیجیز

امریکہ اور بھارت میں طویل عرصے سے دنیا کو سمجھنے اور اپنے شہریوں کی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے سائنس کا استعمال کر نے کی مشترکہ عہد بستگی ہے۔ ہماری اس لگن کو ہماری دونوں حکومتوں کے ساتھ ساتھ غیرمنافع بخش اداروں جیسے یونیورسٹیوں، سول سوسائٹیوں، فاونڈیشنوں،نجی کمپنیوں اور دونوں ممالک کے لاتعدادلوگوں کی حمایت حاصل ہے۔ اس کی بنیاد ہمارے لوگوں کی تلاش اورحصولیابیوں کی تاریخ پر قائم ہے۔اگر بھارت کی مثال لیں تو اس میں اس کے ہزاروں برس شامل ہیں۔ ہمارا تعاون اپنی زمینوں، پہاڑوں، ہوا، ندیوں اور جنگلی حیاتیات کی حفاظت کے جذبے پر مبنی ہے جو بہت سارے لوگوں کے لیے مقدس اہمیت کے حامل ہیں۔ اگر ہمیں دستیاب قدرتی وسائل کا ذمہ داری کے ساتھ استعمال کیا جائے تو وہ ہماری ترقی کے لیے طاقت کا سبب بن سکتے ہیں اور قدرتی مسکنوں کو تحفظ فراہم کر سکتے ہیں۔

ہمارے دو طرفہ تعلقات میں اضافے کے ساتھ ہی سائنس، ٹیکنالوجی، ماحولیات اور خلا کے شعبے میں بھی ہماری مشترکہ حصولیابیوں میں اضافہ ہوا ہے۔ ان شعبوں میں ہماری قیادت نے عالمی مفاد کے لیے علم کو وسعت دینے میں مدد کی ہے۔ یہ قیادت خاص طور پرہند۔ بحر الکاہل خطے کے مشترکہ آبی علاقے ، عالمی سطح پر آب و ہوا کے معاملات اور خلاکے شعبے میں ہمارے تعاون میں واضح نظر آتی ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان تعاون نے اقتصادی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے اور ہمارے لوگوں کی صحت کو بہتر بنایا ہے۔ ہماری مشترکہ قیادت کی اہمیت میں آنے والی دہائیوں میں اضافہ ہوگا کیوں کہ ہم مصنوعی ذہانت اور خلائی جستجو جیسے مواقع کو استعمال کرکے صاف ہوا کو یقینی بنانے، صاف پانی تک رسائی فراہم کرنے اور جنگلی حیاتیات کی حفاظت جیسے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیےمل کر کام کریں گے۔

سائنس اور ماحولیاتی تعاون کی تاریخ

سائنس، ٹیکنالوجی اور ماحولیات کے شعبے میں امریکہ اور بھارت کا تعاون۱۸ویں صدی میں ہمارے ابتدائی تعامل سے شروع ہو چکاتھا جب تاجر اور کاروباری ہمارے اپنے قدرتی وسائل کی پیداوار، زرعی مشق، اور کپڑوں کو تیار کرنے کی معلومات کےتبادلے کے لیے ہمارے مشترکہ سمندروں کے آر پار سفر کیا کرتے تھے۔ امریکہ جانے والے کچھ ابتدائی بھارتی تارکین وطن ملاح اور بندرگاہ کی گودیوں پر کام کرنے والے لوگ تھے جو مسا چیوسٹس میں آباد ہوگئے تھے تاکہ ریاست کی بندرگاہوں میں اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا سکیں۔۱۸۵۱ء میں بھارتی شہریوں کے ایک گروپ نے ایسٹ انڈیا میرین سوسائٹی کا بینر اٹھا کرمسا چیوسٹس کے سلیم میں ۴ جولائی کی پریڈ میں حصہ لیاتھا۔ پریڈ میں حصہ لینے والوں اور دیگر بھارتی شہریوں نے بھارتی تہذیب میں سائنس اور دریافت کی گہری قدر دانی کی نمائندگی کی جس کی وضاحت پنڈت جابالی نے رامائن میں کی ہے۔ اس کے علاوہ ۵ ویں صدی عیسوی کے ریاضی داں آریہ بھٹ اور۶ٹھی صدی عیسوی کے ماہر فلکیات وَرہا میِہِر نے بھی اس کی وضاحت کی ہے۔

۱۹ویں صدی کےاواخر کے برسوں میں اور۲۰ ویں صدی کے اوائل میں بھارتی شہریوں نے سائنس کی تعلیم کے لیے امریکی یونیورسٹیوں میں پہنچنا شروع کیا۔۱۸۸۲ ءمیں کیشَو ملہار بھٹ نےمسا چیوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی(ایم آئی ٹی) میں پڑھائی کے لیے پونے سے امریکہ کاسفر کیا۔ مہاتما گاندھی اور ان کے ساتھیوں نے امریکہ میں سائنس کی تعلیم حاصل کرنے والے متعددبھارتی طلبہ کی حوصلہ افزائی کی۔ ان لوگوں نےحصولِ علم کی خاطر مالی تعاون حاصل کرنےکے لیے بھارتی صنعت کاروں کو خطوط لکھنے میں بھی مدد کی۔ دی سان فرانسسکو اِگزامِنر کے پُلِٹزر انعام یافتہ سائنس ایڈیٹر گوبند بہاری لال نے۱۹۱۲ ءمیں برکلے میں واقع یونیورسٹی آف کیلیفورنیاسے تعلیم حاصل کی۔ ییلا پراگڈا سُبّا راو۱۹۲۳ ء میں امریکہ آئے اور ہاروڈ میڈیکل اسکول میں ایک نامور بایو کیمسٹ بنے۔

اسی بیچ امیریکن مراٹھی مشن جیسے نجی امریکی گروپ مغربی بھارت کے اسکولوں میں قدرتی علوم کی تعلیم دے رہے تھے۔ راک فیلر فاؤنڈیشن نے کولکاتہ کے اسکول آف ٹراپیکل میڈیسن میں پروٹوزولوجی میں ایک چیئر کی اسپانسرشپ لے کر۱۹۱۶ ءمیں بھارت میں کام کرنا شروع کیااوراس کے بعد کی دہائیوں میں سائنس، طب اور زراعت کے منصوبوں کی حمایت کی۔

۱۹۴۷ءمیں بھارت کی آزادی کے بعدشعبۂ سائنس کے تعاون کو کافی وسعت ملی ۔ تعاون کے لحاظ سے خلائی شعبہ بھی اہمیت کا حامل رہا ہے ۔ ۱۹۶۳ ء میں بھارتی خلائی انجینئروں کی ایک۸ رکنی ٹیم، جس میں مستقبل کے بھارتی صدر اے پی جے عبداکلام شامل تھے، نے والپس فلائٹ فیسیلٹی سمیت ورجینیا اور میری لینڈ میں ناسا کے مراکز سے تربیت حاصل کی۔ اسی سال بھارت نے اپنا پہلا راکٹ(ناسا سے فراہم کردہ نائیکے۔اپاچے راکٹ) خلا میں داغا جس سے بھارت کی اپنی خلائی حصولیابیوں کی راہ ہموار ہوئی۔

۲۰ویں صدی کےنصف آخر میں سائنس کے شعبے میں غیر سرکاری تعاون میں بھی اضافہ ہوا۔ بہت سارے امریکی فاؤنڈیشنوں، کمپنیوں اور یونیورسٹیوں نے بھارت میں کام کرنا شروع کیا یاسائنس، ٹیکنالوجی اور انجینئرنگ میں تعاون کے لیے بھارتی شراکت داروں کے ساتھ تعلقات قائم کیے۔ دوسری جانب امریکہ میں تعلیم حاصل کرکے یا ملازمت سے واپس آنے والے بھارتی شہریوں نے معاشرے میں اکثر نمایاں تعاون پیش کیا ۔ ان میں ایس ایل کِرلوسکر شامل ہیں جنہوں نے ایم آئی ٹی میں انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کی اور بینگالورو میں کِرلوسکر الیکٹرک کمپنی لمیٹڈ اور پونے میں کِرلوسکر آئل انجنس لمیٹیڈ کا قیام کیا۔

امریکہ جانے والے بہت سے بھارتی تارکین وطن سائنس، انجینئرنگ یا متعلقہ شعبوں میں رہنما بن کر سامنے آئے۔ مثال کے طور پر راکیش گنگوال بھارت واپس آ کر ایئر لائن انڈی گو کے شریک بانی بننے سے پہلے ۱۹۹۸ ء میں اپنے انجینئرنگ پس منظر کی بنیاد پر یو ایس ایئر ویز کے سی ای اوبنے۔ ہریانہ میں پیدا ہونے والی کلپنا چاولہ ناسا کی خلانورد بن گئیں اور۱۹۹۷ ءمیں پہلی بار خلا کا سفر کیا۔ سنیتا ولیمس بھی (جن کے والد کے خاندان کا تعلق گجرات سے ہے)ناسا کےخلانوردوں میں شامل ہوئیں۔۱۹۹۰ ءاور ۲۰۰۰ ء کی دہائی میں بہت سے بھارتی سافٹ ویئر انجینئروں نے امریکہ میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کی صنعت کی ترقی میں کافی اہم کردار اد ا کیا۔

سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں تعاون کو فروغ دینے کے لیے۱۹۸۷ ءمیں ۱۱۰ ملین ڈالر کے ایک فنڈ کے قیام سمیت دیگر ذرائع سے امریکہ اور بھارت کے حکومت کے درمیان تعاون میں مزید استحکام پیدا ہوا۔۲۰۰۰ ء میں اس نے ہند۔امریکی سائنس و ٹیکنالوجی فورم کی شکل اختیارکر لی۔۲۰۰۵ ء میں امریکی وزیر خارجہ کونڈولیزا رائس اور بھارتی وزیر سائنس وٹیکنالوجی کپل سبل نے بنیادی سائنس، خلااور دیگر شعبوں میں باہمی تعاون میں اضافے کے لیے سائنس وٹیکنالوجی تعاون معاہدہ پر دستخط کیے۔

۲۰۰۵ءمیں شہری خلائی تعاون سے متعلق ہند۔امریکی مشترکہ ورکنگ گروپ قائم کیا گیا۔۲۰۰۸ءمیں بھارتی خلائی تحقیق کی تنظیم (اِسرو) کا چندریان۔۱ مشن ناسا کے دو پے لوڈ(طیارے کی وزن اٹھانے کی استعداد)لے کر خلا میں پہنچا جس نے چاند پر پانی کے سالموں کی نشاندہی کرنے میں مدد کی۔ ۲۰۱۰ ءمیں امریکہ اور بھارت نے ہند۔امریکہ زرعی مذاکرات اور سائنس و ٹیکنالوجی تعاون سے متعلق مشترکہ کمیشن کے پہلے اجلاس منعقد کیے۔ اس کی مشترکہ صدارت وہائٹ ہاؤس آفس آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی پالیسی کے ڈائرکٹرجان ہولڈرن اور بھارت کے وزیر سائنس، ٹیکنالوجی وارضیاتی سائنسز پرتھوی راج چوان نے کی۔

۲۰۲۰۔۲۰۱۵: اعلیٰ سطحی حمایت سے سائنس اور ٹیکنالوجی تعاون میں اضافہ

سائنس، ٹیکنالوجی اور ماحولیات کے شعبے کے تعاون گذشتہ چند برسوں میں مزید مستحکم ہوا ہے جس میں ہمارے رہنمائوں کی بھی حمایت شامل رہی ہے۔ صدر بارک اوباما نے جنوری ۲۰۱۵ ءکے اپنے دورئہ ہند میں وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ ماحولیات میں تبدیلی اور سائنسی تبادلے سمیت سائنس اور ٹیکنالوجی میں تعاون کو آگے بڑھانے کی مشترکہ کوششوں پر تبادلۂ خیال کیا۔ ستمبر۲۰۱۵ ءمیں وزیر اعظم مودی نے کیلیفورنیا میں سلی کون ویلی کا دورہ کیا۔اس موقع پر انہوں نے گوگل، ٹیسلا اور فیس بک کے دفاتر بھی دیکھے۔ امریکہ میں وزیر اعظم نےڈیجیٹل انڈیا پہل اور بھارت میں نجی شعبے کےساتھ ٹیکنالوجی تعاون کے مواقع پر بھی تبادلۂ خیال کیا۔ جون ۲۰۱۶ ءکے اپنے امریکی دورے میں وزیراعظم مودی اور امریکی صدر اوباما نے بھارت میں لیزر انٹرفیرومیٹر گریوٹیشنل۔ ویو آبزرویٹری کی تعمیر کی حمایت کے لیے ہند۔امریکی مشترکہ نگرانی گروپ کے قیام کا خیرمقدم کیا۔ اس کے علاوہ صدر اوباما اور وزیر اعظم مودی نے واشنگٹن، ڈی سی میں منعقد آور اوشن کانفرنس میں بھارت کی شرکت کا خیر مقدم کیا۔

جون ۲۰۱۷ ء میں صدر ڈونالڈ جے ٹرمپ اور وزیر اعظم مودی نے اس بات پر تبادلۂ خیال کیا کہ کس طرح دونوں ممالک عالمی شراکت دار کی حیثیت سے صحت، خلا، سمندراور سائنس اور ٹیکنالوجی کے دیگر شعبوں میں اپنے تعاون کو مزید مستحکم کرسکتے ہیں۔ ستمبر ۲۰۱۹ ء میں صدر ٹرمپ اور وزیر اعظم مودی نے ٹیکساس کے ہیوسٹن میں ایک عوامی تقریب میں شرکت کی جہاں وزیر اعظم نے توانائی، کیمیکلز اور انجینئرنگ پر کام کرنے والی امریکی کمپنیوں کی قیادت سے ملاقات کی۔ صدر ٹرمپ نے فروری ۲۰۲۰ء کے اپنے بھارت دورے کے موقع پر وزیر اعظم مودی کے ساتھ ایک بار پھر سائنس اور ٹیکنالوجی پر تبادلۂ خیال کیا اور زمین کے مشاہدے، مریخ سے متعلق تحقیق اور آفتاب کی طبیعیات (ہیلیو فزکس) کے بارے میں دو طرفہ پیش رفت کا خیرمقدم کیا۔

سائنس، ماحولیات، ٹیکنالوجی اور اس سے متعلق موضوعات پر باضابطہ باہمی مذاکرات نے ہمارے وسعت پزیر تعاون کو سمت اور وسائل فراہم کیے ہیں۔ صرف۲۰۱۶ ء میں ہی امریکہ اور بھارت نے ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے سے متعلق مشترکہ ورکنگ گروپ، پودوں کی صحت سے متعلق باہمی اجلاس، سائنس و ٹیکنالوجی تعاون سے متعلق مشترکہ کمیٹی میٹنگ کے اجلاس اور جانوروں کی صحت سے متعلق دوطرفہ میٹنگ منعقد کی۔ ہم لوگوں نے ہند۔امریکی زرعی آئوٹ لک فورم (جو ۲۰۱۷ ءمیں زرعی پالیسی اور کاشتکاری میں ٹیکنالوجی کے استعمال پر تبادلۂ خیال کے لیے قائم کیا گیا تھا) اور ہند۔امریکی سمندری مذاکرات جیسے نئے میکانزم کی تشکیل کی۔دنیا کے تمام سمندروں کی صحت کو تحفظ فراہم کرتے ہوئے اقتصادی ترقی کی خاطر سمندری وسائل کے پائیدار استعمال پر تبادلۂ خیال کے لیے گوا میں کونسل آف سائنٹیفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ۔ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اوشینو گرافی (سی ایس آئی آر ۔این آئی او)میں۲۰۱۷ ء میں سمندری مذاکرات شروع کیے گئے تھے۔

انسانیت کے مفاد میں کی جانے والی مشترکہ خلائی تحقیق

حالیہ برسوں میں خلا ہمارے تعاون کا سب سے کامیاب شعبہ رہا ہے جس میں خلا کی عمیق تحقیق کے لیے جدید سیارچے تیار کرنے سے لے کرخلا کے شعبے میں نجی شعبے کے تعاون میں اضافہ تک شامل ہیں۔ہماری حکومتوں نے خلاسے متعلق امور پر نتیجہ خیز بات چیت کی ہے جس میں۲۰۱۵ ء سے ۲۰۱۹ ء میں ہند۔ امریکی شہری خلائی مشترکہ ورکنگ گروپ کے اجلاس شامل ہیں۔ ہم نے۲۰۱۵ ءمیں ایک نئےہند۔امریکی خلائی سلامتی مذاکرات شروع کرکے خلا میں سلامتی سے متعلق ابھرتے امور کے احاطے کے لیے اپنے تعاون میں اضافہ کیا اور۲۰۱۶ءاور۲۰۱۹ ءمیں اس مذاکرات کے مزید دوروں کا انعقاد کیا۔

ہند۔ امریکی خلائی تعاون اور پوری دنیا کے لیے اس کے عزم کی ایک نمایاں مثال مشترکہ ناسا۔اسرو سنتھیٹک اپرچر رڈار (این آئی ایس اے آر) ہے۔ ۱ اعشاریہ ۵ بلین ڈالر کا زمین کا مشاہدہ کرنے والا یہ جدید سیارچہ اس سیارے کے بعض انتہائی پیچیدہ عوامل کی پیمائش اور اسے سمجھنے کے لیے سائنسدانوں کی صلاحیت کو بہتر بنائے گا۔اس کے لیے اسرو ایس بینڈ رڈار فراہم کررہا ہے جب کہ ناسا کی جیٹ پروپلشن لیبارٹری (جے پی ایل)اس کے لیے ایل بینڈ رڈاردےرہی ہے۔ اس پے لوڈ کو۲۰۲۲ ء میں اسرو کے ذریعے خلا میں بھیجے جانے سے پیشتر امریکہ میں یکجا کیا جائے گا۔ جے پی ایل نے اپنے عمیق خلائی نیٹ ورک کے ذریعہ اسرو کے دونوں چندریان چاند مشنوں اور بھارت کے مریخ مدار مشن یعنی منگل یان مشن کے لیے بھی مواصلات میں مددفراہم کی ہے۔ اس کے علاوہ امریکی قومی سمندری اور ماحولیاتی انتظامیہ اور امریکی جیولوجیکل سروے نےترتیب وار عالمی موسم اور زمینی وسائل سے متعلق اعداد و شمار کے اشتراک پر اسرو کے ساتھ تعاون کیا ہے۔

امریکہ کی تجارتی خلائی صنعت تیزرفتار سے بھارت کے ساتھ تعاون کر رہی ہے اور نجی شعبے کی پہل کو استعمال کرنے کے لیے ایک نمونہ تشکیل دے رہی ہے۔ مثال کے طور پر۲۰۱۵ ءکے بعد سے بھارت کے ذریعہ خلا میں بھیجے گئےبیشتر غیر ملکی سیارچے امریکی کمپنیوں ہی کےتھے۔ ۲۰۱۷ ء میں جب اسرو نے ایک راکٹ پر۱۰۴ سیارچوں کوبیک وقت خلا میں بھیج کر عالمی ریکارڈ قائم کیا(جسے بعد میں اَیلن مَسک کی کمپنی ٹیسلا نے توڑ دیا ) تو ان میں سے ۹۶ کا تعلق امریکہ میں نجی کمپنیوں سے تھا۔ اس طرح کے ہند۔امریکی تعاون نے مواصلات میں بہتری سے لے کر سائنسی تحقیق تک بہت سارے عالمی فوائد فراہم کیے ہیں۔

پیشہ ورانہ اور تعلیمی تبادلے کے ذریعے سائنسی معلومات میں اضافہ

حالیہ برسوں میں امریکی اوربھارتی سائنسدانوں کے درمیان تعاون میں کافی اضافہ دیکھا گیا ہے اور یہ امریکی اور بھارتی حکومتوں،غیر منافع بخش اداروں اور نجی کمپنیوں کے درمیان تبادلے کے عمل کی وجہ سے ممکن ہو پایا ہے۔ ستمبر۲۰۱۴ ء میں صدر اوباما اور وزیر اعظم مودی نے موسمیاتی تبدیلی سے متعلق امور سے نمٹنے میں سائنسی تحقیق میں ہماری طویل مدتی صلاحیت کو مستحکم کرنے کے لیے فل برائٹ۔ کلام کلائیمیٹ فیلوشپ کا اعلان کیا۔۲۰۱۶ ء میں اپنے قیام کے بعد سے ۳۱ ڈاکٹریٹ اور پوسٹ ڈاکٹریٹ محققین نے فیلوشپ سے فائدہ اٹھایا ہے۔ مثال کے طور پر۲۰۱۸ ءمیں فل برائٹ ۔کلام فیلو ڈاکٹر جے رمن چلائل نے کیلیفورنیا میں لارینس برکلے نیشنل لیبارٹری سے استفادہ کیا۔ اس کے بعد انہوں نے بھارت میں توانائی کی بچت کرنے والی عمارتوں کے ڈیزائن، تعمیر اور ان کے کام کرنے کے رہنما خطوط شائع کیے۔

نئی دہلی میں واقع امریکی سفارت خانے نے امریکی سائنسدانوں کے ساتھ ملاقات اور بہترین طریقوں کے تبادلے کے لیے انٹرنیشنل وزیٹر لیڈرشپ پروگرام(آئی وی ایل پی) کے تحت درجنوں بھارتی سائنسدانوں کے امریکی دورے کا اہتمام کیا ہے۔ حالیہ پروگراموں میں حیاتیاتی تنوع، صاف ہوا، خلا اور سائنس اور ٹیکنالوجی کی جدت طرازی سمیت دیگر موضوعات پر توجہ دی گئی ہے۔ ہند۔امریکی تعلیمی فاؤنڈیشن نے بایو انجینئرنگ، آب و ہوا سے متعلق سائنس، مصنوعی ذہانت اور طبیعیاتی سائنسیز جیسے شعبوں میں امریکہ میں تحقیق کے لیے بھارتی طلبہ کے لیےفل برائٹ۔ نہرو فیلوشپ پروگرام کے تحت متعدد قسم کےعطیات فراہم کیے ہیں۔ امریکی سفارت خانہ نے سائنس اور فضائی آلودگی جیسے شعبے میں خواتین کی مدد کرنے جیسے معاملات پر بھارت میں سائنس کےطلبہ کے ساتھ تعاون کے لیے متعدد سائنس فیلوز کی امریکہ سے آمد کا بھی اہتمام کیا ہے۔

فضائی آلودگی سے نمٹنے کی خاطر تعاون میں اضافہ

حالیہ برسوں میں امریکہ اور بھارت نے دونوں ممالک میں صحت اور اقتصادی ترقی کے لیے ایک سنگین چیلنج فضائی آلودگی کو کم کرنے کے لیے باہمی تعاون کو وسعت دی ہے۔ امریکہ نے ہوا کے معیار کو بہتر بنانے کے ہمارے اپنے تجربات پر توجہ دیتے ہوئے سائنسی تبادلے، تکنیکی تعاون اور ڈیٹا اکٹھا کرنے کے عمل کے ذریعہ بھارت کی فضائی آلودگی کو بہتر طور پر سمجھنے اور اس کی نگرانی کے لیے بھارت کی کوششوں میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

امریکی سفارت خانے نے نئی دہلی میں واقع اپنے دفاتر اور چنئی، حیدرآباد، کولکاتہ اور ممبئی میں اپنے قونصل خانوں میں جدید قسم کے ہوائی معیار کی نگرانی کرنے والے آلات نصب کیے ہیں۔ ان سے متعلق معلومات کو وہ بھارتی سائنسی برادری اور عوام کے ساتھ مشترک بھی کرتے ہیں۔ امریکی سفارت خانے نے ڈیٹا اکٹھا کرنے کے عمل میں تیزی لانے کے لیے شمالی بھارت کے اسکولوں اور دیگر تعلیمی اداروں کو۵۵ سے زیادہ کم لاگت والے ہوا کے معیار کی نگرانی کرنے والے سنسر فراہم کیے ہیں۔ ایئر کوالٹی سینسر فراہم کیے ہیں۔اپنے اس قدم سے امریکی سفارت خانے نےطلبہ کے درمیان فضائی آلودگی کے تئیں دلچسپی کو بھی تحریک دینے کا کام کیاہے۔دی مِنٹ میں شائع فروری ۲۰۲۰ ء کے اپنے ایک مضمون میں ایمبسڈر کینتھ آئی جسٹر نے فضائی آلودگی سے نمٹنے میں امریکہ کے ان تجربات پر روشنی ڈالی جس پر بھارت عمل کر سکتا ہے۔

ہوا کے معیارکے لیےامریکی سائنس ایلچی ڈاکٹر جیمس شاوَنے بھارتی محققین، سرکاری عہدیداروں اور سِول سوسائٹی کی تنظیموں کے ساتھ فضائی آلودگی سے متعلق بہترین طریقوں کے نفاذ اور فضائی آلودگی کی تخفیف کے بہترین طریقوں پر تبادلۂ خیال کے لیے ۲۰۱۸ ءاور ۲۰۱۹ ءمیں بھارت کا دورہ کیا۔۲۰۱۵ءمیں امریکی قومی ادارہ برائے ماحولیاتی صحت سائنسیز کے ڈاکٹر سری نادادورنے شراکت داروں کے ساتھ فضائی آلودگی اور صحت پر پڑنے والے اس کےاثرات کی تحقیق کے پروگرام پر کام کے لیے نئی دہلی میں تین ماہ گزارے۔ یو ایس سینٹرس فور ڈزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن اور نیشنل انسٹی ٹیوٹس آف ہیلتھ نے بھارت میں انڈین کونسل آف میڈیکل ریسرچ اور دیگر شراکت داروں کے ساتھ کھانا پکانے اور اسے گرم کرنے کے لیے ٹھوس ایندھن کے گھریلو استعمال کو کم کرنے اور بڑھتی فضائی آلودگی سے نمٹنے پر کام کیا ہے۔

ان سرکاری پروگراموں کے علاوہ بہت سارے امریکی اور بھارتی ماہرین تعلیم ہوا کے معیار کی تحقیق میں تعاون کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر اٹلانٹا میں واقع ایموری یونیورسٹی، چنئی میں سری رام چندر انسٹی ٹیوٹ آف ہائر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ کے ساتھ گھرمیں کھانا پکانے کے لیے مائع پٹرولیم گیس کے استعمال کے فوائد کا مطالعہ کرنے پر کام کر رہی ہے۔ یہ تحقیق وزیر اعظم مودی کے اُجّولا یوجنا پروگرام کے موافق ہے جو بھارت کے لاکھوں کنبوں کو ایل پی جی کے لیے رعایت فراہم کرتی ہے۔

صنعتی اخراج میں شفافیت میں اضافے کی خاطر بھارت کی کوششوں میں مدد کے لیے امریکی ایجنسی برائے بین الاقوامی ترقی (یو ایس ایڈ) نے اہم کردار ادا کیا ہے ۔ اس کے لیے یو ایس ایڈ نے ۲۰۱۷ ءمیں صنعتی پلانٹوں کے لیے اسٹار ریٹنگ پروگرام شروع کرنے کی خاطربھارتی شراکت داروں کے ساتھ مل کرکام کیا۔ مہاراشٹر اور گجرات میں اس کے کامیاب آغاز کے بعد دیگر ریاستوں نے لازمی آلودگی انکشاف اسکیم پر عمل کرنے کے اپنے ارادے کا اعلان کیا ہے۔یو ایس ایڈ نے گجرات کے سورت میں ایک پائلٹ پروگرام کی بھی حمایت کی جو آلودگی میں کمی کے لیے بازار پر مبنی ضابطوں کی سہولت فراہم کرتا ہے۔ گجرات پولیوشن کنٹرول بورڈ کی حمایت یافتہ اور یونیورسٹی آف شکاگو میں انرجی پالیسی انسٹی ٹیوٹ کے ذریعہ تیار کیا گیا یہ پروگرام، بھارت اور دنیا میں ذرّوں کے اخراج کے لیے پہلاکیپ اینڈ ٹریڈ پروگرام ہے۔

اس کے علاوہ امریکی کمپنیوں نے ایسی ٹیکنالو جیز کی فراہمی کے ذریعے فضائی آلودگی کے خلاف جنگ میں حصہ لیا ہے جو ذرّاتی مادے کے اخراج کو کم کرتے ہیں اور توانائی کی کارکردگی کو بہتر بناتے ہیں۔ مثال کے طور پر بھارت ہیوی الیکٹریکلس لمیٹڈ نے ایک تھرمل پاور پروجیکٹ کے لیے۲۰۱۸ ء میں جی ای پاور سے جڑواں بوائلر آلات خریدے جو توانائی کی استعداد میں اضافہ اور آلودگی کو کم کریں گے ۔

ذریعہ معاش کو فروغ دینا اور جنگلات اور جنگلاتی زندگی کا تحفظ کرنا

حالیہ برسوں میں امریکہ اور بھارت نے بھارت کے قابل ذکر قومی وسائل اور جنگلات کی زندگی کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے شراکت کی ایک طویل تاریخ کو وسعت دی ہے۔ یوایس فش اینڈ وائلڈ لائف سروس (یو ایس ایف ڈبلیو ایس) کے بھارت میں۱۹ فعال پروگرام چلتے ہیں جس میں برفانی چیتے کے لیے معاشرے کی حمایت کی تشکیل سے لے کر بھارت کے سمندری کچھوئوںکے مسکن کی حفاظت تک شامل ہیں۔ یو ایس ایف ڈبلیو ایس نے بھارت کے مغربی گھاٹوں میں ہاتھیوں کے مسکن کے آس پاس ناموافق علاقوں میں تحفظ اور تعلیم کے ذریعہ ایشیائی ہاتھیوں کی حمایت کی تشکیل کے لیے ۲۰۱۹ ء میں ایک تین سالہ پروگرام شروع کیا۔ دیگر یو ایس ایف ڈبلیو ایس گرانٹس نے آسام اور اروناچل پردیش میں بنگال ٹائیگرس، ایک سینگ والے گینڈوں اور ہولوک لنگوروںکے تحفظ کی حمایت کی ہے۔

جانوروں کی مختلف انواع کے لیے ایک بڑا خطرہ یعنی ان کی اسمگلنگ کو روکنے کے لیے بھی امریکہ اور بھارت شراکت داری کر رہے ہیں۔ ۲۰۱۸ ءمیں امریکی محکمۂ خارجہ کے بیورو آف انٹرنیشنل نارکوٹکس اینڈ لا انفورسمنٹ افیئرس نے وائلڈ لائف کنزرویشن سوسائٹی آف انڈیا اور وائلڈ لائف ٹرسٹ آف انڈیا کوایک ملین ڈالر کا عطیہ فراہم کیا جس کا مقصد جنگلی جانوروں کی اسمگلنگ کو روکنے کے بہترین طریقوں پر بھارت کے مقامی اور قومی سطح کے افسران کو تربیت دینا تھی۔ وائلڈ لائف کنزرویشن سوسائٹی کے مطابق ان پروگراموں کے ابتدائی اعدادوشمار یہ ظاہر کرتے ہیں کہ جن علاقوں میں منصوبے جاری رہے ہیں ان میں جنگلی جانوروں کی اسمگلنگ کے جرائم میں سزا دلانے میں سو فیصد اضافہ دیکھا گیا ہے۔

۲۰۱۴ءسے ۲۰۱۹ ءتک یو ایس ایڈ نے مرکزی بھارت میں شیروں کی آبادی کو تحفظ فراہم کرنے کے لیےٹائیگر میٹرس نامی پروگرام کی حمایت کی ہے۔ وائلڈ لائف کنزرویشن ٹرسٹ کے ساتھ کیے گئے اس پروگرام میں جنگل اور جنگلی جانوروں کے لیے کام کرنے والے ہزاروں ملازمین کو تربیت دی گئی اور شیروں کے تحفظ کے لیے مہاراشٹرا میں عمریڈ ۔کارہنڈلہ اور گھوڑازری وائلڈ لائف سینکچوری جیسے نئے محفوظ مقامات قائم کرنے میں مدد ملی۔

امریکہ اور بھارت نے بھارت کے جنگلات اور ماحولیاتی نظام کے قابل ذکر حیاتیاتی تنوع کو محفوظ رکھنے کے لیے بھی مل کر کام کیا ہے۔ وزارت ماحولیات، جنگلات و تبدیلی آب و ہوا اور کرناٹک، مدھیہ پردیش، سکم اور ہماچل پردیش کے ریاستی محکمۂ جنگلات کے ساتھ شراکت میں یو ایس ایڈ نے بھارت میں جنگلات کی ماحولیاتی صحت اور کاربن ذخائرکو بہتر بنانے کے لیے نظم و نسق کے نئے طریقوں کو تیار کیا اور اس کے ساتھ ہی جنگل پر منحصر لوگوں کے ذریعہ معاش میں بہتری لانے پر کام کیا۔ یو ایس ایڈ کے فاریسٹ پَلَس پروگرام نے کاربن ذخائر اور اس کی فراہمی کے زیادہ درست اندازے کی خاطر بھارت میں جنگل کی صورت حال کا اندازہ لگانے کے لیے ریموٹ سینسڈ ڈیٹا ماڈل(دور سے اعداد وشمار حاصل کرنے کا عمل) اور ضابطوں پر فاریسٹ سروے آف انڈیا کے ساتھ کام کیا۔

صاف و شفاف پانی، صاف و شفاف دنیا

امریکہ اور بھارت کی حکومتوں نے غیر منافع بخش اور نجی شعبے کے شراکت داروں کے ساتھ صاف و شفاف پانی تک رسائی کو بہتر بنانے کے لیے تعاون میں اضافہ کیا ہے۔ دسمبر۲۰۱۹ ءمیں امریکی جیولوجیکل سروے اور بھارت کی جل شکتی کی وزارت نے آبی تعاون سے متعلق ایک معاہدے پر دستخط کیے۔ چنئی میں واقع امریکی قونصل جنرل نے واٹر مَیٹرس (پانی اہم ہے)کے نام سے ایک کثیر الجہتی دو سالہ مہم کے لیے واشنگٹن، ڈی سی میں واقع اسمتھ سونین انسٹی ٹیوشن کے ساتھ شراکت کی۔اس مہم نے پانی کے پائیدار بندو بست کے لیے عوام میں زیادہ سے زیادہ بیداری اور حمایت کی حوصلہ افزائی کی۔ یو ایس ایڈ نے صاف پانی کی فراہمی کے ساتھ فضلہ کی نکاسی کے فعال نیٹ ورک کو جوڑ نے کو یقینی بنانے کے لیے۲۰۱۵ ء میں وزیر اعظم مودی کے ذریعہ شروع کیے گئے اٹل مشن فارر ریجووینیشن اینڈ اَربن ٹرانسفارمیشن کو تکنیکی امداد فراہم کی ۔

امریکی حکومت نے ندیوں کو پائیدار بنانے اور اس کے پانی کو محفوظ رکھنے کی خاطر اس کے جنگل والے آب گیرہ علاقے کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے بھی بھارتی شراکت داروں کے ساتھ کام کیا ہے۔ یو ایس ایڈ فی الحال وَن(جنگل) سسٹم سمیت وفاقی اور مقامی عہدیداروں کے لیے جنگل کے انتظام کے نئے طریقوں کو تیار کرنے کی خاطر بھارتی وزارت ماحولیات، جنگلات و موسمیاتی تبدیلی کے ساتھ کام کر رہا ہے۔ کیرل، تلنگانہ اور بہار میں جنگلاتی علاقوں کے ۳ لاکھ ہیکٹر رقبے کے جنگل والے علاقے سے ڈیٹا اکٹھا کرنے کے لئے وَن نظام پہلے ہی نافذ کیا جا چکا ہے جس سے کیرل کے محکمۂ جنگلات کو جنگل کے بندوبست کے طریقۂ کارکو تازہ ترین طور طریقوں کے مطابق ڈھالنے میں مدد مل رہی ہے۔

امریکی کمپنیوں نے رہائشی، زرعی اور صنعتی مقاصد کے لیے پانی کو زیادہ مؤثر طریقے سے استعمال کرنے کے طریقے سمیت جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ ان کوششوں میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ مثال کے طور پر مین میں واقع آئی ڈی ای ایکس لیبارٹریز پانی کے معیار اور حفاظت کے لیے جانچ کی سہولت فراہم کرنے والا ایک عالمی رہنما قائد ادارہ ہے۔ اس نے بہت سے بھارتی شراکت داروں اورخدمات لینے والوں کے ساتھ کام کیا ہے۔ اس نے حال ہی میں بھارت کی متعدد ریاستوں میں پانی کی جانچ کی خدمات فراہم کرنے کے لیے بینگالورومیں ایک دفتر قائم کرکے بھارت میں اپنے کام کی توسیع کی ہے۔

سائنس میں تعاون کا ایک صاف ستھرا، زیادہ بارآور اور پائیدار مستقبل ہے

امریکی اور بھارتی شہریوں نے طویل عرصے سے اپنے علم کو مشترک کرنے، اپنی دنیا کی تحقیق کرنے اور قدرت کے عجائبات کے تحفظ کے لیے شراکت داری کی ہے۔ ہماری مشترکہ کوششوں سے ہمارے عوام، ہمارے قدرتی ماحول اور ہمارے سیارے کو فائدہ ہوا ہے۔ بہت ساری علمی، سائنسی، اور تجارتی ٹیکنالوجیز اور کارنامے اس ریکارڈ کے گواہ ہیں۔

لیکن ہنوز بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ ہمیں ایسا کرنا ہے جو ہماری ترقی میں اپنا کردار ادا کرے اور یہ یقینی بنائے کہ ہم اسے صاف وستھرے، اخلاقی اور پائیدار طریقے سے انجام دیں۔ معروف جمہوری ممالک ہونے کی حیثیت سے ہم جانتے ہیں کہ ہمارے ملک اور پوری دنیا کے تئیں یہ ہماری ذمہ داری بھی ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ ہم کامیابی کے لیے اپنے لوگوں کی صلاحیتوں اور جدت طراز خیالات کو راغب کر سکیں گے۔

سائنس میں مساوی مواقع کو یقینی بنانا

سائنسی اور تکنیکی اختراعات کو فروغ دینے کے امریکہ اور بھارت کے عزم میں یہ یقینی بنانا بھی شامل ہے کہ ہر ایک کوسائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور ریاضی(اسٹیم شعبہ جات) کی تعلیم کے حصول اور ملازمت کا مساوی موقع ملے۔ توانائی کے شعبے میں خواتین کی قیادت کو فروغ دے کر صنفی مساوات حاصل کرنے کے لیے یو ایس ایڈ نے ہند۔امریکی عسکری شراکت داری فورم کے ساتھ ایک پلیٹ فارم تشکیل دیا ہے۔ اس کے علاوہ امریکی سفارت خانے نے لڑکیوں کو سائنس، ٹیکنالوجی، انجنیئرنگ اور ریاضی(اسٹیم شعبہ جات) میں کریئر بنانے کی ترغیب دینے کے لیے متعدد پروگراموں کا اہتمام کیا ہے۔۲۰۲۰ ءکے اوائل میں امریکی سفارت خانے نے ایک تقریب کا اہتمام کیا جس میں نئی دہلی کے ایک علاقے میں لڑکیوں کو مائکروسکوپ فراہم کیا گیا اور ان کا استعمال آلودہ اور صاف پانی کے درمیان فرق کو دیکھ کر پانی کے معیار کی جانچ میں کیا گیا۔۲۰۱۹ ءمیں بیورو آف اوشنس اور بین الاقوامی ماحولیاتی اور سائنسی امور کی پرنسپل ڈپٹی اسسٹنٹ سکریٹری مارسیا برنیکیٹ نے بھارت میں خواتین کے لیے سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور ریاضی کے پیشے میں حصہ داری کے تعلق سے تبادلۂ خیال کے لیے بھارت کی حکومت اور غیر سرکاری تنظیم کی برادری سے تعلق رکھنے والی خواتین رہنماؤں سے ملاقات کی۔۲۰۱۶ ءمیں ناسا کی خلانورد سنیتا ولیمس نے سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں لڑکیوں کو اپنے خوابوں کی تکمیل کے تئیں ترغیب دینے کے لیےاسٹیم راؤنڈ ٹیبل کا انعقاد کیا۔

مانسون کو سمجھنے کے لیے مل کر کام کرنا

۲۰۱۲ء میں امریکی دفتر برائے بحری تحقیق نے مانسون کے بادلوں کی تشکیل میں سمندری سطح اور ماحول کے مابین تعامل کا مطالعہ کرنے کے لیے ایک ۵سالہ پروگرام کی مالی اعانت فراہم کی۔ بھارت کی وزارت برائے ارضیاتی سائنس کے اشتراک سے اس پروگرام کا اہتمام کیا گیا ۔ سمندری درجہ حرارت اور مانسون کو متاثر کرنے والے عوامل کے بارے میں مزید تفہیم موسم کی پیش گوئیوں کو زیادہ درست بنانے اور قدرتی آفات سے متعلق پیش گوئیوں کو بہتر بنانے میں مدد کرے گی۔ اس کے علاوہ یہ زرعی منصوبہ بندی اور دیگر معاشی سرگرمیوں میں بھی بہتری لائے گی۔

وزیر اعظم نریندر مودی کےسوملین بیت الخلا کے تعمیراتی منصوبہ سوچھ بھارت کی حمایت میں یو ایس ایڈ نے ٹوائلٹ لوکیٹرتیار کرنے میں گوگل اور حکومت ہند کے مابین شراکت میں شمولیت اختیار کی جس سے شہریوں کو عوامی بیت الخلا تلاش کرنے میں اور ان کی صورت حال کے متعلق حقیقی وقت میں ردعمل فراہم کرنے میں مدد ملتی ہے۔



تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے